اتوار، 2 اپریل، 2017

آزاد

اس کا نام آزاد تھا۔جی نہیں وہ واقعتا آزاد نہیں تھا۔ میں نے تو بس یہ کہا کہ اس کا نام آزاد تھا۔ اور نام رکھنے سے اگر کچھ ہوسکتا تو  میرے گھر کے دروازے کے باہر موجود چوکیدار کا نام مالک نہ ہوتا۔ یا پھر وہ گداگر جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کا اصل نام بادشاہ کر کے کچھ تھا۔ یا پھر محلے کی وہ عورت جو اپنا نام حسینہ بتاتی تھی۔  ان میں سے کسی کا نام بھی وہ نہ ہوتا جو وہ بتاتے اور کہلوانے پر اصرار کرتے تھے۔
ناموں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہ اکثر شخصی تاثر کے بالکل الٹ نکلتے ہیں۔ سو اس کا نام  بھی آزاد تھا اور وہ دراصل آزاد نہیں تھا۔ مگر اچھی بات یہ تھی کہ وہ آزاد ہونا چاہتا تھا۔ البتہ ابھی یہ طے ہونا باقی تھا کہ وہ کس چیز سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ وہ ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ مالی مسائل نامی چڑیا کے بارے میں اس نے محض اخبارات یا انٹرنیٹ پر پڑھا یا فلموں میں دیکھا تھا۔ وہ مالی طور پر آزاد تھا کہ جب اور جتنا چاہے خرچ کر سکے۔  اسے مالی آزادی نہیں چاہئے تھی۔ تعلیم یافتہ بھی تھا۔ مالی حالات کا بیان پہلے ہی ہوچکا تھا اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امیروں کے بچوں کی شکلیں ہی الگ ہوتی ہیں سو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی آزادی بھی پہلے ہی حاصل تھی۔ ماں باپ آزاد خیال واقع ہوئے تھے سو سونے جاگنے، آنے جانے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے نہ پہننے کی بھی آزادیاں بہم تھیں۔  مگران سب آزادیوں کے ہوتے ہوئے بھی  چونکہ وہ خود یہ بات کہتا پھرتا تھا کہ وہ آزاد نہیں ہے سو ہم بھی اسے آزاد نہیں قرار دے سکتے۔   
سوآزاد، آزاد نہیں تھا اور آزاد ہونا چاہتا تھا مگر نہیں جانتا تھا کہ اسے کس چیز کی آزادی یا کس چیز سے آزادی چاہئے ۔ اور یہی آزادی کی تلاش اسے ان لوگوں تک لے آئی جو خود کو صوفی کہتے تھے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ عشق انسان کو آزاد کردیتا ہے۔ پھر اسے کسی چیز کی نہ فکر ہوتی ہے نہ ہونی چاہئے۔
 دنیا و مافیہا کی فکر سے آزاد یہ عشق میں ناچتے گاتے ،نشچنت ملنک اسے بہت پسندآئے تھے۔ جو مل جاتا سو کھا لیتے، جو پہنا تھا اسے میلے یا صاف کی فکر کیے بغیر اوڑھے پھرتے۔ دنیا زیادہ تنگ کرتی تو ملنگی بوٹی چڑھا کر مست ہوجاتے اور مستاتے پھرتے۔ آزاد  کو یہ آزادی بہت پسند آئی تھی۔ اسے لگا کہ یہی وہ آزادی ہے جس کی تلاش میں وہ برسوں سے مارا مارا پھر رہا تھا۔ اس نے ان خود ساختہ صوفیوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
آزاد ایک جذباتی نوجوان ضرور تھا مگر وہ اتنا احمق نہیں تھا کہ اپنی بھری پری زندگی چھوڑ کر ان صوفیوں سے جڑ جائے۔  وہ ہفتے میں ایک دن ان صوفیوں کے ساتھ جا کر گزارتا۔ ان کے ساتھ دھمال ڈالتا۔ ملنگی بوٹی چڑھاتا۔ مستاتا۔ صوفی کلام سنتا سناتا ۔ مگر شام ڈھلنے سے پہلے واپس گھر کو لوٹ جاتا اور اگلا پورا ہفتہ سوشل میڈیا پر روتے ہوئے گزارتا کہ کس طرح اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ تمام عمر اس مقدس مشن کے لئے وقف کر دے جس پر وہ صوفی کارفرما تھے ۔  وہ دنیا کی بے ثباتی اور ان ملنگوں کے جذبہ ایثار کی کہانیاں سب کو سناتا کہ کس طرح اس نفسا نفسی کے دور میں بھی ایک چرس کا چلم کوئی ملنگ اکیلا نہیں پیتا۔ ہر ایک کش کے بعد چلم آگے بڑھا دی جاتی تھی کہ ساتھی ملنگ اس سے محروم نہ رہ جائے۔ کبھی کبھار تو اسے یہ بھی لگتا تھا کہ کمیونزم کی بنیاد دراصل کسی ملنگ نے ہی رکھی تھی۔
زندگی اپنے ڈھب پر اورایک حسین ماحول میں گزر رہی تھی۔ آزاد نے اب اپنے نام کے ساتھ بھی صوفی لگانا شروع کر دیا تھا۔ وہ اب بہت فخر سے خود کو آزاد کہتا اور کہلواتا تھا۔ وقت کے ساتھ صوفی ازم معاشرے میں بھی مقبول ہورہا تھا اور اس کے لازمی نتیجے میں آزاد بھی بہت تیزی سے اپنے حلقہ احباب اور ان سے جڑے لوگوں میں مقبول ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا بگڑا ہوا حلیہ جو کسی زمانے میں معاشرے میں معتوب ہوتا تھا اب بڑی خاصے کی چیز سمجھا جاتا تھا۔ رومی کے اقوال  اور عابدہ پروین کی قوالیوں کے صدقے چند ہی مہینوں میں ٹوئیٹر پر اس کے فالوورز کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی تھی۔ توجہ تو خیر کسی اصل صوفی کو بھی بری نہیں لگتی اور یہ تو پھر تازہ نووارد مکتب تھا، خوش کیسے نہ ہوتا؟
آزاد کی خوشی دوہری تھی کیونکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں ایک ساتھ کما رہا تھا۔ مگر خوشیوں کے ساتھ بھی وہی غم کا مسئلہ ہے کہ یہ مستقل نہیں رہتیں۔  غم تو چلو پھر ختم ہو بھی جائے تو انسان اسے منانا نہیں چھوڑتا جبکہ خوشیاں جب ختم ہونے لگیں تو ان کے مکمل ختم ہونے سے پہلے ہی انسان پہلے وسوسوں  پھر واہموں اور پھر بالآخر غم کی آغوش میں اتر جاتا ہے۔ سو آزادصوفی کی خوشیوں کو بھی کسی کی نظر لگ گئی اور پھر ایک دن اسے سچ مچ میں عشق ہوگیا۔
ہر نئی چیز کی طرح یہ نیا عشق بھی جب اس پر کھلنا شروع ہوا تو آزاد بہت خوش ہوا۔ سنی ہوئی باتوں کی رو سے اب وہ مکمل آزاد ہونے والا تھا۔ اب اس نے کام دھندا سب کچھ چھوڑ کر باقاعدہ ان ملنگوں کے پاس جا کر رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ اس عشق کے زیرِ اثر جب وہ ان ملنگوں کے پاس پہنچا اور پہلے ہی دن جب سب ناچنے اٹھے اور ساتھ یہ بھی اٹھا تو پہلا قدم اٹھاتے ہی اس کے دماغ میں یہ خیال آ دھمکا کہ اگر میرا یہ فعل معشوق کی ناراضگی کا سبب بن بیٹھا تو کیا ہوگا؟  اس نے گھبرا کر واپس پلٹنا چاہا تو ایک مہربان ملنگ نے ملنگی بوٹی کی چلم اس کی سمت بڑھا دی۔ پہلے کش سے پہلے ہی وہ مردود خیال دوبارہ اس کے سامنے کھڑا دھمال ڈالنے لگا۔ آزاد نے اپنے بال نوچے اور باہر کی طرف بھاگنا چاہا مگر وہ خیال اب اس کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے رکنے، کھانے بھوکا مرنے، غرضیکہ ہر ہر چیز میں آ نے کے لئے اس کے ساتھ چمٹ چکا تھا۔ اگر میرے یہ کرنے سے معشوق روٹھ گیا تو؟ وہ پاگلوں کی طرح کبھی ہنستا، کبھی روتا، کبھی دم سادھ کر چپ ہوجاتا، کبھی دوڑنے لگتا، کبھی بت بن کر بیٹھ جاتا۔ اور جب کسی چیز میں سکون نہ ملا تو اس نے گھبرا کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس کا نام آزاد تھا مگر وہ واقعتا آزاد نہیں رہا تھا۔ عشق نے اس سے اس کی رہی سہی آزادی بھی چھین لی تھی۔ اب وہ جا بجا دیگر ملنگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس عشق نامی بلا سے دور رہیں اور اگر عشق ہوگیا اور عشق کے بعد ان کے کسی فعل سے معشوق ناراض ہوگیا تو انجام کیا ہوگا؟

جی ہاں! ان سب احمقانہ باتوں کے نتیجے میں اسے خانقاہ سے نکال دیا گیا تھااور اب راستے میں کبھی وہ ملنگوں کو سمجھاتا دکھے کہ عشق سے دور رہیں تو بس اتنا کرم کیجئے گا کہ اسے پتھر نہ مارئے گا۔  بیچارہ عشق کے ہاتھوں مجبور ایک پاگل ہے۔

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت