جمعہ، 11 ستمبر، 2015

منٹو

کیا نکموں کی طرح ہر وقت گھر پر پڑے ان کتابوں میں سر کھپاتے رہتے ہو؟ احساس نام کی کوئی چیز تمہارے اندر موجود ہے بھی یا نہیں؟ تمہاری فلسفیانہ لفاظیوں سے ذہنی عیاشی تو ممکن ہے مگر بنیادی انسان ضروریات ان لفاظیوں سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ کب سمجھو گے تم؟  اپنے تئیں اتنے حساس بنے پھرتے ہو کہ پوری دنیا کا درد صاحب کے جگر میں سمویا ہوا ہے مگر زرا احساس نہیں  ہے کہ تمہارے اس طرح گھربیٹھے کہانیاں لکھنے سے گھر میں آٹے دل کے واندے ہوئے رہتے ہیں؟ شرم کر لو کچھ سعادت حسن! شرم کرلو!

میں آنکھیں بند کرکے اپنی کم عقل بیوی کی باتیں سن رہا تھا اور اس کے تھک کر خاموش ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ تھک کر چلی جائے تو میں دوبارہ اپنی کہانی کی طرف متوجہ ہو سکوں۔ میرا نام سعادت حسن ہے مگر میں منٹو نہیں ہوں۔  کچھ مماثلتیں البتہ مجھ میں اور منٹو میں ضرور موجود ہیں مگر وہ اتنی زیادہ نہیں کہ میں خود کو منٹو سمجھ بیٹھوں۔ ٹھیک ہے کہ میں بھی منٹو کی طرح تمباکو کا رسیا ہوں۔ اور ٹھیک ہے کہ منٹو کی طرح میری جیب میں بھی نوٹوں کی جگہ کہانیوں کا بسیرا ہوا کرتا ہے۔ اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ میری بیوی کا بھی بس چلے تو مجھے پاگل خانے بھجوادے۔ مگر میں منٹو کی طرح بادہ نوش نہیں ہوں۔ میں منٹو کی طرح پیشیاں نہیں بھگتتا کیوں کہ میں منٹو کی طرح  پاگل نہیں ہوں کی معاشرے کو ننگا کرتی تحاریر لوگوں کے سامنے لاؤں۔ منٹو کی بیٹی کو ٹائیفائیڈ ہوا تھا اور منٹو نے اس کی دوا کے پیسے دارو میں اڑا دیئے تھے جبکہ اگر میری بیٹی کو بخار ہوجائے تو میرے پاس اتنے پیسے ہوتے ہی نہیں کہ دارو یا سگریٹ میں اڑائے جا سکیں۔ ان اور ان جیسی دیگر بہت سی باتوں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں منٹو نہیں ہوں اور نہ منٹو بن سکتا ہوں۔

پچھلے ایک ماہ سے البتہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے۔ منٹو پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔ ہر طرف اس فلم اور منٹو کی سچی کہانیوں کے چرچے ہیں۔ میں نے بھی لوگوں کو فخر سے بتانا شروع کردیا ہے کہ امرتسر کا کشمیری منٹو نہ سہی، امروہے کا سید، سعادت حسن میں بھی ہوں اور میں بھی کہانیاں لکھتا ہوں۔ منٹو کی فلم کے بعد سے میں نے اپنی تمام غیر مطبوعہ اور سابقہ ناقابل اشاعت سچی کہانیوں کا ایک مجموعہ ترتیب دینا شروع کردیا ہے۔ آج اس ہی سلسلے میں ایک آخری کہانی کی نوک پلک سنوار رہا تھا کہ بیگم صاحبہ کے لیکچر کا وقت ہوگیا اور مجھے کام روک کر ان کی صلواتیں سننی پڑیں۔ دل تو کیا اس کی ہذیان بیچ میں ہی روک کر اسے بتا دوں کہ ہمارے برے دن اب ختم ہوگئے ہیں اور معاشرے نے جس طرح منٹو کو سراہنا شروع کردیا ہے، بہت جلد اب اس کا شوہر بھی ایک مالدار و عزت دار آدمی ہوگا۔ پھر یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ایک دفعہ کتاب کی پیشگی مل جائے تو پیسے سیدھے لاکر منہ پر ماروں گا اور تب بتاؤں گا کہ وہ اپنے وقت کے کتنے بڑے ادیب کی بیوی ہے۔  یہی سوچ کر اس کی باتیں سن اور برداشت کرتا رہا۔

بیگم کے چلے جانے کے بعد میں نے جلدی جلدی کہانی مکمل کی اور ایک معروف پبلشر کے پاس پہنچ گیا۔ پبلشر میرا کام پہلے بھی دیکھ چکا تھا اس لیئے تپاک سے ملے مگر جب میں نے انہیں منٹو ایسی سچی کہانیوں کے بارے میں بتایا تو ان کے تیور یکلخت تبدیل ہوگئے۔ انتہائی رکھائی سے بولے، مسودہ چھوڑ جائیں میں دیکھ لوں گا۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ یہ مخصوص جملہ وہ تب بولا کرتے تھے کہ جب وہ کسی نو آمیز مصنف کو ٹالنا چاہتے تھے۔ میرے یاد دلانے پر وہ صاحب مسکرائے  اور بولے کہ جب سب جانتے ہیں تو یہ بچکانہ حرکات کیوں کرتے ہیں؟ کون چھاپے گا منٹو ایسی کہانیاں؟ میں نے انہیں یاد دلایا کہ کس طرح منٹو پر بننے والی فلم اس وقت کھڑکی توڑ بزنس کر رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ عامۃ الناس میں ایسی کہانیوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ انہوں نے میری طرف مسکرا کردیکھا اور ایک سادہ کاغذ میری سمت بڑھاتے ہوئے بولے، لڑکی کی بے وفائی، لڑکے کا دین کی طرف رجحان، لڑکی کا بعد میں پچھتانا، لڑکے کا دنیاوی اعتبار سے بھی سپر ہیرو ثابت ہونا، لڑکی کا مزید پچھتانا، لڑکے کا مزید اچھی زندگی گزارنا۔ شروع سے آخر تک پورا پلاٹ میں نے بتا دیا ہے۔ آج کل ایسی کہانیوں کی مانگ ہے۔ لکھ سکتے ہو تو ابھی کہانی کا اجمالی خاکہ (ون لائنر) لکھ کر کیشیئر سے پیشگی بیس ہزار روپے لے جاؤ ورنہ  اگر منٹو کا اتنا ہی بھوت سوار ہے تو یاد رکھو، فلم منٹو کے مرنے کے پچاس سال بعد بنی ہے۔ تمہارے تو ابھی مرنے میں بھی پانچ دس باقی لگتے ہیں۔ اگر انتظار کرسکتے ہو تو مسودہ چھوڑ جاؤ اور نیچے یاد سے لکھ دینا کہ پچاس سال بعد جب تمہارے اوپر فلم بنے تو اس کے پریمئر کیلئے گھر میں سے کس کس فرد کو دعوت نامہ بھجوایا جائے۔


میں نے میز پر سے سادہ کاغذ اور قلم اٹھایا اور برابر والے کمرے میں جا کر کہانی لکھنے لگا۔ کہانی کے ہیرو کا نام منٹو تھا مگر یہ والا منٹو نہ شراب پیتا تھا اور نہ ہی خون تھوکتا تھا۔

5 تبصرے :

  1. امرتسر کا کشمیری منٹو تو عزیز ہے ہی۔۔۔۔۔ مجھے مگر یہ امروہے کا "سید سعادت حسن" بھی بہت عزیز ہے بھیا :-)

    جواب دیںحذف کریں
  2. مجھے ايک بات پر خوشی ہے کہ ميں نے منٹو کو فلم کےُچرچوں سے پہلے پڑھنا شوروع کيا۔ ميں کچھ چھوٹی موٹی تسويرں ننا کر منٹو کے تحرير کے ساتھ شير کرديتا ہوں آن لاين۔ آپ کی يہ کحانی پرھ کر بہت مذا آيا اور اُميد کرتا ہوں آب اس کشمکش ميں کامياب ہو جاو۔

    Instagram: ashfaq_

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایک خوبصورت اور پر آسر تحریر پڑھ کر لطف دو بالا ہو گیا۔ لکھتے رہیے ایسی نوعیت کی تحریر اب ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت