یتیم
(از: سید عاطف علی)
میرے پیچھے لوگوں کی ایک طویل قطار تھی۔ پہلے مجھے لگا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں اور واقعی کسی امدادی کیمپ کی راشن یا رقم کی وصولی کی قطار میں کھڑا ہوں۔ مگر یہ ایک منفرد قطار تھی، یہاں لوگ کچھ لینے کے لیئے نہیں کھڑے تھے۔سامنے ایک دروازہ تھا جس کے پیچھے ایک میز پر کوئی صاحب بیٹھے باری باری لوگوں کو اندر بلا رہے تھے۔ اس میز کے پیچھے کیا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا، یا کم سے کم میں نہیں جانتا تھا۔ میں نے پہچھے مڑ کر دیکھا تو ہر شخص کے ہاتھ میں ایک گٹھری تھی جس کی جسامت ہر شخص کے لحاظ سے مختلف تھی۔ میں نے خود پر نظر کی تو دیکھا کہ میرا ہاتھ اور دامن بالکل خالی ہے اور میرے ساتھ جو گٹھری ٹنگی تھی اس میں میں بھی بجز خواہشات کے کچھ نہ تھا۔ میں گھبرا گیا کہ میں اس میز والے بابو کے پاس کیا جمع کروائوں گا؟ آخر مجھے اس قطار میں کھڑے ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اگر یہاں پر بھی سب کے سامنے شرمندگی ہی جھیلنی تھی تو یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ میں ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ میری باری آگئی اور میں خود کو کوستا ہوا بوجھل قدموں سے دروازہ پار کر کے اس بابو کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔ نام؟ میز والے بابو نے مجھ سے پوچھا۔ جی، عاطف علی! بابو نے رجسٹر میں جلدی جلدی صفحے پلٹے اور پھر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر اب استعجاب تھا گوہا اس نے رجسٹر میں میرے بارے میں کچھ عجیب چیز پڑھ لی ہو۔ کچھ لحظے ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر اس نے مجھ سے پوچھا، وجۃ موت؟ جی ۔۔۔ خودکشی! میں نے تھوک نگلتے ہوئے بڑی مشکل سے جواب دیا۔ بابو کے چہرے پر اب تھوڑا اطمینان تھا گویا وہ جان گیا ہو کہ میں اس کٹی پهٹی حالت میں یہاں کیا کر رہا ہوں۔ اس نے کرسی کی پشت پر کمر سیدھی کی اور بولا۔ تم جانتے تھے کہ خودکشی حرام ہے؟ جی میں جانتا تھا، میں نے کہا۔ وہ بولا، پھر بھی؟ اور تم یہ بھی جانتے تھے کہ خودکشی تمہاری موت کا وقت تبدیل نہیں کرسکتی اور اگر تم یہ کام نہ کرتے تو تب بھی موت نے تمہیں وقتِ مقررہ پر آ ہی لینا تھا۔ کم سے کم حرام موت تو نہ مرتے! میں سر جھکا کر اس کی باتیں سن رہا تھا مگر میرے اندر کا لاوہ اب پھٹنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی ضبط قائم رہے مگر پھر بھی بول پڑا، اگر آپ یہاں مجھے ذلیل کرنے کیلئے بٹھائے گئے ہیں تو آپ ناکام ہیں کہ میں اس سے زیادہ ذلت پیچھے دنیا میں دیکھ آیا ہوں۔ اور اگر یہ میرے حساب کتاب کا حصہ ہے اور میرا رب چاہتا ہے کہ میں دنیا کے بعد آخرت میں بھی بے عزت رہوں تو مجھے اپنے رب کا فیصلہ منظور ہے۔ میز والا بابو اب کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر اب ایک عمیق سنجیدگی تھی۔ اس نے پوچھا، میں جاننا چاہوں گا کہ وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے تم اس فیصلے پر مجبور ہوئے؟
مجھے ایک لحظے کو سمجھ نہیں آئی کہ کہاں سے شروع کروں۔ کوئی ایک وجہ ہوتی تو شاید مجھے اتنا سوچنا نہ پڑتا۔ بچپن سے لیکر آدھے گھنٹے پہلے تک کہ جب میں یہاں پہنچا تھا، میں نے ہر لحظہ ہی تو موت کی خواہش کی تھی۔ مجھے بچپن سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ میری ہر خواہش موت سے کہیں نہ کہیں جڑی ہوتی ہے۔ بریانی کھانی ہے تو ساتھ والی بستی میں کسی امیر کے گھر ہونے والی موت کا انتظار کہ وہاں جاکر قرآن خوانی کرو اور ثواب کے بدلے بریانی کا سودا کرو۔ محلے میں کھیلنے کیلئے جگہ چاہیئے تو بڑے لڑکوں کے مرنے کی دعا کرو کہ ان کے ہوتے ہوئے اس جگہ پر کھیلنا نا ممکن تھا۔ جب بڑے ہو اور اس قابل ہوجائو کہ بزورِ بازو جگہ حاصل کرسکو تو ورکشاپ کے مالک کے مرنے کی دعا کرو جو صبح نو سے رات گیارہ تک گدھوں کی طرح مشقت کرواتا تھا اور کھیل تو کیا سانس لینے تک کی مہلت تک کو نمک حرامی گردانتا تھا۔ شادی کرنی ہے تو پسند کی شادی کی خواہش میں فیتے کے مرنے کی دعا کرو کہ اس کے پاس موٹرسائیکل تھی اور جمیلہ نے اس موٹرسائکل کے لالچ میں مجھ سے منگنی توڑ کر اس سے بیاہ رچا لیا تھا۔ جب اپنی شادی ہوجائے تو سکون کی خواہش میں رشید پٹھان کی موت کی دعا کرو جو ہر ماہ سود کی قسط لینے دروازے پر آ دھمکتا تھا۔ زندگی میں کونسی ایسی خواہش تھی جس میں موت کسی نہ کسی بہانے سے در نہ آتی ہو؟ اور کل تو حد ہی ہوگئی تھی۔ پچھلے دو ماہ سے میں بیروزگار تھا اور محلے کے سب دکاندار اب مزید ادھار دینے سے انکاری تھے۔ بچے صبح سے بھوک کی وجہ سے رو رہے تھے۔ آج انہوں نے طے کر لیا تھا کہ وہ یہ چائنیز پانی سوپ نہیں پیئیں گے جس کا ذائقہ بالکل پانی کی طرح ہوتا ہے اور اماں کے کہنے کے باوجود اس کے ختم ہونے کے بعد اس کے پیالے میں وہ مرغی کی بڑی والی بوٹی نہیں آتی جس کا اماں نے وعدہ کیا ہوتا تھا۔ مجھ سے بچوں کا اس طرح رونا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ بیروزگار سہی، مگر بہرحال میں ایک باپ تھا۔ میں نے بچوں کو ساتھ لیا اور رشید کی دکان سے ادھار لینے کیلئے نکل پڑا۔ بچے بھی باہر آکر بہل گئے تھے کہ ایک تو عام حالات میں انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی کہ خوامخواہ باہر جائیں گے اور محلے کے دوسرے بچوں کو کھاتا پیتا دیکھ کر خواہشات نامی جان لیوا بیماری ساتھ گھر لے آئیں گے۔ اور دوسرا ان معصوموں کو یہ لگتا تھا کہ ابا کھانا لینے جارہے ہیں اور یہ کھانا گھر والے کھانے کی طرح نہیں ہوگا بلکہ اس کے ختم کرنے کے بعد اس میں واقعی مرغی کی بڑی والی بوٹی نکلے گی۔ اس مرغی کی بوٹی کا تصور ان دونوں ننھے ذہنوں کیلئے بڑا نشاط انگیز تھا۔ انہوں نے آج تک کبھی مرغی چکھی نہیں تھی۔ وہ دونوں بچے اکثر اس ایک کمرے کے گھر میں بیٹھ کر اس بات پر بحث کیا کرتے تھے کہ مرغی کا ذائقہ کیسا ہوتا ہوگا۔ اس وقت بھی دونوں اس مرغی کی بوٹی کے ممکنہ ذائقے پر بحث کرتے ہوئے میرے ہمراہ چل رہے تھے۔ میں بلاوجہ سڑکیں ناپ رہا تھا کیوںکہ مجھے رشید سے ادھار کی تو امید تھی مگر اس ادھار سے پہلے کی ذلت کیلئے میں ہمت جمع کرنا چاہتا تھا۔
مسجد کے باہر سے گذرا تو سوچا آج بچوں کو ساتھ لیکر مسجد کے باہر ہی بیٹھ جائوں کہ آنے جانے والے نمازی ہی کچھ مدد کرجائیں۔ مگر پھر یاد آیا کہ میں تو خود اس مسجد کا باقاعدہ نمازی تھا، اگر کسی نے مدد کرنی ہی ہوتی تو میرا حال اور حلیہ دیکھ کر ہی مدد کر دیتا۔ ویسے بھی مسجد اب صرف نماز پڑھنے کی جگہ تھی۔ یہاں سوائے مسجد کی تعمیر کے، کسی بھی قسم کی مالی امداد کا سوال کرنا گناہِ کبیرہ تھا۔ ایسا مولوی صاحب نے پچھلے ہفتے بشیر کو بولا تھا جو شاید میری طرح ہفتوں کے فاقوں سے نڈھال ہوکر مسجد میں کھڑا ہوگیا تھا۔ میں نے اس خیال کو ترک کردیا اور آگے چل پڑا۔ سڑک ناپتے ناپتے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب میں کچی بستی سے نکل کر امیروں کی بستی میں داخل ہوگیا ہوں۔ بچے بھی اب اپنی بحث بھول کر اردگرد موجود بڑی بڑی گاڑیوں اور شاندار محلات کو حیرت و شوق سے دیکھ رہے تھے۔ آج اس امیر بستی میں زبردست چہل پہل تھی، تھوڑا اور آگے گیا تو اس کی وجہ سمجھ آگئی۔ ایک بڑا سارا کیمپ تھا جس میں بنیادی راشن سے لیکر کھانے پینے کی وہ تمام اشیاء بھی موجود تھیں جن کے میں نام تک نہیں جانتا تھا۔ میری بیٹی نے ایک ڈبے کی طرف اشارہ کرکے مجھے کہا، ابا وہ دیکھو جوس! پچھلے مہینے کلو چاچا کا بیٹا یہ والا جوس پی رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس کو پی کر بالکل اصلی آم جیسا مزہ آتا ہے۔ ابا یہ آم کا مزہ کیسا ہوتا ہے؟ میرے پاس اس کے فضول سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ میں تیز قدموں سے ان دونوں کو لیکر کیمپ کے اندر داخل ہوگیا۔ کیمپ میں چند نوجوان لڑکے لڑکیاں موجود تھے جنہوں نے جینز کے اوپر پاکستان کے جھنڈے والی قمیضیں پہن رکھی تھیں۔ ان میں سے ایک تیزی سے میری طرف آیا اور بولا، دیٹ از دا اسپرٹ مین، سر آپ کیا ڈونیٹ کرنا چاہیں گے؟ مجھے اس کی آدھی بات تو سمجھ نہیں آئی مگر مجھے لگا کہ وہ مجھ سے میری ضرورت کا پوچھ رہا ہے۔ میری آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔ خدا نے ان نوجوانوں کی شکل میں میرے لیئے فرشتے بھجوائے تھے۔ میں نے اس سے کہا، بابو جو آپ دے سکتے ہو دے دو بچوں کے کام آجائے گا۔ میری بات سنتے ہی گویا نوجوان کو بچھو کاٹ گیا۔ اس نے تمام لڑکے لڑکیوں کو جمع کیا اور اس کے بعد اگلے پانچ منٹ تک وہ لوگ مل کر مجھے سمجھاتے رہے کہ ملک کے ایک کونے میں چند بے گھر افراد ہیں اور ان سب کو ہماری مدد کی بےحد ضرورت ہے اور ہمیں ذاتی ضروریات سے بالاتر ہوکر ان کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ میں ان جتنا پڑھا لکھا تو نہیں تھا کہ ان سے بحث کرتا۔ میں نے چاہا کہ انہیں مولوی صاحب کی سنائی ہوئی حدیث سنائوں کہ تمہارے خاندان اور محلے کے غریب کا تم پر پہلا حق ہے مگر اتنی دیر میں کچھ ٹرک آکر کیمپ کے باہر کھڑے ہوگئے۔ سب لوگوں نے اپنے اپنے موبائل نکالے اور اس سامان کے ساتھ ایک دوسرے کی تصویریں لینے لگے۔ میں کونے میں کھڑا ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے کھڑی کافی دیر ہوگئی تو ان میں سے ایک لڑکی میری سمت آکر بولی، انکل کیمپ میں پلیز رش نہ لگائیں۔ اس بار مجھے پتہ تھا کہ وہ مجھ سے باہر جانے کیلئے کہا جارہا ہے۔ جاتے جاتے میں نے پلٹ کر اس سے پوچھا کہ بستی والوں کیلئے یہ کیمپ کب لگے گا تو وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی چلی گئی۔ اب میں باہر آکر ٹرک کو بھرتے ہوئے حسرت سے دیکھنے لگا۔ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا؟ اگر کراچی میں بھی آپریشن ہوجاتا تو میں بچوں کو وہیں چھوڑ آتا۔ مگر کراچی میں نہ زلزلہ آتا ہے نہ سیلاب اور نہ آپریشن۔ میں قسمت کا نوحہ پڑھتے ہوئے واپس بستی آگیا۔
رشید کی دکان پر پہنچا تو دیکھا دکان پر تالہ پڑا تھا۔ برابر والے منیر نے بتایا کہ وہ گائوں گیا ہوا ہے اور اگلے ہفتے آئے گا۔ ادھار کا آخری سہارہ بھی ڈوب چکا تھا۔ بچے اب بھوک کے ساتھ ساتھ تھکن سے بھی پریشان تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کروں۔ بےدلی سے میں گھر کی طرف چلنا شروع ہوا تو دیکھا گلی کے باہر این جی اور کی نئی چمچماتی گاڑی کھڑی ہے اور محلے کے سب بچے اس کے شیشے سے لگ کر اندر جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے اپنے بچپن کے دن یاد آگئے۔ غریب کی زندگی میں چونکہ وقت ساری عمر ایک سا رہتا ہے اس لیئے غریب کی دنیا بھی برس ہا برس گذرنے کے باوجود ایک سی ہی ہوتی ہے۔ میرے دونوں بچوں کو محلے کے بچوں نے گھیر لیا اور انہیں بتانے لگے کے کس طرح این جی اور والی یہ آنٹی مرحوم جاوید کے یتیم بچوں کیلئے ہر ماہ کی طرح کھلونے، کتابیں، چاکلیٹ اور مرغی کا برگر لیکر آئی ہیں۔ میرے بیٹے نے سوال کیا، ابا یہ آنٹی ان لوگوں کیلئے یہ سب چیزیں کیوں لاتی ہیں؟ میں نے رسان سے اسے سمجھایا، کیوں کہ بیٹا وہ لوگ یتیم ہیں۔ میرے بیٹے نے کمال معصومیت سے دوسرا سوال کر ڈالا، ابا ہم کب یتیم ہوں گے؟
بچوں کو گھر پر چھوڑ کر میں بڑی سڑک پر ایک تیز رفتار ٹرک کے آگے کود گیا۔ اس امید پر کہ اگلے ماہ آنٹی کی گاڑی ہمارے گھر بھی آئے گی۔ بابو آپ خود بتائو، میں اور کیا کرتا؟؟؟
(از: سید عاطف علی)
میرے پیچھے لوگوں کی ایک طویل قطار تھی۔ پہلے مجھے لگا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں اور واقعی کسی امدادی کیمپ کی راشن یا رقم کی وصولی کی قطار میں کھڑا ہوں۔ مگر یہ ایک منفرد قطار تھی، یہاں لوگ کچھ لینے کے لیئے نہیں کھڑے تھے۔سامنے ایک دروازہ تھا جس کے پیچھے ایک میز پر کوئی صاحب بیٹھے باری باری لوگوں کو اندر بلا رہے تھے۔ اس میز کے پیچھے کیا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا، یا کم سے کم میں نہیں جانتا تھا۔ میں نے پہچھے مڑ کر دیکھا تو ہر شخص کے ہاتھ میں ایک گٹھری تھی جس کی جسامت ہر شخص کے لحاظ سے مختلف تھی۔ میں نے خود پر نظر کی تو دیکھا کہ میرا ہاتھ اور دامن بالکل خالی ہے اور میرے ساتھ جو گٹھری ٹنگی تھی اس میں میں بھی بجز خواہشات کے کچھ نہ تھا۔ میں گھبرا گیا کہ میں اس میز والے بابو کے پاس کیا جمع کروائوں گا؟ آخر مجھے اس قطار میں کھڑے ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اگر یہاں پر بھی سب کے سامنے شرمندگی ہی جھیلنی تھی تو یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ میں ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ میری باری آگئی اور میں خود کو کوستا ہوا بوجھل قدموں سے دروازہ پار کر کے اس بابو کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔ نام؟ میز والے بابو نے مجھ سے پوچھا۔ جی، عاطف علی! بابو نے رجسٹر میں جلدی جلدی صفحے پلٹے اور پھر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر اب استعجاب تھا گوہا اس نے رجسٹر میں میرے بارے میں کچھ عجیب چیز پڑھ لی ہو۔ کچھ لحظے ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر اس نے مجھ سے پوچھا، وجۃ موت؟ جی ۔۔۔ خودکشی! میں نے تھوک نگلتے ہوئے بڑی مشکل سے جواب دیا۔ بابو کے چہرے پر اب تھوڑا اطمینان تھا گویا وہ جان گیا ہو کہ میں اس کٹی پهٹی حالت میں یہاں کیا کر رہا ہوں۔ اس نے کرسی کی پشت پر کمر سیدھی کی اور بولا۔ تم جانتے تھے کہ خودکشی حرام ہے؟ جی میں جانتا تھا، میں نے کہا۔ وہ بولا، پھر بھی؟ اور تم یہ بھی جانتے تھے کہ خودکشی تمہاری موت کا وقت تبدیل نہیں کرسکتی اور اگر تم یہ کام نہ کرتے تو تب بھی موت نے تمہیں وقتِ مقررہ پر آ ہی لینا تھا۔ کم سے کم حرام موت تو نہ مرتے! میں سر جھکا کر اس کی باتیں سن رہا تھا مگر میرے اندر کا لاوہ اب پھٹنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی ضبط قائم رہے مگر پھر بھی بول پڑا، اگر آپ یہاں مجھے ذلیل کرنے کیلئے بٹھائے گئے ہیں تو آپ ناکام ہیں کہ میں اس سے زیادہ ذلت پیچھے دنیا میں دیکھ آیا ہوں۔ اور اگر یہ میرے حساب کتاب کا حصہ ہے اور میرا رب چاہتا ہے کہ میں دنیا کے بعد آخرت میں بھی بے عزت رہوں تو مجھے اپنے رب کا فیصلہ منظور ہے۔ میز والا بابو اب کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر اب ایک عمیق سنجیدگی تھی۔ اس نے پوچھا، میں جاننا چاہوں گا کہ وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے تم اس فیصلے پر مجبور ہوئے؟
مجھے ایک لحظے کو سمجھ نہیں آئی کہ کہاں سے شروع کروں۔ کوئی ایک وجہ ہوتی تو شاید مجھے اتنا سوچنا نہ پڑتا۔ بچپن سے لیکر آدھے گھنٹے پہلے تک کہ جب میں یہاں پہنچا تھا، میں نے ہر لحظہ ہی تو موت کی خواہش کی تھی۔ مجھے بچپن سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ میری ہر خواہش موت سے کہیں نہ کہیں جڑی ہوتی ہے۔ بریانی کھانی ہے تو ساتھ والی بستی میں کسی امیر کے گھر ہونے والی موت کا انتظار کہ وہاں جاکر قرآن خوانی کرو اور ثواب کے بدلے بریانی کا سودا کرو۔ محلے میں کھیلنے کیلئے جگہ چاہیئے تو بڑے لڑکوں کے مرنے کی دعا کرو کہ ان کے ہوتے ہوئے اس جگہ پر کھیلنا نا ممکن تھا۔ جب بڑے ہو اور اس قابل ہوجائو کہ بزورِ بازو جگہ حاصل کرسکو تو ورکشاپ کے مالک کے مرنے کی دعا کرو جو صبح نو سے رات گیارہ تک گدھوں کی طرح مشقت کرواتا تھا اور کھیل تو کیا سانس لینے تک کی مہلت تک کو نمک حرامی گردانتا تھا۔ شادی کرنی ہے تو پسند کی شادی کی خواہش میں فیتے کے مرنے کی دعا کرو کہ اس کے پاس موٹرسائیکل تھی اور جمیلہ نے اس موٹرسائکل کے لالچ میں مجھ سے منگنی توڑ کر اس سے بیاہ رچا لیا تھا۔ جب اپنی شادی ہوجائے تو سکون کی خواہش میں رشید پٹھان کی موت کی دعا کرو جو ہر ماہ سود کی قسط لینے دروازے پر آ دھمکتا تھا۔ زندگی میں کونسی ایسی خواہش تھی جس میں موت کسی نہ کسی بہانے سے در نہ آتی ہو؟ اور کل تو حد ہی ہوگئی تھی۔ پچھلے دو ماہ سے میں بیروزگار تھا اور محلے کے سب دکاندار اب مزید ادھار دینے سے انکاری تھے۔ بچے صبح سے بھوک کی وجہ سے رو رہے تھے۔ آج انہوں نے طے کر لیا تھا کہ وہ یہ چائنیز پانی سوپ نہیں پیئیں گے جس کا ذائقہ بالکل پانی کی طرح ہوتا ہے اور اماں کے کہنے کے باوجود اس کے ختم ہونے کے بعد اس کے پیالے میں وہ مرغی کی بڑی والی بوٹی نہیں آتی جس کا اماں نے وعدہ کیا ہوتا تھا۔ مجھ سے بچوں کا اس طرح رونا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ بیروزگار سہی، مگر بہرحال میں ایک باپ تھا۔ میں نے بچوں کو ساتھ لیا اور رشید کی دکان سے ادھار لینے کیلئے نکل پڑا۔ بچے بھی باہر آکر بہل گئے تھے کہ ایک تو عام حالات میں انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی کہ خوامخواہ باہر جائیں گے اور محلے کے دوسرے بچوں کو کھاتا پیتا دیکھ کر خواہشات نامی جان لیوا بیماری ساتھ گھر لے آئیں گے۔ اور دوسرا ان معصوموں کو یہ لگتا تھا کہ ابا کھانا لینے جارہے ہیں اور یہ کھانا گھر والے کھانے کی طرح نہیں ہوگا بلکہ اس کے ختم کرنے کے بعد اس میں واقعی مرغی کی بڑی والی بوٹی نکلے گی۔ اس مرغی کی بوٹی کا تصور ان دونوں ننھے ذہنوں کیلئے بڑا نشاط انگیز تھا۔ انہوں نے آج تک کبھی مرغی چکھی نہیں تھی۔ وہ دونوں بچے اکثر اس ایک کمرے کے گھر میں بیٹھ کر اس بات پر بحث کیا کرتے تھے کہ مرغی کا ذائقہ کیسا ہوتا ہوگا۔ اس وقت بھی دونوں اس مرغی کی بوٹی کے ممکنہ ذائقے پر بحث کرتے ہوئے میرے ہمراہ چل رہے تھے۔ میں بلاوجہ سڑکیں ناپ رہا تھا کیوںکہ مجھے رشید سے ادھار کی تو امید تھی مگر اس ادھار سے پہلے کی ذلت کیلئے میں ہمت جمع کرنا چاہتا تھا۔
مسجد کے باہر سے گذرا تو سوچا آج بچوں کو ساتھ لیکر مسجد کے باہر ہی بیٹھ جائوں کہ آنے جانے والے نمازی ہی کچھ مدد کرجائیں۔ مگر پھر یاد آیا کہ میں تو خود اس مسجد کا باقاعدہ نمازی تھا، اگر کسی نے مدد کرنی ہی ہوتی تو میرا حال اور حلیہ دیکھ کر ہی مدد کر دیتا۔ ویسے بھی مسجد اب صرف نماز پڑھنے کی جگہ تھی۔ یہاں سوائے مسجد کی تعمیر کے، کسی بھی قسم کی مالی امداد کا سوال کرنا گناہِ کبیرہ تھا۔ ایسا مولوی صاحب نے پچھلے ہفتے بشیر کو بولا تھا جو شاید میری طرح ہفتوں کے فاقوں سے نڈھال ہوکر مسجد میں کھڑا ہوگیا تھا۔ میں نے اس خیال کو ترک کردیا اور آگے چل پڑا۔ سڑک ناپتے ناپتے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب میں کچی بستی سے نکل کر امیروں کی بستی میں داخل ہوگیا ہوں۔ بچے بھی اب اپنی بحث بھول کر اردگرد موجود بڑی بڑی گاڑیوں اور شاندار محلات کو حیرت و شوق سے دیکھ رہے تھے۔ آج اس امیر بستی میں زبردست چہل پہل تھی، تھوڑا اور آگے گیا تو اس کی وجہ سمجھ آگئی۔ ایک بڑا سارا کیمپ تھا جس میں بنیادی راشن سے لیکر کھانے پینے کی وہ تمام اشیاء بھی موجود تھیں جن کے میں نام تک نہیں جانتا تھا۔ میری بیٹی نے ایک ڈبے کی طرف اشارہ کرکے مجھے کہا، ابا وہ دیکھو جوس! پچھلے مہینے کلو چاچا کا بیٹا یہ والا جوس پی رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس کو پی کر بالکل اصلی آم جیسا مزہ آتا ہے۔ ابا یہ آم کا مزہ کیسا ہوتا ہے؟ میرے پاس اس کے فضول سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ میں تیز قدموں سے ان دونوں کو لیکر کیمپ کے اندر داخل ہوگیا۔ کیمپ میں چند نوجوان لڑکے لڑکیاں موجود تھے جنہوں نے جینز کے اوپر پاکستان کے جھنڈے والی قمیضیں پہن رکھی تھیں۔ ان میں سے ایک تیزی سے میری طرف آیا اور بولا، دیٹ از دا اسپرٹ مین، سر آپ کیا ڈونیٹ کرنا چاہیں گے؟ مجھے اس کی آدھی بات تو سمجھ نہیں آئی مگر مجھے لگا کہ وہ مجھ سے میری ضرورت کا پوچھ رہا ہے۔ میری آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔ خدا نے ان نوجوانوں کی شکل میں میرے لیئے فرشتے بھجوائے تھے۔ میں نے اس سے کہا، بابو جو آپ دے سکتے ہو دے دو بچوں کے کام آجائے گا۔ میری بات سنتے ہی گویا نوجوان کو بچھو کاٹ گیا۔ اس نے تمام لڑکے لڑکیوں کو جمع کیا اور اس کے بعد اگلے پانچ منٹ تک وہ لوگ مل کر مجھے سمجھاتے رہے کہ ملک کے ایک کونے میں چند بے گھر افراد ہیں اور ان سب کو ہماری مدد کی بےحد ضرورت ہے اور ہمیں ذاتی ضروریات سے بالاتر ہوکر ان کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ میں ان جتنا پڑھا لکھا تو نہیں تھا کہ ان سے بحث کرتا۔ میں نے چاہا کہ انہیں مولوی صاحب کی سنائی ہوئی حدیث سنائوں کہ تمہارے خاندان اور محلے کے غریب کا تم پر پہلا حق ہے مگر اتنی دیر میں کچھ ٹرک آکر کیمپ کے باہر کھڑے ہوگئے۔ سب لوگوں نے اپنے اپنے موبائل نکالے اور اس سامان کے ساتھ ایک دوسرے کی تصویریں لینے لگے۔ میں کونے میں کھڑا ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے کھڑی کافی دیر ہوگئی تو ان میں سے ایک لڑکی میری سمت آکر بولی، انکل کیمپ میں پلیز رش نہ لگائیں۔ اس بار مجھے پتہ تھا کہ وہ مجھ سے باہر جانے کیلئے کہا جارہا ہے۔ جاتے جاتے میں نے پلٹ کر اس سے پوچھا کہ بستی والوں کیلئے یہ کیمپ کب لگے گا تو وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی چلی گئی۔ اب میں باہر آکر ٹرک کو بھرتے ہوئے حسرت سے دیکھنے لگا۔ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا؟ اگر کراچی میں بھی آپریشن ہوجاتا تو میں بچوں کو وہیں چھوڑ آتا۔ مگر کراچی میں نہ زلزلہ آتا ہے نہ سیلاب اور نہ آپریشن۔ میں قسمت کا نوحہ پڑھتے ہوئے واپس بستی آگیا۔
رشید کی دکان پر پہنچا تو دیکھا دکان پر تالہ پڑا تھا۔ برابر والے منیر نے بتایا کہ وہ گائوں گیا ہوا ہے اور اگلے ہفتے آئے گا۔ ادھار کا آخری سہارہ بھی ڈوب چکا تھا۔ بچے اب بھوک کے ساتھ ساتھ تھکن سے بھی پریشان تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کروں۔ بےدلی سے میں گھر کی طرف چلنا شروع ہوا تو دیکھا گلی کے باہر این جی اور کی نئی چمچماتی گاڑی کھڑی ہے اور محلے کے سب بچے اس کے شیشے سے لگ کر اندر جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے اپنے بچپن کے دن یاد آگئے۔ غریب کی زندگی میں چونکہ وقت ساری عمر ایک سا رہتا ہے اس لیئے غریب کی دنیا بھی برس ہا برس گذرنے کے باوجود ایک سی ہی ہوتی ہے۔ میرے دونوں بچوں کو محلے کے بچوں نے گھیر لیا اور انہیں بتانے لگے کے کس طرح این جی اور والی یہ آنٹی مرحوم جاوید کے یتیم بچوں کیلئے ہر ماہ کی طرح کھلونے، کتابیں، چاکلیٹ اور مرغی کا برگر لیکر آئی ہیں۔ میرے بیٹے نے سوال کیا، ابا یہ آنٹی ان لوگوں کیلئے یہ سب چیزیں کیوں لاتی ہیں؟ میں نے رسان سے اسے سمجھایا، کیوں کہ بیٹا وہ لوگ یتیم ہیں۔ میرے بیٹے نے کمال معصومیت سے دوسرا سوال کر ڈالا، ابا ہم کب یتیم ہوں گے؟
بچوں کو گھر پر چھوڑ کر میں بڑی سڑک پر ایک تیز رفتار ٹرک کے آگے کود گیا۔ اس امید پر کہ اگلے ماہ آنٹی کی گاڑی ہمارے گھر بھی آئے گی۔ بابو آپ خود بتائو، میں اور کیا کرتا؟؟؟
G parh liya …aor par k neem pagal Jesi kefiat b ho gae……laikin koi action nae le sakta..aor na hi ap koi action le sakty hain…..aor na hi koi aor…..
جواب دیںحذف کریںElite class parhy gi is ko? Never…never …never….kabhi b nahi…
Gareeb parhy ga….wo Kia kary ga?
Jo marzi kar lo kuch nae hony wala….35 Saal hony ko aye ….ye aisy hi hai…aisy hi rahy ga…na koi kuch kar saka ….na kar saky ga….
Bahir mulk ki NGOs wo b Islamabad main kaam karti hain….
Sub kehty hain k jahaz Jesy hi Pakistan ki sar zameen ko chhoota hai …sub musafiro ki roh change ho jati hai…….
اکھاں اِچ ہنجو آگئے، (آنکھوں میں آنسو آ گئے)
جواب دیںحذف کریںبلکل سچ بتایا۔ ایک درناک حقیقت ھے۔
زندگی تضاد ھے، اس میں مطابقت کا ملنا محال ھے۔ اور یہ ایک کرب ھے، کہ جسکو معنویت دینے کی خاطر انسانیت کے معیار طے کیئے جاتے ہیں، مگر چونکہ ایک زندگی کی بقا دوسری زندگی کی فنا سے منسلک ھو جاتی ھے تو انسانیت کت معیار بھی اضافی رہ جاتے ہیں، اور کرب پھر لوٹ کر آتا ھے۔
شایئد انسانیت کی راہ میں سب سے بڑا مسئلہ خود انسانیت ہی ھے اور انسان کی بقا ہی ھے۔ اس تضاد کی حقیقت مرنے کیلیے کافی ھے۔
very well written Atif. a very sad but real piece. even more worrying is the fact that there is no improvement in sight. You may have remember I always argued that we as a society no more exist. we are bunch of various interest groups and all groups are in vast numbers thanks to our population so no chance of some groups merging with others sometime soon. whatever education we do have, has not harm us at all. its focused to make professionals and not humans.
جواب دیںحذف کریںاگر آنکھیں کھلی رکھیں تو ہمارے اردگرد آفس, کام کی جگہ, گھریلو ملازمین ایسے کئ لوگ ہیں اگر ایک فیملی کو دو ہزار, ایک ہزاریا پانچ سو جو حسبِتوفیق ہو دے دیں تو کسی چوکیدار کا بچہ, بچی پڑھ جائیں اور ہمارے دل کو بھی راحت محسوس ہو
جواب دیںحذف کریں