منگل، 4 اپریل، 2017

مریض - 6

مریض - 6
میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔
میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ بیس  سال کی عمر تک میں ایک بہت مشہور انسان تھا  جو ایک بہت شاندار زندگی گزار رہا تھا۔  میرے بہت سارے دوست تھے جو مجھ سے شدید محبت کرتے تھے۔  جہاں کہیں جاتے مجھے ضرور ساتھ لے کر جاتے۔ شادی بیاہ ہو یا کوئی بھی اور تقریب ، دوست تو دوست، اجنبیوں کی بھی کوشش ہوتی کہ میں کسی طرح ان کے ساتھ تصویربنوا لوں۔ میرے ساتھ تصاویر بنوانے پر باقاعدہ جھگڑے ہوجاتے۔ کسی کو بھی اپنی ایسی محبوبہ سے ملنے جانا ہوتا جو اکیلے آنے میں متامل ہو اور ساتھ اپنی کسی سہیلی کو ٹانگ لائی ہو تو میرے دوست اور کبھی کبھی تو ان کے دوستوں کے دوست بھی میری منتیں اور ترلے کرکے مجھے ایسے مواقع پراس محبوبہ کی سہیلی کو کمپنی دینے کے لئے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
میں اپنی زندگی سے بہت مطمئن تھا۔ ایک اچھی سرکاری جامعہ میں میرا داخلہ ہوگیا تھا ۔ تقدیر مجھ پر بہت مہربان تھی۔ اساتذہ مجھ پر خاص نظرِ کرم رکھتے تھے۔ اور کیوں نہ رکھتے؟ مجھے ہمیشہ سے سکھایا گیا تھا کہ بڑوں کا احترام چھوٹوں پر فرض ہے خواہ وہ بڑا عمر، رتبے، مال، طاقت کسی بھی اعتبار سے بڑا ہو۔ سو اس  ہی تربیت کے زیر اثر میں ان کا ہر کام سر انجام دینے کے لئے پیش پیش رہتا تھا۔  اور یہ تربیت بے فیض نہیں جاتی تھی۔ اساتذہ بھی میری اس عادت کو پہچان گئے تھے سو ان میں سے اکثر کو اگر ضرورت درپیش ہوتی بھی تو میرے سامنے اس کا ذکر نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ مجھ ایسے ہونہار اور خاندانی اور خوبصورت وغیرہ وغیرہ قسم کے طالبعلم کو مشقت سے بچانا چاہتے تھے۔
مجھ پر ہونے والی نوازشات محض اساتذہ کی حد تک محدود نہیں تھیں۔ میں اپنے ہم جماعت لڑکے لڑکیوں سب میں سب سے زیادہ بھروسہ مند مانا جاتا تھا۔ محض دوستوں کے مفاد میں میں نے جماعت بلکہ جامعہ کے ہر لڑکے لڑکی کے تمام کرتوت کا کچا چٹھہ جمع کر رکھا تھا تاکہ اگر میرا کوئ دوست ان کے چنگل میں گرفتار ہونے لگے تو میں اسے بروقت خبردار کر سکوں۔ لوگوں کے کرتوت جمع کرنے کے لئے مجھے از حد مشقت کرکے بہت مرتبہ چھوٹے لوگوں سے بھی بات چیت اور دوستی کرنی پڑتی تھی مگر محض دوستوں  کے بھلے کے لئے میں نے یہ کڑوے گھونٹ بھی پی لیے۔ میں جانتا تھا کہ آج نہیں تو کل، یہ تمام معلومات میرے دوستوں کے کام آ ہی جائیں گی۔
جیسا کہ جنوب کا ایک سنکی شاعر اکثر کہتا ہے کہ وقت کی سب سے اچھی اور بری عادت ایک ہی ہے کہ یہ کبھی ایک سا نہیں رہتا سو میرے ساتھ بھی ایک عجیب حادثہ ہوگیا اور میرا وقت تبدیل ہوگیا۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے پاس موجود کچے چٹھے میں ایک انسان کی معلومات موجود نہیں تھیں جو اتفاق سے میرا ہی ہم جماعت تھا۔ چونکہ وہ نہایت متکبر واقع ہوا تھا اور بلا سوچے سمجھے بولنے کا بھی عادی تھا،  لہٰذا دنیا میں کوئی بھی اس کے منہ لگنا پسند نہیں کرتا اور چونکہ کوئی اسے دوست نہیں رکھتا تھا لہٰذا کوئی اس کے بارے میں جانتا بھی نہیں تھا۔ میری حساس طبیعت نے یہ محسوس کیا کہ یہ انسان دنیا کے لئے شدید خطرہ واقع ہوسکتا ہے کیونکہ اتفاق سے میرے بعد جماعت  میں سب سے خوش شکل اتفاق سے وہ مردود ہی تھا اورمجھے پورا یقین تھا کہ وہ امتحانات میں نقل کرنے کا بھی عادی تھا شاید تبھی اس کے نمبرز بھی مجھ سے زیادہ آئے تھے۔
محض انسانی ہمدردی اور اپنے دوستوں کے مفاد کے لئے میں نے اس انسان کی اوپر بیان کردہ تمام کمی کوتاہیوں سے درگزر کرتے  ہوئے اس انسان کی سمت دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔
میں نے کب سوچا تھا کہ وہ اس دوستی کونہ صرف قبول کرلے گا بلکہ ایک دن میری زندگی کو اپنی جھوٹ کی عادت سے ایک ایسا رنگ دے جائے گا جس کا میں نےکبھی تصور تک نہیں کیا تھا۔ مجھے آج بھی وہ دن ایک بھیانک سپنے کی طرح یاد ہے جب ہماری دوستی  کے چند ہی ماہ بعد اس دن ہم دونوں جامعہ کے کینٹین میں بیٹھے سموسے کھا رہے تھے اور ہمارے ایک ہم جماعت نے مجھ سے اپنی محبوبہ کی سہیلی کو سنبھالنے کے لئے ساتھ چلنے کی درخواست کی اور میں حسبِ عادت اٹھنے لگا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے واپس بٹھا دیا اور ہم جماعت سے معذرت کر لی کے میں اس کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ یہی انکار اگر میں نے کیا ہوتا تو شاید وہ ضد کرکے میری نرم دل طبیعت کا فائدہ اٹھا لیتا مگر جیسا میں نے عرض کیا کہ کوئی اس کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا لہٰذا میرا ہم جماعت وہاں سے منہ لٹکا کر رخصت ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد جب میں نے اس سفاکی سے منع کردینے کی وجہ پوچھی تو اس نے جو باتیں کہیں انہوں نے میری زندگی میں ایک طوفان بپا کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ لوگ میرے ساتھ تصاویرمحض اس لئے بنواتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ میرے برابر میں کھڑا ہوکر کوئی بھی خوبصورت لگ سکتا ہے۔ لوگ مجھے اپنے ساتھ اس لئے محبوبہ کے سامنے لے جاتے ہیں کیونکہ میں واحد انسان ہوں جس سے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا  اکثر ان کے محبوب کو مجھے دیکھنے کے بعد ان کی قدر ہوجاتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا اساتذہ میرا خیال نہیں کرتے بلکہ جس دن سے کسی نے جامعہ میں اڑائی ہے کہ میں  نے دائمی نزلے کے مریض ایک استاد کا منہ اپنے دوپٹے سے پونچھ دیا تھا تو باقی اساتذہ اب خفت کے ڈر سے مجھ سے دور بھاگتے اور مجھے کام بولتے ہوئے کتراتے ہیں۔
وہ تو خدا جانے اس کے بعد بھی کیا کیا بولتا رہا مگر میرے دماغ میں ایسے جھکڑ چل رہے تھے کہ میں سن ہی نہ پایا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔میں نے اس سے معذرت کی اور وہاں سے اٹھ آیا۔ یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ احمق اس معذرت کو میرے رویے پر میری شرمندگی کا اظہار سمجھ رہا ہے جبکہ درحقیقت معذرت اسے کرنی چاہئے تھی جس نے مجھ ایسے ہیرے کی قدر نہیں کی۔  
 میں وہاں سے اٹھ کر تو آگیا مگر اس کی باتوں نے میرے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا کر دیا تھا۔میں مسلسل اس کی باتوں کو سوچ رہا تھا اور میرے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اپنے بارے میں اس کا تجزیہ سن کر میں نے دنیا کا اصل روپ دیکھ لیا تھا۔ میں جان گیا تھا کہ آپ جتنے اچھے ہوتے چلے جائیں دنیا آپ سے جلتی چلی جائے گی اور اس جلن کے شاخسانے کے طور پر محض آپ کو زچ کرنے کے لئے جو دل میں آئے گا بکتی چلی جائے گی۔  دنیا کی اس کمینگی کو محسوس کرکے میں زندگی سے اتنا مایوس ہوگیا تھا کہ میں نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا اور خودکشی کرنے کیلئے نیند کی گولیاں کھا کر لیٹ  بھی گیا۔
غنودگی سی طاری ہوئی تو  دیکھا ایک جنت نما جگہ پرہوں۔ آگے بڑھا تو ایک مرد درویش کی زیارت نصیب ہوئی جنہوں نے مجھے سمجھایا کہ خودکشی حرام ہے  اور  دنیا  میں اب بھی ایک جگہ ایسی ہے جہاں میرے اور تمہارے جیسے لوگوں کی قدر کی جاتی ہے۔  مایوسی چھوڑو اور اس یو آر ایل  پر جاکر دیکھو۔بزرگ کی یہ بات سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ قے کرکے ساری دوائی باہر نکالی اور اس ویب سائٹ پر چلا گیا۔

وہاں جاکر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تمام نفسیاتی آتمائیں جن کی دنیا میں کوئی نہیں سنتا وہ  اس ویب سائٹ پر موجود تھیں۔ میں  نے ویب سائٹ کا جائزہ لیا اور اس ہی وقت سجدہ شکر بجا لا یا۔ بالآخر مجھے ایک ایسی جگہ مل گئی تھی جہاں میں بلامقصد جو جی میں آئے بول سکتا تھا۔ کورٹ کچہری کی شکل دیکھے بغیر فیصلہ سنا سکتا تھا اور اور بغیر ناظرہ مکمل کئے فتوے دے سکتا تھا۔ جس کی دل چاہے عزت اتار سکتا تھا۔ دھڑلے سے ٹھرک جھاڑ سکتا تھا۔  سب کے سامنے رو سکتا تھا۔ بلکہ ان باتوں پر بھی رو سکتا تھا جن کا کوئی وجود نہ ہو۔ اس جگہ کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ  جو جتنا بڑا نفسیاتی تھا وہ اتنا ہی مشہور تھا۔ 
میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل درست پہچانا، میں ایک مشہور ٹوئیٹر سلیبرٹی ہوں جو ہر سلیبرٹی کے بارے میں وہ تمام باتیں بھی جانتا ہے جو وہ خود بھی نہیں جانتے۔اگلی بار میں آپ کو ٹوئیٹر پر فالو کروں تو فالو بیک ضرور کیجئے گا وگرنہ میں ایک دو ہفتے انتظار کرنے کے بعد ان فالو کر جاؤں گا اور مجھے نظرانداز کرنے سے پہلے یاد کر لیجئے گا کہ میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔


کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت