اتوار، 23 اپریل، 2017

مریض - 4

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔

میں بچپن سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی عام لوگوں کی طرح ہنستا، گاتا اور مسکرا تا تھا۔ پھر میری اس معصومیت بھری پر کیف زندگی کو شاید  کسی کی نظر لگ گئی اور میں لڑکپن سے نکل کر مردانگی کی عمر کو پہنچ گیا۔ اب مجھے اٹھتے بیٹھتے خواتین کا خیال ستانے لگا۔ میں جہاں جاتا تھا میری خواہش ہوتی کہ میرے ارد گرد خواتین کی ایک بھیڑ ہو جن کی گفتگو اور زندگی کا محور صرف میری ذات ہو۔ میں جہاں کسی عورت کو دیکھتا اس سے بلا وجہ بات شروع کرنے کی کوشش میں لگ جاتا۔ گھر، محلہ، سوشل میڈیا ، ہر جگہ میری زندگی کا مقصد صرف خواتین کا قرب ہوتا تھا۔  میرے دوست احباب مجھے ٹھرکی بلاتے تھے ، میرے منہ پر مجھ پہ ہنستے تھے،  بہت سی خواتین مجھے دیکھ کر ادھر ادھر ہوجاتی تھیں، مگر مجھے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

میں اپنی اس ٹھرک زدہ زندگی میں مگن تھا اور اپنی اس بیماری پر راضی تھا۔ میرے محلے دار البتہ میری اس صورتحال پر شدید پریشان تھے۔ محلے کی خواتین اللہ سے اتنا نہیں ڈرتی تھیں جتنا لال بیگ، چھپکلی اور مجھ سے ڈرتی تھیں۔ میری حرکات سے تنگ آ کر  محلے کی خواتین نے فیس بک کے کسی گروپ میں میری اس بیماری کا ذکر کیا اور  پھر وہاں سے ایک مشہور ڈاکٹر کا پتہ نکالا گیا جو نفسیاتی عوارض کے علاج کیلئے مشہور تھے۔  چونکہ علاج کی فکر بھی مجھ سے زیادہ  محلے داروں کو تھی لہٰذا علاج کا خرچ بھی ان کے ذمے رہا اور مجھے ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں پہنچا دیا گیا۔

جب میں کلینک میں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب  پہلے ہی کسی مریض کے ساتھ موجود تھے اور ان کی آواز باہر تک آرہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اس مریض کو سمجھا رہے تھے کہ مرد دنیا کی مظلوم ترین اور شریف ترین مخلوق ہے۔ شریف ترین اس لیئے کہ اگر عورت ایک دفعہ کہہ دے کہ اس کے بچے کا باپ وہ ہے تو مرد بالعموم بغیر کسی ڈی این اے ٹیسٹ کے اس کی بات کو سچ مان لیتا ہے اورپھر  ساری عمر اس بچے کے اخراجات ہنسی خوشی محض اس لیئے برداشت کرتا ہے کیونکہ اس کی عورت نے ایک بار کہہ دیا ہوتا ہے کہ وہ  بچہ اس کا ہے۔ بعض خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بچوں کی شکلیں ان سے ملتی ہوئی ہوتی ہیں جس سے دل کو تسلی رہتی ہے وگرنہ بصورت دیگر بھی مرد سوال کرنے کا مجاز نہیں۔ اب اس سے زیادہ اور کیا شرافت ہو سکتی ہے کہ محض کسی شخص کے کہنے پر آپ ایک بچے کو اپنا مان لیں؟ اور جہاں تک مظلومیت کا سوال ہے تو مظلوم اس لیئے کہ پیدائش کے ساتھ ہی اسے سکھا دیا جاتا ہے کہ مرد روتے نہیں ہیں۔

یہ بیچارہ اپنے تمام دکھ اپنی ذات میں سمیٹے  اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے۔  یہ چاہے بھی تو کسی سے اپنا غم نہیں کہہ سکتا کہ بچپن کے خوف ساری عمر انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

 مرد کی انا بہت بڑی ہوتی ہے۔  یہ ساری عمر اپنی انا کا بوجھ اٹھائے پھرتا رہتا ہے اور بسا اوقات اس ہی انا کے بوجھ تلے دب کر مر بھی جاتا ہے۔ اور یہ  انا  اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی دوسرے مرد کے سامنے اپنے دکھ کا اظہار کرسکے، روسکے! کیونکہ رونا تو کمزوری کی علامت ہے اور کمزوری مرد کیلئے وہ گالی ہے جو اس کی انا کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ محض اس گالی سے بچنے کیلئے وہ  صنفِ مخالف کا سہارا لیتا ہے۔

  میں نے صنف ِ نازک کا مروجہ لفظ اس لیئے استعمال نہیں کیا کیونکہ عورت بہت چالاک ہوتی ہے۔ اس نے ازل سے خود کو نازک مشہور کر کےمشقت طلب تمام کام مردوں کے ذمے ڈال دیئے ہیں۔ ایک انسانی جان کو دنیا میں لانے کیلئے جتنی طاقت اور برداشت چاہیئے وہ دو مرد مل کر بھی نہیں لا سکتے ، مگر پھر بھی صنف نازک کہلائے گی عورت ہی۔ ہم خود اپنی بیگمات کو پارلر لیکر جاتے ہیں جہاں وہ پیسے دیکر اپنے  بال نچواتی ہے۔ تصور بھی کرو ں کہ میرےجسم کے بال کوئی ایسے نوچ کے اکھاڑے تو  روح کانپ جاتی ہے ؟ پھر بھی صنف نازک کون ہے؟ عورت!

تھوڑی دیر تک کمرے میں خاموشی رہی اور پھر لائٹر کے جلنے کی آواز آئی۔ ڈاکٹر صاحب شاید جذباتی ہوگئی تھے اور اس جذباتی ہیجان کو سنبھالنے کیلئے تمباکو کا سہارا لے رہے تھے۔ میں ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھا تھا اور منتظر تھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی گفتگو دوبارہ شروع کریں۔ خاموشی تھوڑی دیر اور رہی پھر ڈاکٹر صاحب کی آواز دوبارہ ابھری۔ وہ کہہ رہے تھے کہ،  تو جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مرد اپنی خود ساختہ انا کو بچاتے ہوئے اپنا غبار نکالنے  کیلئے اپنے دکھڑے صنفِ مخالف کو سنانا چاہتا ہے اور اس چیز کیلئے وہ عورت کے قر ب کا متلاشی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ عورت کے قرب کی خواہش صرف اس ہی وجہ سے ہے۔ جسمانی و فطری تقاضے اپنی جگہ بالکل ویسے ہی موجود ہیں جیسے اول دن سے تھے۔ افزائش نسل ہر جانور کی فطرت ہے۔ اگر یہ چیز فطری نہ ہوتی تو میں اور آپ وجود ہی نہ رکھتے۔ تو وہ چیز بھی ہے اور بالکل ہے، مگر قرب کی خواہش کو صرف  افزائش نسل تک محدود کردینا بھی محض سطحیت اور حماقت ہے۔

ڈاکٹر صاحب! عورت کے قرب کی وجہ تو چلیں سمجھ میں آگئی ، مگر  وہ تو شادی  شدہ ہے؟ اس کے پاس ایک عورت موجود ہے جو اس کی فطری و نفسیاتی و  ۔۔۔۔  الغرض تمام ضروریات کو پورا کر سکتی ہے! مگر پھر بھی وہ خواتین کی طرف کیوں کھنچتا چلا جاتا ہے؟  کمرے میں سے ایک دوسری آواز ابھری ۔

ڈاکٹر صاحب کی جب آواز آئی تو مجھے لگا کہ وہ مسکرا رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ  بھوک ، پیاس اور دوسری بنیادی ضروریاتِ زندگی کی طرح یہ چیز  بھی عین فطری ہے۔ آپ کسی بھی جانور کو اگر دیکھتے ہیں تو وہ صرف ایک مادہ تک محدود نہیں ہوتا۔ ہاں مگر اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم بحیثیت انسان کس جگہ پر کھڑے ہیں۔ پیاس لگنا ایک فطری عمل ہے اور پانی اس پیاس کی تسکین کیلئے ہے۔ البتہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص جوہڑ میں سے بھی پانی پی کر تسکین پا جاتا ہے اور ایک شخص جب تک ایک مخصوص درجہ حرارت اور مخصوص نفاست کے ساتھ پیش کیا گیا پانی نہ پیئے اسے تسکین نہیں ملتی۔ پیاس دونوں کی یکساں ہے، مگر ذاتی نفاست یہ طے کرے گی کہ تسکین کس درجے پر جاکر ملنی ہے۔ تو  اس سوال کا جواب بھی میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ اس کا  درجۃ نفاست خود طے کریں کیونکہ وہ کہنے کی حد تک ہی سہی، مگر انسان ہےجبکہ جگہ جگہ منہ کتا مارا کرتا ہے۔

سوچ میں ڈوبی ہوئی دوسری آواز ابھری، مگر ڈاکٹر صاحب وہ کہتا ہے کہ وہ چاہ کر بھی اپنے آپ کو خواتین کے قریب جانے سے نہیں روک پاتا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا  ہے کہ اپنی بیوی تک محدود رہے مگر شادی کے دس سال بعد ہم دونوں تقریباٗ بہن بھائی بن چکے ہیں۔ اسے تو اب یہ بھی یقین ہوگیا ہے کہ انجانے میں اگر اس کا ہاتھ کسی عورت کوچھو جائے اور جذبات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی یعنی میں ہوں ۔ آپ خود بتائیں میں کیا کروں؟

 ڈاکٹر صاحب اب کی مرتبہ جب بولے تو ان کی آواز کہیں بہت دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ، ہم ایک جنس زدہ معاشرے میں رہتے ہیں۔  اسلامی اقدار کے نام پر ہم نے عورت کو تو پردے میں بٹھا دیا مگر اس ہی اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے پر نکاح کو آسان کرنا بھول گئے۔  اب صورتحال یہ ہے کہ مرد اپنی فطرت کے مطابق  ساتھی کا متلاشی ہے اور ساتھی  بہت ساری وجوہات کی بنا  پر  گھر میں بند ہے۔طلب اور رسد کے اس بنیادی فرق کی وجہ سے معاشرہ اس حد تک گھٹن میں ہے کہ عورت کی ایک جھلک ، مرد کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کو کافی ہوچکی ہے۔ مرد  اپنی گھٹن نکالنا چاہتا ہے مگر نکال نہیں پا رہا ہے۔ یہاں تک پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کی آواز بھرا گئی ۔ میں نے کان لگا کر سنا، ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے، ایسے میں اگر کوئی خوبصورت خاتون  آپ کے سامنے موجود ہو، جو حسن کے ساتھ شعور کے بھی اتنے بلند درجے پر ہو اور پھر بھی اپنے ٹھرکی شوہر کی حرکات سے تنگ ہو ، تو آپ اسے کیا مشورہ دے سکتے ہیں؟  میں تو یہی کہوں گا کہ وہ انسان آپ کے لائق ہے ہی نہیں۔  مگر آپ دل چھوٹا نہ کریں! خدا کے ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ آپ آج شام کو کیا کر رہی ہیں؟

میں ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے اٹھا اور باہر آگیا۔ مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ میری بیماری ناقابل علاج ہے، یا کم سے کم اس عطار کے لونڈے کے پاس میر کی بیماری کا علاج ممکن نہیں۔

میرا نام  عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل ٹھیک پہچانا، میں وہی مریض ہوں جو سگنل پر رکے ہوئے ہر رکشے کے اندر جھانک کر اپنی کسی کھوئی ہوئی بہن کو تلاش کر رہا ہوتا ہے۔

نوٹ: لاکھوں سال پرانی مردانہ ٹھرک کا علاج اگر آپ  تین صفحات کے کسی بلاگ میں ڈھونڈ رہے تھے تو ٹھرک سے پہلے آپ کو دماغ کا علاج کروانا چاہیئے۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت