بدھ، 2 ستمبر، 2015

فاطمہ

امی میں اسکول جا رہی ہوں ۔ دروازہ بند کرلیجئے گا۔ پراٹھے کے رول کو تقریبا نگلتے ہوئے فاطمہ نے دروازے سے ہانک لگائی اور تیز قدموں کے ساتھ اسکول کیلئے روانہ ہوگئی۔
وہ ایک بائیس سالہ لڑکی تھی جو گھر کے قریب ہی واقع ایک نجی اسکول میں پڑھاتی تھی۔ پچھلے سال ہی والد کا انتقال ہوگیا تھا اور گھر کے اخراجات اور رشتے داروں کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر فاطمہ نے نوکری کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ وہ اپنی بیوہ ماں اور تین چھوٹے بہن بھائیوں کی کفیل بن گئی تھی۔ ایک بھائی انیس سال کا تھا اور دوسرا ابھی چودہ کا۔ دونوں پڑھائی کر رہے تھے کیونکہ اس وقت پڑھائی چھوڑنے کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ پھر ساری عمر چھوٹی موٹی نوکریاں ہی کرتے رہتے۔ فاطمہ اس بات کو سمجھ سکتی تھی اس لیئے اس نے بھائی کے بہت اصرار کرنے کے باوجود اسے نوکری کی اجازت نہیں دی تھی۔ بہت منت سماجت کے بعد اس نے اب صبح گھروں میں اخبار ڈالنے کا کام شروع کردیا تھا کہ کم از کم اپنی پڑھائی کا خرچ خود اٹھا سکے۔ سب سے چھوٹٰی  بہن ابھی بہت چھوٹی تھی اور پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ گو اسکول سے تنخواہ کم ملتی تھی مگر خدا نے اسے اور گھر والوں کو قناعت ایسی عظیم نعمت سے نوازا تھا سو کھینچ تان کر بہر حال گزارا ہو ہی جاتا تھا۔ فاطمہ اپنی اس چھوٹی سی کائنات میں بہت خوش تو نہیں البتہ مطمئن ضرور تھی۔
اسکول میں اساتذہ کو بچوں سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا تاکہ وہ اسمبلی کی تیاری کرسکیں اور آج وہ گھر سے نکلنے میں لیٹ ہوگئی تھی۔ تیز قدموں کے ساتھ ہانپتی ہوئی وہ اسکول پہنچی تو دروازے پر ہی  اسے اپنے اسکول کی ساتھی  اسریٰ مل گئی جو اس ہی کی راہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے اسریٰ کو سلام کرکے اندر اسکول میں جھانکا تو اسکول ابھی خالی تھا اور بچے آنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ اس نے سکھ کا سانس لیا  اوراسریٰ کی طرف متوجہ ہوگئی جو اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے باہر کی طرف لے جا رہی تھی۔  اسے اپنی طرف متوجہ پاکر اسریٰ بولی، سنو! وہ جو میں نے تمہیں دوسرے اسکول میں ڈبل تنخواہ پر نوکری کا بتایا تھا وہاں سے انٹرویو کی کال آگئی ہے۔ پک اینڈ ڈراپ بھی دے رہے ہیں وہ لوگ۔  باہر گاڑی کھڑی ہوئی ہے چلو انٹرویو دیکر آتے ہیں۔ فاطمہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ تنخواہ ڈبل ہوجانے سے گھر کے کتنے ہی مسائل حل ہوسکتے تھے۔ اسے اسکول کی باقی استانیوں پر  شدید غصہ آیا جو اسے ہر وقت اسریٰ کے بارے میں بھڑکاتی رہتی تھیں کہ وہ صحیح لڑکی نہیں ہے۔  وہ اس کے ساتھ باہر جانے لگی مگر پھر خیال آگیا کہ اگر نوکری نہ ہوئی تو ؟ اسے اس اسکول سے بات خراب کرکے نہیں جانا چاہیئے۔ اس نے اسریٰ سے باتھ روم  کا بہانہ کیا اور اندر پرنسپل کے کمرے میں جاکر ان سے دس منٹ کیلئے اسریٰ کے ساتھ جانے کی اجازت لیکر آگئی۔
اسکول کے باہر بچوں کو لانے لے جانے والی ایک سوزوکی کیری موجود تھی ۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکا موجود تھا اس لیئے اسریٰ نے اسے اپنے ساتھ پیچھے بٹھا لیا۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد کیا ہوا یہ اسے یاد نہیں مگر جب اسے  ہوش آیا تو اس نے خود کو کسی ہوٹل کے کمرے میں پایا۔ اس کے دونوں ہاتھ  پشت کی جانب بندھے ہوئے تھے اور منہ میں ایک کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا کہ اگر وہ چاہے بھی تو آواز بلند نہ کرسکے۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر کمرے میں موجود اسریٰ اور تین لڑکے جو خوش گپیوں میں مصروف تھے اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اسریٰ اس کے قریب آئی اور بڑے رسان سے اسے سمجھانے لگی کہ یہ لڑکے اس کے دوست ہیں اور فاطمہ کو گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ یہ لڑکے اس کا بے حد خیال رکھیں گے اور چند ضروری کاموں کے بعد اسے واپس گاڑی میں گھر چھوڑ  آئیں گے۔ محض آدھے گھنٹے کی محنت کے بدلے فاطمہ کو آج پچاس ہزار روپے ملیں گے اور آج کے بعد ہر مرتبہ اس کمرے میں آنے کے اس کو پانچ ہزار روپے دیئے جائیں گے۔
فاطمہ کو لگ رہا تھا کہ کوئی سیسہ پگھلا کر اس کے کانوں میں انڈیل رہا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسریٰ ایک عورت ہوتے ہوئے اس کے ساتھ یہ سب کیسے کرسکتی تھی؟ مگر یہ وقت  کوسنوں کا نہیں تدبیر کا تھا۔ فاطمہ بھولی ضرور تھی مگر بے وقوف نہیں تھی۔ اس نے محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس نے اس ہی حالت میں مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو وہ چاروں لڑکے اسے بے بس کرکے بھی اپنا کام نکال لیں گے البتہ اگر وہ اپنے ہاتھ پاؤں کھلوانے میں کامیاب ہوجاتی تو شاید بچنے کی کوئی سبیل نکل جاتی۔ فاطمہ نے  فوری طور پر ایک فیصلہ کیا اور اپنے چہرے کے تاثرات کو خوف سے خوشی میں بدلنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسریٰ جو اسے بغور دیکھ رہی تھی، خوش ہوکر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئی کہ دیکھا میں نہ کہتی تھی کہ بیچاری بچی واقعی بہت ضرورت مند ہے۔ چلو ہاتھ پاؤں کھول دو اس کے اور جلدی جلدی کام نمٹا لو۔ چھٹی کا ٹائم ہونے والا ہے میں نے واپس گھر پہنچنا ہے۔ محلے والے ایویں باتیں بناتے ہیں اگر دیر سے جاؤں تو۔
لڑکوں میں سے دو نے اپنی پتلونوں میں اڑسی ہوئی بندوقیں نکال لیں اور فاطمہ کو نشانے پر رکھتے ہوئے تیسرے کو اس کے ہاتھ پاؤں کھولنے کا اشارہ کردیا۔ ہاتھ پاؤں اور منہ کے آزاد ہوتے ہیں فاطمہ نے اپنے پھیپھڑوں کے پورے زور سے چلانا شروع کردیا ۔ وہ پاگلوں کی طرح چلا  رہی تھی کہ شاید کسی تک اس کی آواز پہنچ جائے اور کوئی اس کی مدد کو آسکے مگر  شاید ہوٹل والے نے یہ کمرہ ایسے ہی کاموں کیلئے مخصوص کیا ہوا تھا کیونکہ فاطمہ کی صدائیں ہزار کوشش سے بھی کمرے سے باہر نہیں نکل پائیں۔ فاطمہ نے جب دیکھا کہ اس کے چلانے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے اور لڑکے جس ڈھٹائی سے ہنس رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ کمرا ساؤنڈ پروف ہے تو اس نے ایک خطرناک فیصلہ کرلیا۔ اس نے بندو ق بردار لڑکوں میں سے ایک پر چھلانگ لگا دی۔ وہ اس افتاد کیلئے شاید تیار نہیں تھا اور فاطمہ کے حملے کی جھونک میں آکر الٹ پڑا ۔ بندوق اس کے ہاتھ سے نکل کر گرپڑی تھی۔ فاطمہ تیزی سے بندوق کی سمت لپکی مگر جتنی دیر میں وہ بندوق اٹھاتی، دوسرا لڑکا سنبھل کر اس پر فائر کھول چکا تھا۔ چار گولیاں فاطمہ کے نازک جسم کیلئے  بہت تھیں۔ تھوڑی دیر اس کا جسم تڑپا اور پھر ہمیشہ کیلئے ساکت ہوگیا۔
اسریٰ نے اپنے ساتھیوں کو غلیظ گالیوں سے نوازنا شروع کردیا جنہوں نے ہاتھ آئی چڑیا کو اس طرح مسل دیا تھا۔ اسریٰ نے اس لڑکی سے لاکھوں روپے کمانے کے منصوبے بنا رکھے تھے۔ وہ اسکول میں نوکری کر ہی اس لیئے رہی تھی کہ مجبوری میں گھر سے نکلنے والی لڑکیوں کو پھسلا کر اس دھندے میں لایا جاسکے۔ ایک مرتبہ جو لڑکی اس گیسٹ ہاؤس میں پہنچ جاتی اسے پیسوں کا لالچ دیکر راضی کرلیا جاتا اور جو اس لالچ میں نہیں آتیں  ان غریبوں کی بیہوش کرکے ان کی نازیبا تصاویر بنا ئی جاتیں اور پھر انہیں بلیک میل کرکے ان سب کاموں کیلئے مجبور کیا جاتا تھا۔ فاطمہ پر ایک ماہ سے اس کی نظر تھی مگر اس کے ساتھیوں کی جلد بازی کی وجہ سے شکار اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔  غصہ تو اسے بہت تھا مگر فی الوقت اہم کام لاش کو ٹھکانے لگانا تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ فاطمہ کو اس کے ساتھ جاتے کسی نے نہیں دیکھا تھا لہٰذا کسی کا شک اس پر نہیں جائے گا۔
گاڑی میں فاطمہ کی لاش کو ڈال کر وہ لوگ اس گیسٹ ہائؤس سے نکلے اور ایک رہائشی علاقے میں نسبتا سنسان جگہ دیکھ کر لاش پھینک کر وہاں سے فرار ہوگئے۔  اسکول کی چھٹی کا وقت ہوچکا تھا لہٰذا  اسریٰ اپنے گھر پر ہی اتری اور باقی ساتھی بھی اپنے اپنے ٹھکانوں پر روانہ ہوگئے۔
گھر پہنچ کر وہ نہا دھو کر کمر سیدھی کرنے کیلئے لیٹ گئی۔ آج کے واقعے سے وہ شدید ذہنی کوفت کا شکار ہوچکی تھی اور اب تھوڑی دیر سونا چاہتی تھی۔ اس نے نیند کی آدھی گولی لی اور بستر میں ڈھ گئی۔ نجانے کتنی دیر سوئی ہوگی مگر جب آنکھ کھلی تو خود کو پانی میں شرابور پایا۔ سامنے ایک زنانہ پولیس آفیسر پانی کا جگ ہاتھ میں لیئے کھڑی تھی۔ نیم غنودگی کے عالم میں پولیس کو دیکھ کر اسریٰ بوکھلا گئی اور چلا اٹھی کہ میں نے اسے قتل نہیں کیا ۔ میں تو بس اسے وہاں تک لیکر گئی تھی۔ چند ہی لمحوں بعد وہ پولیس کی موبائل وین میں بیٹھی اپنے باقی ساتھیوں کے ٹھکانے کی طرف جارہی تھی۔
جب فاطمہ چھٹی کے بعد بھی گھر نہیں پہنچی تو اس کی ماں نے اسکول فون کیا جہاں سے انہیں پتہ چلا کہ فاطمہ اسریٰ کے ساتھ صبح سے دس منٹ کا کہہ کر نکلی ہوئی ہے اور اس کے بعد اسکول نہیں لوٹی ہے۔ فاطمہ کی ماں نے اسکول ہی سے اسریٰ کے گھر کا نمبر لیا اور وہاں فون کرنے پر پتہ چلا کہ اسریٰ تو حسبِ معمول آج بھی اسکول گئی تھی اور حسبِ معمول چھٹی کے وقت اسکول سے آکر تھکن کی وجہ سے سو رہی ہے۔ فاطمہ کی ماں نے اسریٰ کے گھر میں یہ نہیں بتایا کہ فاطمہ صبح سے اسکے ساتھ تھی بلکہ یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ دراصل فاطمہ چھٹی کے بعد اسریٰ کے ساتھ جانے کا کہہ کر گئی تھی تو میں نے سوچا پوچھ لوں۔  فون رکھتے ہوئے فاطمہ کی ماں کا دل ہول رہا تھا مگر وہ جان گئی تھیں کہ فاطمہ کے لوٹ کر نہ آنے میں کہیں نہ کہیں اسریٰ کا ہاتھ ضرور شامل ہے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو فون کیاجو پولیس میں سب انسپکٹر تھا اور پوری کہانی اسکے گوش گزار کردی۔ بھائی نے فورا زنانہ پولیس کو مطلع کیا اور اسریٰ کے گھر پر چھاپہ مار دیا۔ اسریٰ کی بدقسمتی کے وہ ٹرینکولائزر کے اثر میں تھی اس لیئے اس نے نیم مدہوشی میں اقرار جرم کرلیا اور پھر پولیس کا کام آسان ہوگیا۔
اس واقعے کو تین ماہ ہوچکے تھے۔ پورا گینگ پکڑا جاچکا تھا اور ان کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا۔ فاطمہ کے گھر والوں کو پوری امید تھی کہ انہیں انصاف ملے گا اور ان درندوں کو کم از کم پھانسی کی سزا سنائی جائے گی۔آج فاطمہ کا چھوٹا بھائی ہاشم اپنے  اخبار فروش انجمن کے ساتھیوں کے ساتھ ایک مظاہرہ کرنے کیلئے پریس کلب آیا ہوا تھا۔اس سانحے کے بعد سے اسکے ساتھی  اس کا بہت زیادہ خیال کرنے لگے تھے۔ وہ سب اس تکلیف کو سمجھ سکتے تھے جس سے ان کا ساتھی گزرا تھا۔ ادھر ہاشم بھی اس ایک دن سے ہی اپنے اندر ایک آگ محسوس کر رہا تھا اور اس کو کسی مثبت سمت میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا اور بولنا بھی خوب جانتا تھا۔سو پچھلے تین ماہ میں غیر محصوس طور پر وہ انیس سالہ نوجوان ان کا لیڈر بن چکا تھا۔
 وہ لوگ جب پریس کلب پہنچے تو ان سے پہلے بوژروا طبقے کے کچھ مرد اور خواتین بشمول لڑکے اور لڑکیاں ہاتھوں میں موم بتیاں اٹھائے احتجاج کرنے میں مصروف تھے۔ یہ اور اس کے ساتھی جگہ خالی ہونے کا انتظار کرنے لگے کہ جب جگہ خالی ہو تو یہ لوگ آگے آئیں اور پنے مطالبات پریس  کے سامنے رکھ سکیں۔ کھڑے کھڑے جب اکتاہٹ ہونے لگی تو ہاشم ٹہلتا ہوا دوسری طرف چلا گیا کہ وہاں سے ان افراد کے مطالبات کے بینر ہی پڑھ سکے۔اسے ہمیشہ سے لگتا تھا کہ  لیڈر کیلئے ضروری ہوتا ہے وہ وقت کے مشہور نعروں کی جانکاری رکھتا ہو تاکہ انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکے۔ وہ ٹہلتا ہوا جب مظاہرے کے سامنے پہنچا تو پہلا بینر پڑھتے ہی اس کی کھوپڑی گھوم گئی۔ مظاہرین پھانسی ایسی بے رحمانہ سزا کے خاتمے کیلئے  احتجاج کر رہے تھے۔ ہاشم نے وہیں سے کھڑے کھڑے اپنے ساتھیوں کو وہاں پہنچنے کا اشارہ کردیا۔ اسکے ساتھی جب وہاں پہنچے تو پہلے تو ہاشم کی آنکھوں میں اترے ہوئے خون کو دیکھ کر لرز گئے مگر جب سامنے ہونے والے احتجاجی بینرز پر نظر پڑی تو معاملہ ان کی سمجھ میں آگیا۔ ان میں سے ایک اخبار فروش  نے آگے بڑھے کر مظاہرین سے بینر چھین کر پھاڑنا شروع کردیئے۔ اس کا دیکھا دیکھی تمام اخبار فروشوں نے ہی مظاہرے پر ہلا بول دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں صرف پھٹے ہوئے بینرز کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ مظاہرین فرار ہوچکے تھے۔

رات کو ٹیلیویژن پر ٹاک شو میں گرماگرم بحث جاری تھی کہ معاشرہ اتنا متشدد کیسے ہوگیا ہے کہ ایک انتہائی غیر انسانی سزا کیخلاف ہونے والا مظاہرہ بھی اس سے برداشت نہیں ہوتا  نیز یہ پھانسی والی سزا پر دوبارہ پابندی کب لگائی جائے گی؟

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت