جمعہ، 25 ستمبر، 2015

عید الاضحٰی کے رنگ

عید کے رنگ کی رسواکن ناکامی کے بعد اب پیش ہیں عید الاضحٰی کے رنگ


پہلا رنگ:
پیارے اللہ میاں! آپ نے میری سب سے پسندیدہ چیز کی قربانی پہلے ہی لے لی ہے.میں پوچھ رہی تهی کہ کیا بابا کے بعد ایک جانور کی قربانی بهی واجب ہے؟

دوسرا رنگ:
امی! کلو بتا رہا تها دو سال پہلے اسکے رشتے داروں کے گهر سے بکرے کاگوشت آیا تها. امی کیا بکرے گوشت واقعی لذیذ ہوتا ہے؟

تیسرا رنگ:
ابو معلوم نہیں کس قسم کے بکرے لے آتے ہیں. حرام ہے جو کبهی قربانی کے بکرے میں مٹن کا ٹیسٹ آیا ہو.

چوتھا رنگ:
امی ہم لوگ قربانی کیوں کرتے ہیں؟
بیٹا کیونکہ سب لوگ کرتے ہیں
!

پانچواں رنگ:
موم قربانی کے گوشت کا کیا کرنا ہے؟
 کیا مطلب کیا کرنا ہے؟ تین حصے کرو
 ایک ہنٹر بیف کا، ایک پارچوں کا، ایک فریز کرنے کا

چھٹا رنگ:
امی ہم لوگ بڑی والی گائےکب لائیں گے؟
بیٹا اب جاکر تو تمہارے ابا کی پوسٹنگ اچهی جگہ ہوئی ہے. انشاءاللہ اگلےسال بڑی گائے لائیں گے

ساتواں رنگ:
ابو ہم  قربانی کی کھال ان لوگوں کو کیوں دیتے ہیں؟
بیٹا تاکہ یہ پورا سال ہمارے مخالفین کی کھال اتار سکیں۔

آٹھواں رنگ:
ایک تو  یہ نئی نسل چار کتابیں کیا پڑھ گئی ہے ہمارے منہ کو آنے لگی ہے۔ بھلا بتاؤ، موبائل فون، گاڑی، بنگلہ وغیرہ دنیا کو دکھانے کیلئے اچھے سے اچھا چاہیئے مگر ہم دنیا کو دکھانے کیلئے دس لاکھ کا جانور لے آئیں تو طعنے؟ لعنت ہے!

نواں رنگ:
عید پر تو تم اتنا اداس نہیں ہوتے۔ یہ بڑی عید پر کیوں اچانک وطن کی اتنی یاد آنے لگتی ہے؟
عید بڑی ہو تو دوری کی تکلیف بھی بڑی ہوتی ہے دوست!

دسواں رنگ:
ابو! آج ہم نے اسکول میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل کے ذبیحے کا قصہ سنا۔
ہاں بیٹا! یہ بقرعید کی قربانی دراصل اس ہی قربانی کی یاد میں کی جاتی ہے۔ کل ہم بھی انشاءاللہ سنت ابراہیمی ادا کریں گے۔
ابو! اگر اللہ کا حکم آیا تو آپ واقعی مجھے ذبح کردیں گے؟

گیارہواں رنگ:
ابو یہ خصی اور آنڈو  جانور کیا ہوتا ہے؟ خصی جانور مہنگا کیوں ہوتا ہے؟
بیٹا جو جانور پانچ سال تک دن رات محنت کرتے ہیں  اور جماعت کی افرادی قوت بڑھانے کے کام آتے ہیں وہ آنڈو کہلاتے ہیں جبکہ جو جانور سوائے  کھانے پینے اور قربانی کے کام آنے کے علاوہ کسی کام کے نہیں ہوتے اور پانچ سال بعد ان آنڈو جانوروں پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں وہ خصی کہلاتے ہیں۔ چونکہ خصی جانور سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا لہٰذا یہ زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔

بارہواں رنگ:
سنیں! آپ کل کون سے کپڑے پہنیں گے؟
باجی!  مجھ سے کچھ کہہ رہی ہیں؟
نہیں!  کچھ نہیں، تم اپنے کام نمٹاؤ
پتہ نہیں صاحب کے گزرنے کے بعد باجی کو کیا ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں کس سے باتیں کرتی رہتی ہیں۔

تیرہواں رنگ:
پیارے اللہ میاں! کل صبح عید ہے اور امی کہہ رہی ہیں کہ میں اکیلا نماز پڑھنے نہیں جا سکتا۔  اگر آپ ابو کو صبح تک واپس بھیج دیں تو میں بھی باقی بچوں کی طرح عید کی نماز پڑھنے چلا جاؤں گا۔ امی کہتی ہیں کہ آپ نے انہیں ہمیشہ کیلئے اپنے پاس بلا لیا ہے۔ کیا آپ انہیں ایک دن کیلئے واپس بھیج سکتے ہیں ؟پلیز؟

چودہواں رنگ:
ہاں بھائی صاحب! قربانی شیعہ طریقے سے  کروانی ہے یا سنی طریقے سے؟
دونوں طریقوں میں کیا فرق ہے؟
بے دھیانی میں پوچھ لیا صاحب! ناراض کیوں ہو رہے ہو؟ ویسے فرق تو اور بھی بہت ساری چیزوں میں نہیں ہے مگر اس کے بارے میں تو کبھی نہیں پوچھتے؟

پندرہواں رنگ:
آج تیسری تاریخ ہوگئی ذوالحج کی۔خیر سے  بڑی عید کے پانچ دن  بعد پوتی کی شادی طے کی ہے! اب حساب لگا لو! اے بیٹا قربانی میں کتنے دن  رہ گئے ہیں؟
دادی! بارہ دن!

سولہواں رنگ:
تمام مسلمانوں کو دل کی گہرائیوں سے عیدالادحٰی مبارک ہو۔

سترہواں رنگ:
عاطف بھائی!  ایک بات  بتائیں۔ فطرہ آپ گندم کے حساب سے نکالتے ہیں اور قربانی آپ چارلاکھ کے جانور کی کرتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟
جانی! فطرے کی تھیلیاں ٹینٹ لگا کر گھر کے باہر نہیں باندھی جا سکتیں!

اٹھارہواں رنگ:
بابا! لوگ قربانی پر اربوں روپیہ خرچ کرنے کے بجائے یہی پیسہ کسی غریب کو کیوں نہیں دے دیتے؟
بیٹا! اول تو اس قربانی سے جڑے زیادہ تر لوگ غریب ہی ہیں۔ اس قربانی سے،  مویشی پالنے والے سے لیکر بیچنے والے تک، اور چارہ بیچنے والے سے لیکر قصاب اور چمڑے کے کارخانے تک،  پتہ نہیں کتنے لوگوں کے روزگار اس سے وابستہ ہیں۔ دوسری بات میرے بیٹے یہ ہے کہ  اگر لوگ اتنا ہی سوچنا شروع ہوجائیں تو زکٰوۃ کا نظام اتنا مضبوط ہوجائے گا کہ غربت نامی بلا رہے گی ہی نہیں!

انیسواں رنگ:
عجیب نفسیاتی قوم ہے بھئی! قربانی ایسی بے مصرف چیز پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیں گے مگر کسی غریب کی بیٹی کو جہیز جیسی واجب اور کارِ ثواب چیز دلانے میں مدد نہیں کریں گے۔

بیسواں رنگ:
 ارے ادیب صاحب! کیا شاندار بکرا لائے ہیں بھائی اس سال!  خدا قربانی قبول کرے۔
شکریہ بھائی!
پہلے دن قربانی کریں گے یا دوسرے دن؟
جی قربانی تو پہلے ہی ہوگئی!
کیا مطلب؟
ضمیر قربان کیا تھا تب ہی تو بیٹے کی خواہشات کے مطابق بکرا آپایا ہے۔

اکیسواں رنگ:
ارے آنٹی! منہ کیوں لٹکائے بیٹھی ہے؟  چل اب سو جا! کوئی گاہک نہیں آنے والا۔ کل صبح بڑی عید ہے۔
حسینہ! کل گوشت کھانے والوں کا دن ہے۔ طوائف کی عید تب ہوتی ہے جب گوشت بھنبھوڑنے والوں کا دن ہو۔
آنٹی !کتنی بار کہا ہے کہ سستا نشہ نہ کیا کر، ایویں فلسفی ہوجاتی ہے۔ دل چھوٹا نہ کر! اس ملک میں گوشت کھانے کے تین اور بھنبھوڑنے کے تین سو ساٹھ دن ہوتے ہیں!

بائیسواں رنگ:
بیٹا! سال میں ایک مرتبہ، پانچ دن کیلئے ہی سہی! اگر میں بیل بن جاؤں تو کیا تم میرے لیئے بھی اتنا وقت اور توجہ نکال لو گے؟

تئیسواں رنگ:
بابا! میٹھی عید پر تو ہم نماز سے واپسی میں پہلے قبرستان جاتے ہیں مگر یہ بڑی عید پر آپ نماز پڑھ کر سیدھے گھر کیوں آجاتے ہیں؟
بیٹا میٹھی عید پر ہم نماز شیر خرمہ کھا کر جاتے ہیں جبکہ عید الاضحٰی پر افطار قربانی کے گوشت سے ہوتا ہے۔ محبت زندوں کی ہو یا مردوں کی، بھرے پیٹ میں ہی اچھی لگتی ہے۔

چوبیسواں رنگ:
کیا لکھ رہے ہو؟
عیدین پر سیکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے ہماری عدم توجہی پر ایک کہانی لکھ رہا ہوں۔
میٹھی عید پر بھی تو لکھی تھی نا؟
سوری! بھول گیا تھا!

پچیسواں رنگ:
صاحب! گوشت ملے گا؟
کیوں نہیں ملے گا؟ جتنا چاہیئے اتنا ملے گا! مگر مجھے بدلے میں کیا ملے گا؟

2 تبصرے :

  1. خوبصورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچے بکھرے رنگ

    جواب دیںحذف کریں
  2. عید بڑی ہو تو دوری کی تکلیف بھی بڑی ہوتی ہے
    بہترین بیانیہ جناب

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت