اتوار، 16 اگست، 2020

طفیلیہ

 

کہانی  کا انجام ہمیشہ اس کے آغاز میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔   اور میں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ آغاز سے انجام کے درمیان   ہونے والا سیاہی کا زیاں فقط قاری کی تسلی اور اس جھوٹی امید کے قائم رکھنے کے لئے ہوتا ہے کہ شاید اب کی بار کہانی مختلف نکلے گی۔   مگر کہانی کا انجام ہمیشہ اس کے آغاز میں پوشیدہ ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کسی جگہ ایک طفیلیا بسا کرتا تھا۔ جی ہاں! وہی طفیلیا جسے آپ اردو میں پیراسائٹ کہا کرتے ہیں۔ تو جیسے کے طفیلیے اپنی خوراک کے لئے دوسرے جانداروں پر منحصر ہوتے ہیں ویسے ہی یہ بھی ایک  طفیلیا تھا۔ فرق محض اتنا تھا کہ یہ ایک  جذباتی طفیلیا تھا۔  جی نہیں! اس کی خوراک  دوسروں کے جذبات تھے۔  اب شاید آپ منطق کی کتاب کھول کر بیٹھ جائیں کہ اس حساب سے تو انسان نامی تمام مخلوق ہی طیفلیوں میں گنی جانی چاہیے  کہ ان کی تمام تر زندگی ہی ایک دوسرے  پر منحصر ہوتی ہے مگر  میں ایک معمولی لیکھک ہونے کے ناطے خود کو ہر طرح  کے فلسفے  اور علمی مباحث سے دور رکھنا چاہوں گا  کہ فی زمانہ اردو ادب میں اس قسم کی چیزوں  کا فیشن موجود نہیں ہے۔  ہماری کہانی ایک مخصوص طفیلیے تک محدود تھی جو دوسروں کے جذبات کو اپنی انا کی خوراک بنا کر زندہ ہے، اور یہ کہانی اس ہی طفیلیے اور اس سے جڑے کرداروں تک  ہی محدود رہے گی۔

تو ہماری کہانی کا طفیلیہ ایک مدت سے  مزے کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ معاشرتی تہذیب کی بنا پر خود کو جانوروں سے برتر سمجھنے والے انسانوں کے درمیان   بات چیت اس زمانے میں بھی محض اپنی سنانے تک ہی محدود تھی اور شاید تب بھی انسان دوسروں کی بات سمجھنے سے زیادہ جواب دینے کے لئے سننے کے عادی تھے۔ لہٰذا سینکڑوں سننے والوں کے بیچ کوئی ایک بھی سمجھنے والا نہ پانے کا دکھ جن نفسیاتی مسائل کا باعث بنتا تھا، اس میں جذبات سے بھر پور اور  توجہ کے منتظر شکار بآسانی  دستیاب تھا۔   لہذا ہمارا طفیلیہ مرزا غالب کی بیان کردہ توضیح  کہ " انسان کو جس چیز کا شغف ہو، اس کے میسر ہو جانے کا نام عیش ہے"  کے حساب سے عیاشی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔

کہانی کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے کہ جب اس طفیلیے کی زندگی میں ایک ایسے انسان کی آمد ہوتی ہے جو در اصل خود بھی ایک طفیلیہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ایک دوسرے کی فطرت پہچانتے ہوئے سلام کر کے رخصت لے لیتے مگر  ہر منفرد چیز کو برتنے کا شوق آج ہی کی طرح اس دور میں  بھی انسانوں کی زندگیاں تاراج  کیا کرتا تھا۔ سو بجائے راہیں جدا کرنے کے وہ دونوں طفیلیے ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے گئے۔

 شروعات میں ہر چیز حسین ہوا ہی کرتی ہے سو وہ دونوں بھی دوسروں سے جمع کردہ جذبات ایک دوسرے کی غذا بنا کر خوش ہوتے اور طفیلیوں کی فطرت نبھاتے رہے مگر آنے والے وقت میں دونوں کو احساس ہو گیا کہ ان دونوں کے ایک ساتھ زندہ رہنے کے لئے ان دونوں ہی کا دوسرے انسانوں سے جڑا رہنا ضروری ہے۔ گو کہ معاملہ باہمی ضرورت کا تھا مگر رشتے کی نوعیت کا تقاضہ تھا کہ دونوں اس بات پر کڑھا کریں کہ کیسے ان کا جیون ساتھی ان سے مخلص نہیں ہے اور  کیسے زندگی نے ان کے لئے تکلیف دہ فیصلے کیے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

کہنے کو ایک راستہ یہ بھی ممکن تھا کہ دونوں  اکٹھے ہوکر اپنی موجودہ شناخت ترک کریں اور من تو شدم تو من شدی ہوکر ایک نئی شناخت اختیارکر لیں  مگر شناخت کے سفر سے اختیاری مفر انسانوں کے لئے کب ممکن رہا ہے؟ پھر وہ خواہ طفیلیہ ہی کیوں نہ ہو! سو دونوں ساتھ رہ کر باقی زندگی ہنسی خوشی  اذیت سے گزارنے لگے۔

کہانی کے کمرشلی کامیاب ہونے کے لئے ہونا تو یہی چاہیے کہ اختتام پر دونوں اپنی راہیں جدا کر کے ہنسی خوشی رہنے لگیں  مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس کہانی کے انجام میں   وہ دونوں  طفیلیے جذباتی کہانیاں سنا کر میزبانوں کا جھنڈ اپنے گرد جمع رکھتے  اور ہنسی خوشی اذیت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔

میں کہانی کے آغاز میں ہی عرض کر چکا ہوں کہ کہانی کے آغاز میں ہی اس کا انجام پوشیدہ ہوتا ہے ۔   اور میں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ آغاز سے انجام کے درمیان   ہونے والا سیاہی کا زیاں فقط قاری کی تسلی اور اس جھوٹی امید کے قائم رکھنے کے لئے ہوتا ہے کہ شاید اب کی بار کہانی مختلف نکلے گی۔   مگر کہانی کا انجام تو  ہمیشہ اس کے آغاز میں پوشیدہ ہوتا ہے۔

جمعہ، 1 مئی، 2020

لاک ڈاؤن

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ملک کوہ قاف میں ایک جنگل ہوا کرتا تھاجہاں چیتے بادشاہ  راج کیا کرتے تھے۔  میں جانتا ہوں کہ مروجہ محاورے  کے اعتبار سے جنگل کا بادشاہ شیر کو ہونا چاہئے مگر جنگل کے باسیوں کے نزدیک شیر خان صاحب بدعنوان اور چور تھے لہٰذا  کوہ قاف کے دیووں کی مدد سے انہیں برخواست کر کے جنگل بدر کر دیا گیا تھا اور اب چیتے بادشاہ کی حکومت تھی کہ جس میں  تمام جانور مل جل کر رہتے تھے۔ بعض حاسدین   اعتراضاً کہیں گے کہ محض شکاری جانور باہم مل جل کر رہتے تھے اور باقی جانور جان بچانے کے لئے جھنڈ بنا کر اکٹھے گھوما کرتے تھے مگر  حقیقت اخبار کی مصدقہ خبر کے مطابق یہ محض حاسدین کی پھیلائی ہوئی افواہ تھی  اور تمام جانور باہم مل جل کر رہتے تھے۔ بحیثیت لکھاری میں سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرتا  مگر خبر کے ساتھ ان کی لگائی گئی وہ تصویر کہ  جس میں ایک کتا، راہ چلتے بکرے کے پائنچے سے لپٹا ساتھ چل رہا  تھا، جانوروں کے باہمی التفات کا ایک ایسا  ثبوت تھا کہ جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا ہم پورے شرحِ صدر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چیتے بادشاہ کے راج میں تمام جانور مل جل کر رہتے تھے۔
جیسا کہ دستورِ زمانہ رہا ہے کہ وقت کبھی یکساں نہیں رہتا سو اس جنگل کے بھی دن پھرے اور اس ہنستے بستے لٹتے جنگل کو بھی شیر خان کی نظر لگ گئی اور جنگل کو ایک ایسی بیماری نے گھیر لیا جو  باجماعت نماز میں کھانسی کی خواہش کی طرح پھیلتی تھی کہ  ایک نمازی کے کھانسنے کی دیر ہوتی ہے اور ہر  صف میں سے کم از کم  ایک دائمی دمے کا مریض جاگ اٹھتا ہے۔  بیماری بظاہر تو جان لیوا نہ تھی مگر موت سے زیادہ موت کا خوف  جانور کو مارتا ہے لہٰذا جانوروں کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس بلایا گیا اور اس میں طے کیا گیا کہ بھلائی بس اسی میں ہے کہ جنگل کو مکمل طور پر بند کردیا جائے اور تمام جانوروں سے کہہ دیا جائے  کہ وہ احتیاط کے تقاضوں کے تحت وبا کے ٹلنے تک اپنے گھروں میں ہی  محدود  ہو کر رہیں۔
جب باہر نکلنا بند ہوا تو روزگار اور کاروبار کے مواقع بھی محدود ہوگئے۔ چچھوندر اپنے بیوٹی پارلر کے بند ہونے سے پریشان ہوئی تو بندروں کو اپنے ہیئر سلون کی فکر  نے آدھا کر دیا۔ مگر ان تمام چیزوں کے ساتھ جنگل میں اکا دکا جانور اپنی بد احتیاطی کی وجہ سے بیماری کا شکار ہونا بھی شروع ہوچکے تھے لہٰذا جانوروں کی اکثریت تمام شکایتوں کے باوجود اپنے بل ، گھونسلوں   اور  طبیلے  میں مقید رہنے میں ہی عافیت محسوس کر رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ چھوٹے جانوروں کا پیٹ اور بھوک بھی چھوٹی ہی ہوتی ہے لہٰذا رو پیٹ کر ہی سہی مگر چھوٹے جانوروں کا گزارا  بہرحال ضرور ہو رہا تھا۔ مسئلہ بڑے جانوروں کا تھا کہ جن کی بقا کا تمام تر دارومدار ہی چھوٹے جانوروں کی ہڈیوں اور گوشت پر تھا۔ کہنے کو یہ بڑے جانور اتنے بڑے اور پیٹ بھرے تھے کہ مزید شکار کئے بغیر بھی برسہا برس جی سکتے تھے مگر  پیٹ کاٹ کر ہی زندگی بسر کرنی ہوتی تو یہ تمام جانور اتنی محنت کر کے بڑے جانور کیوں بنتے؟ ان تمام بڑے جانوروں نے فوری طور پر چیتے بادشاہ سے رابطہ کیا اور چھوٹے جانوروں کے باہر نہ نکلنے کی وجہ سے شکار اور اس کے لازمی نتیجے میں آنے والی غذائی قلت  جیسی جان لیوا تکلیف ان کے سامنے رکھ دی۔ چیتے بادشاہ نہایت خدا ترس مخلوق تھے اور رعایا کے بیچ بھید بھاؤ کرنے کے عادی نہیں تھے اور سب سے ایک جیسی رقوم کی امید کرتے تھے۔ ان شکاری جانوروں کی دکھ بھری بپتا سن کر چیتے بادشاہ کی آنکھ میں آنسو آگئے اور انہوں نے  فوری طور پر تمام جانوروں کو جمع کر کے سارا معاملہ ان کے سامنے رکھ دیا کہ کس طرح جنگل کے طاقتور جانوروں نے انہیں بے وقوف بنا کر ان سے جنگل میں لاک ڈاؤن کروا دیا ہے اور  کس طرح اس لاک ڈاؤن سے نقصان صرف چھوٹے جانوروں کا ہو رہا ہے جبکہ طاقتور جانور اپنے گھروں میں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔  ساری صورتحال جانوروں کے سامنے رکھنے کے بعد چیتے بادشاہ نے عوام کو خوشخبری سنائی کہ شکاری جانوروں کے دانت اور پنجے تیز ہوتے ہی لاک ڈاؤن ختم کر دیا جائے گا اور اس کے بعد تمام چھوٹے جانور اپنی مرضی کے شکاری کا نوالہ بننے میں مکمل آزاد ہوجائیں گے کہ جنگل کا قانون ان کے قربان ہونے کے حق کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔
دور کہیں جنگل کے کسی کونے میں موجود ایک گائے ، چیتے بادشاہ کا قوم سے یہ خطاب ٹیلیویژن پر براہ راست دیکھ رہی تھی اور رب کا شکر ادا کر رہی تھی  کہ اب وہ منحوس بھینسا  گھر سے باہر نکل جائے گا جس کی زندگی کا واحد مقصد  اس کے جسم کو روند کر اپنی انا کی تسکین کرنا تھا۔ جو جانتا  تھا کہ ڈاکٹر بکری کے مطابق  ایک مزید حمل اس گائے کی جان بھی لے سکتا ہے مگر یہ بات  اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ شاید اس گائے کو بھی اس کے احساس نہ کرنے سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک ہی چار دیواری میں اپنے ہی   قاتل کے ساتھ رہنا اور بات بے بات اپنی نااہلی کے طعنے سننے کی دو اذیتوں  کا اضافی کرب بڑھ چکا  تھا اور یہ بات اب ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی تھی۔ ٹیلیویژن پر چیتے بادشاہ کا خطاب سنتے ہی اس گائے نے چیتا بادشاہ زندہ باد کا نعرہ لگایا اور سجدہ شکر بجا لائی! لاک ڈاؤن اور اذیت ختم ہونے جا رہی تھی۔
خدا نے جیسے اس گائے کے دن پھیرے، ویسے ہی ہم سب کے دن بھی پھیر دے! کہانی ختم گائے ہضم  

بلاگ فالوورز

آمدورفت