اتوار، 9 اپریل، 2017

حرامی

پیارے اللہ تعالٰی،
مجھے یقین ہے کہ آپ میرے اس طرح مخاطب ہونے کا برا نہیں مانیں گے ۔ جی ہاں، جی ہاں میں جانتی ہوں کہ میں آپ سے براہِ راست مخاطب بھی ہوسکتی ہوں مگر میں چاہتی ہوں کہ میری آپ کی اس گفتگو کی سند رہے تاکہ جب کبھی ضرورت پڑے تو یہ دستاویز میں اہلِ دنیا کو دکھا سکوں۔ امید کرتی ہوں آپ میری مجبوری کو سمجھ سکتے ہوں گے اور درگزر فرمائیں گے۔
باری تعالٰی! میں جانتی ہوں کہ آپ بھولنے کی صفت نہیں رکھتے مگر پھر بھی یاد دہانی کے لئے عرض کر رہی ہوں کہ آپ کو یاد ہوگا میں کتنی خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچے۔ میں نے کبھی اپنی ذات سے جان بوجھ کر تکلیف تو کیا کسی کا آرام تک خراب نہیں کیا۔ جتنا بن پڑتا اپنی حرکات تک کو محدود رکھتی کہ مبادا میری  جنبش بھی کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہ بن جائے۔  کسی کو بھی اگر اس بات کی بابت شک ہے تو وہ بے شک امی سے پوچھ سکتا ہے ۔ اگر ان میں سے کچھ بھی جھوٹ ثابت ہو تو  جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ اللہ میاں! آپ کو تو یہ سب یاد ہے نا؟
اور پھر آپ کو وہ بھی یاد ہوگا  کہ کس طرح آپ ہی کے حکم پر میں اپنی وہ زندگی چھوڑ کر اس نئی دنیا میں آگئی تھی۔ کل ہی کی تو بات ہے۔ مجھے لگا تھا کہ وہ سب لوگ مجھے واقعی اتنی ہی خوشی سے لیں گے جتنی بے تابی سے وہ سب میرے منتظر تھےمگر پیارے اللہ میاں! یہ سب کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟ میں نے کسی کا کب اور کیا بگاڑا تھا؟ جانتی ہوں یہ سوال چبھتے ہوئے اور شاید گستاخانہ بھی ہیں مگر میں کیا کروں؟ ذہن کو سوچنے کی آزادی اور سوال کرنے کی جستجو آپ ہی کی تو عطا کردہ ہے! اور پھر آپ ہی نے تو کہا ہے اور ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ غور کرو۔ سوچو۔ پوچھو۔ ویسے بھی آپ سے نہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں؟ اس نئی دنیا میں میرا آپ کے علاوہ اب اور ہے کون؟ سو سوال حاضر ہے!
بارِ الٰہا!  کل جب میں آپ کے حکم سے دنیا میں آئی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا میں اس بارے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتی۔ آج جب ایک گھنٹہ پہلے بابا مجھے یہاں پھینک کر چلے گئے ہیں جہاں کچھ عجیب سا تعفن مجھے مسلسل زچ کئے دے رہا ہے میں اس کے بارے میں بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ پچھلے ایک گھنٹے میں مجھے اندازہ ہو چکا ہے کہ اس بارے میں انسان خود بات کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پچھلے ایک گھنٹے میں، میں جان چکی ہوں کہ میری اپنی ایک شناخت بھی ہے۔ اب تک میرے رونے کی آواز پر کوئی پانچ افراد متوجہ ہوچکے ہیں اور ان میں سے چار نے مجھے حرامی کہہ کر پکارا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔   مجھے الفاظ کی آواز سمجھ آتی ہے ان کے معانی نہیں۔ مگر میں لہجے سمجھ سکتی ہوں۔ اور لہجہ بتا رہا تھا کہ یہ لفظ کسی گالی سے کم نہیں ہوگا۔
میرے ساتھ بھیجے گئے آپ کے فرشتے جن میں سے ایک سے میں یہ عرضی آپ تک بھجوا رہی ہوں کا کہنا ہے کہ انسان یہ لفظ زنا کے نتیجے میں تخلیق پانے والے بچوں کے لئے استعمال کرتا ہے  اور اسے انتہائی گری ہوئی گالی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مگر  میں نہیں جانتی کہ یہ لوگ ایک دن کی بچی کو گالی کیوں دیں گے۔ شاید انہیں لگتا ہے کہ بچے اپنی مرضی سے حرامی پیدا ہوتے ہیں لہٰذا گالی کے حق دار بھی وہ خود ہی ہوتے ہیں۔  اور ویسے بھی کون کہتا ہے کہ میں زنا کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہوں؟  ہاں ہو سکتا ہے کہ میں زنا کی پیداوار ہوں مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ میں بھوک کے نتیجے میں ٹھکرایا گیا ایک پیٹ ہوں جس کی ذمہ داری اٹھانے سے خائف اس کا باپ اسے یہاں ڈال گیا ہو؟ یا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ مجھے محض لڑکی ہونے کی وجہ سے مسترد کردیا گیا ہو۔ اوپر عالمِ ارواح میں میں نے سن رکھا تھا کہ انسان ترقی پا گیا ہے۔ ارتقا کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہوگی کہ پہلے جن بچیوں کو زمین کے اندر زندہ گاڑ دیا جاتا تھا اب انہیں زمین کے اوپر ہی چھوڑ کر آگے بڑھ جایا جاتا ہے۔ مَردوں کے درگزر اور برداشت کی معراج اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی؟  مگر یہ تو فلسفے کی باتیں ہیں اور ایک دن کی بچی پر فلسفے کی باتیں جچتی نہیں ہیں۔ بلکہ شاید کسی بھی عمر کی عورت پر فلسفہ جچتا نہیں ہو؟ ہوسکتا ہے یہ فلسفہ اور علم اور منطق آپ نے محض مردوں کے لئے نازل کیا ہو؟ مجھےکیا معلوم؟  مجھے تو خیر کسی بھی چیز کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ مجھے تو  یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ جب محشر باقاعدہ وجود رکھتا ہے اور جب سارے انسانوں کا حساب کتاب اور فیصلہ وہاں ہونا ہی ہے تو یہاں زمین پر ہی آئے دن محشر کیوں برپا رہتا ہے؟ ایک گھنٹے کے اندر پانچ خدا میرے بارے میں فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ یا میں کیا ہوں؟ یا شاید ان کی بھی مجبوری رہی ہو۔آپ کے بھیجے گئے فرشتے بہت اچھے ہیں۔ میری دونوں سے دوستی ہوگئی ہے۔ یہ مجھے سب چیزوں کے بارے میں بتاتے بھی رہتے ہیں۔ ہم تینوں آپس میں خوب خوب باتیں کرتے ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے۔ تو جو دوسرے والے فرشتے ہیں وہ بتا رہے تھے کہ یہ انسان اس لئے خدا بن کر میرے بارے میں فیصلہ کر رہے ہیں  کہ میں حرام کاری کی وجہ سے یہاں پہنچی یا بھوک کی وجہ سے یا لڑکی ہونے کی وجہ سے تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ طے کیا جا سکے کہ میری لاش  کس کی دکان پر پہنچائی جائے گی تاکہ وہ اس کی صحیح قیمت وصول کر سکے۔ پیارے اللہ میاں! لاش کی قیمت کیا ہوتی ہے؟
کرنے کو تو اور بھی بہت ساری باتیں باقی ہیں مگر میں انہیں آپ سے مل کر بیان کروں گی۔ خط لکھنے کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ آپ سے درخواست کرسکوں کہ یہ جو کتے آپ نے میری مشکل آسان کرنے کے لئے بھیجے ہیں ان سے کہیں نا کہ میرا منہ نہ بھنبھوڑیں۔ مجھے یاد ہے یہ آپ نے خود بہت پیار سے تراشا تھا۔ میں اسے بگاڑ کر آپ کے سامنے نہیں پہنچنا چاہتی۔
بہت جلد آپ سے ملاقات کے لئے آنے والی
آپ کی اطاعت گزار
حرامی


2 تبصرے :

  1. بہت دردمندی سے لکھا گیا نوحہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. Weeping. Khuda karae k aisa lafaz bolnae aor bulwanae walae ap ki ye dukh bhari kahani parhain. Aisae hi ethical issues pae likhtae rahey ga.God bless you

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت