میں ایک ادیب ہوں. چونکہ ادیب حساس ہوتے ہیں لہذا میں اپنی حساسیت میں معاشرے کے تمام پیپ زدہ چھالے اٹها کر گهر لے آتا ہوں. کچھ قرطاس پر انڈیلتا ہوں اور باقی روح پر سجا لیتا ہوں. یہی روح کے چهالے بڑھ کر کوڑھ بن جاتے ہیں. میری زبان پر بهی آجاتے ہیں. پهر جب میں بولتا ہوں تو الفاظ کی جگہ منہ سے پیپ نکلتی ہے. لوگ خوفزدہ ہوکر دور بهاگ جاتے ہیں.
ہر مریض کی طرح میں بهی توجہ کا طالب ہوتا ہوں. ہمدردی کا خواہاں ہوتا ہوں. مگر مجهے بتایا جاتا ہے کہ میں تو مرد ہوں. اور مرد چونکہ بہت عام دستیاب ہیں لہٰذا کسی مرد/عورت کو میرے کوڑھ زدہ جسم کی محبت مجھ سے بات کرنے کی اشتہا نہیں دیتی.
ان سب مصائب میں گهرا ادیب بالآخر مکمل تنہا رہ جاتا ہے اور اس تنہائی کی مفلسی میں پهر ایک وقت ایسا بهی آتا ہے کہ دنیا کو اپنے وجود کے ہونے کا احساس دلانے کیلئے اگر تصویر بهی کهینچنی پڑے تو کوئی تصویر ساز میسر نہیں ہوتا.
اپنا دل بہلانے کیلئے ہم سخن طرازوں نے ان مفلسی کی تصاویر کو سیلفی کا خوبصورت نام دے رکها ہے.
آپ بہت خوبصورت لکھتے ہیں. نیک تمنائیں.
جواب دیںحذف کریںبہت عمدگی سے لکھا ہے
جواب دیںحذف کریںاللہ پاک نظر بد سے بچائے رکھیں
سبحان اللہ۔۔۔ ماشاء اللہ۔۔ بہت ہی خوب
جواب دیںحذف کریں