جمعہ، 25 ستمبر، 2015

عید الاضحٰی کے رنگ

عید کے رنگ کی رسواکن ناکامی کے بعد اب پیش ہیں عید الاضحٰی کے رنگ


پہلا رنگ:
پیارے اللہ میاں! آپ نے میری سب سے پسندیدہ چیز کی قربانی پہلے ہی لے لی ہے.میں پوچھ رہی تهی کہ کیا بابا کے بعد ایک جانور کی قربانی بهی واجب ہے؟

دوسرا رنگ:
امی! کلو بتا رہا تها دو سال پہلے اسکے رشتے داروں کے گهر سے بکرے کاگوشت آیا تها. امی کیا بکرے گوشت واقعی لذیذ ہوتا ہے؟

تیسرا رنگ:
ابو معلوم نہیں کس قسم کے بکرے لے آتے ہیں. حرام ہے جو کبهی قربانی کے بکرے میں مٹن کا ٹیسٹ آیا ہو.

چوتھا رنگ:
امی ہم لوگ قربانی کیوں کرتے ہیں؟
بیٹا کیونکہ سب لوگ کرتے ہیں
!

پانچواں رنگ:
موم قربانی کے گوشت کا کیا کرنا ہے؟
 کیا مطلب کیا کرنا ہے؟ تین حصے کرو
 ایک ہنٹر بیف کا، ایک پارچوں کا، ایک فریز کرنے کا

چھٹا رنگ:
امی ہم لوگ بڑی والی گائےکب لائیں گے؟
بیٹا اب جاکر تو تمہارے ابا کی پوسٹنگ اچهی جگہ ہوئی ہے. انشاءاللہ اگلےسال بڑی گائے لائیں گے

ساتواں رنگ:
ابو ہم  قربانی کی کھال ان لوگوں کو کیوں دیتے ہیں؟
بیٹا تاکہ یہ پورا سال ہمارے مخالفین کی کھال اتار سکیں۔

آٹھواں رنگ:
ایک تو  یہ نئی نسل چار کتابیں کیا پڑھ گئی ہے ہمارے منہ کو آنے لگی ہے۔ بھلا بتاؤ، موبائل فون، گاڑی، بنگلہ وغیرہ دنیا کو دکھانے کیلئے اچھے سے اچھا چاہیئے مگر ہم دنیا کو دکھانے کیلئے دس لاکھ کا جانور لے آئیں تو طعنے؟ لعنت ہے!

نواں رنگ:
عید پر تو تم اتنا اداس نہیں ہوتے۔ یہ بڑی عید پر کیوں اچانک وطن کی اتنی یاد آنے لگتی ہے؟
عید بڑی ہو تو دوری کی تکلیف بھی بڑی ہوتی ہے دوست!

دسواں رنگ:
ابو! آج ہم نے اسکول میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل کے ذبیحے کا قصہ سنا۔
ہاں بیٹا! یہ بقرعید کی قربانی دراصل اس ہی قربانی کی یاد میں کی جاتی ہے۔ کل ہم بھی انشاءاللہ سنت ابراہیمی ادا کریں گے۔
ابو! اگر اللہ کا حکم آیا تو آپ واقعی مجھے ذبح کردیں گے؟

گیارہواں رنگ:
ابو یہ خصی اور آنڈو  جانور کیا ہوتا ہے؟ خصی جانور مہنگا کیوں ہوتا ہے؟
بیٹا جو جانور پانچ سال تک دن رات محنت کرتے ہیں  اور جماعت کی افرادی قوت بڑھانے کے کام آتے ہیں وہ آنڈو کہلاتے ہیں جبکہ جو جانور سوائے  کھانے پینے اور قربانی کے کام آنے کے علاوہ کسی کام کے نہیں ہوتے اور پانچ سال بعد ان آنڈو جانوروں پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں وہ خصی کہلاتے ہیں۔ چونکہ خصی جانور سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا لہٰذا یہ زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔

بارہواں رنگ:
سنیں! آپ کل کون سے کپڑے پہنیں گے؟
باجی!  مجھ سے کچھ کہہ رہی ہیں؟
نہیں!  کچھ نہیں، تم اپنے کام نمٹاؤ
پتہ نہیں صاحب کے گزرنے کے بعد باجی کو کیا ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں کس سے باتیں کرتی رہتی ہیں۔

تیرہواں رنگ:
پیارے اللہ میاں! کل صبح عید ہے اور امی کہہ رہی ہیں کہ میں اکیلا نماز پڑھنے نہیں جا سکتا۔  اگر آپ ابو کو صبح تک واپس بھیج دیں تو میں بھی باقی بچوں کی طرح عید کی نماز پڑھنے چلا جاؤں گا۔ امی کہتی ہیں کہ آپ نے انہیں ہمیشہ کیلئے اپنے پاس بلا لیا ہے۔ کیا آپ انہیں ایک دن کیلئے واپس بھیج سکتے ہیں ؟پلیز؟

چودہواں رنگ:
ہاں بھائی صاحب! قربانی شیعہ طریقے سے  کروانی ہے یا سنی طریقے سے؟
دونوں طریقوں میں کیا فرق ہے؟
بے دھیانی میں پوچھ لیا صاحب! ناراض کیوں ہو رہے ہو؟ ویسے فرق تو اور بھی بہت ساری چیزوں میں نہیں ہے مگر اس کے بارے میں تو کبھی نہیں پوچھتے؟

پندرہواں رنگ:
آج تیسری تاریخ ہوگئی ذوالحج کی۔خیر سے  بڑی عید کے پانچ دن  بعد پوتی کی شادی طے کی ہے! اب حساب لگا لو! اے بیٹا قربانی میں کتنے دن  رہ گئے ہیں؟
دادی! بارہ دن!

سولہواں رنگ:
تمام مسلمانوں کو دل کی گہرائیوں سے عیدالادحٰی مبارک ہو۔

سترہواں رنگ:
عاطف بھائی!  ایک بات  بتائیں۔ فطرہ آپ گندم کے حساب سے نکالتے ہیں اور قربانی آپ چارلاکھ کے جانور کی کرتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟
جانی! فطرے کی تھیلیاں ٹینٹ لگا کر گھر کے باہر نہیں باندھی جا سکتیں!

اٹھارہواں رنگ:
بابا! لوگ قربانی پر اربوں روپیہ خرچ کرنے کے بجائے یہی پیسہ کسی غریب کو کیوں نہیں دے دیتے؟
بیٹا! اول تو اس قربانی سے جڑے زیادہ تر لوگ غریب ہی ہیں۔ اس قربانی سے،  مویشی پالنے والے سے لیکر بیچنے والے تک، اور چارہ بیچنے والے سے لیکر قصاب اور چمڑے کے کارخانے تک،  پتہ نہیں کتنے لوگوں کے روزگار اس سے وابستہ ہیں۔ دوسری بات میرے بیٹے یہ ہے کہ  اگر لوگ اتنا ہی سوچنا شروع ہوجائیں تو زکٰوۃ کا نظام اتنا مضبوط ہوجائے گا کہ غربت نامی بلا رہے گی ہی نہیں!

انیسواں رنگ:
عجیب نفسیاتی قوم ہے بھئی! قربانی ایسی بے مصرف چیز پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیں گے مگر کسی غریب کی بیٹی کو جہیز جیسی واجب اور کارِ ثواب چیز دلانے میں مدد نہیں کریں گے۔

بیسواں رنگ:
 ارے ادیب صاحب! کیا شاندار بکرا لائے ہیں بھائی اس سال!  خدا قربانی قبول کرے۔
شکریہ بھائی!
پہلے دن قربانی کریں گے یا دوسرے دن؟
جی قربانی تو پہلے ہی ہوگئی!
کیا مطلب؟
ضمیر قربان کیا تھا تب ہی تو بیٹے کی خواہشات کے مطابق بکرا آپایا ہے۔

اکیسواں رنگ:
ارے آنٹی! منہ کیوں لٹکائے بیٹھی ہے؟  چل اب سو جا! کوئی گاہک نہیں آنے والا۔ کل صبح بڑی عید ہے۔
حسینہ! کل گوشت کھانے والوں کا دن ہے۔ طوائف کی عید تب ہوتی ہے جب گوشت بھنبھوڑنے والوں کا دن ہو۔
آنٹی !کتنی بار کہا ہے کہ سستا نشہ نہ کیا کر، ایویں فلسفی ہوجاتی ہے۔ دل چھوٹا نہ کر! اس ملک میں گوشت کھانے کے تین اور بھنبھوڑنے کے تین سو ساٹھ دن ہوتے ہیں!

بائیسواں رنگ:
بیٹا! سال میں ایک مرتبہ، پانچ دن کیلئے ہی سہی! اگر میں بیل بن جاؤں تو کیا تم میرے لیئے بھی اتنا وقت اور توجہ نکال لو گے؟

تئیسواں رنگ:
بابا! میٹھی عید پر تو ہم نماز سے واپسی میں پہلے قبرستان جاتے ہیں مگر یہ بڑی عید پر آپ نماز پڑھ کر سیدھے گھر کیوں آجاتے ہیں؟
بیٹا میٹھی عید پر ہم نماز شیر خرمہ کھا کر جاتے ہیں جبکہ عید الاضحٰی پر افطار قربانی کے گوشت سے ہوتا ہے۔ محبت زندوں کی ہو یا مردوں کی، بھرے پیٹ میں ہی اچھی لگتی ہے۔

چوبیسواں رنگ:
کیا لکھ رہے ہو؟
عیدین پر سیکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے ہماری عدم توجہی پر ایک کہانی لکھ رہا ہوں۔
میٹھی عید پر بھی تو لکھی تھی نا؟
سوری! بھول گیا تھا!

پچیسواں رنگ:
صاحب! گوشت ملے گا؟
کیوں نہیں ملے گا؟ جتنا چاہیئے اتنا ملے گا! مگر مجھے بدلے میں کیا ملے گا؟

جمعرات، 24 ستمبر، 2015

آخری خط


،پیاری

سوچا تھا کہ پیاری کے آگے بھی لکھوں مگر پھر سوچتا ہوں کہ نام میں  کیا رکھا ہے؟ القاب  کیا معنی رکھتے ہیں؟ میں تمہیں اچھے یا برے کیسے بھی نام سے پکاروں تم، تم ہی ہو اور تم جانتی ہو کہ یہ خط تمہارے ہی نام ہے۔ (اور کون ہے بھی اس قابل کہ جس کے نام رخصت کا نوحہ لکھا جائے؟ ) سو نام کے جھمیلے سے باہر آئو اور یہ خط پڑھو کہ یہ ایک ہارے  ہوئے ادیب کی الوداعی سانسیں ہیں۔ کون جانے کہ اس کے بعد یہ لکھنے اور پڑھنے کی عیاشی نصیب ہو کہ نہ ہو؟

 میں نے پہلی مرتبہ جب تمہیں دیکھا تو میں بےساختہ تمہیں دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔ تب تمہاری معصوم آنکھوں میں سوائے خوف کے کچھ بھی نہ تھا۔ (ہائے وہ آنکھیں، کوئی شاعر انہیں دیکھ لیتا تو فی البدیہہ کئی غزلیں لکھ ڈالتا)۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ ممتا محض عورت تک محدود نہیں۔( اور اگر ممتا محض عورت تک محدود ہے تو پھر ہمیں یہ بات ماننی پڑے گی کی ہم سب میں ایک عورت چھپی ہوئی ہے۔) میرا دل کیا کہ میں آگے بڑھ کر تمہیں اس طرح چھپا لوں جس طرح ایک مرغی خطرہ بھانپ کر چوزوں کو اپنے پروں میں سمیٹ لیتی ہے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ ممتا آگے چل کر اس طوفان کو جنم دے گی جس کی زد میں آکر میرا اپنا وجود، میری ذات، سب کچھ خاکستر ہوجائے گا۔  مگر مجھے معلوم ہوتا بھی تو شاید میں اس دن خود کو روک نہیں پاتا۔  شاید مجھے اس دن تم سے پہلی بار محبت ہوئی تھی، اور آنے والے برسوں میں روز، ہر روز میں تم سے محبت کرتا رہا ہوں۔

یا شاید یہ محبت نہیں تھی کہ محبت میں کہیں نہ کہیں ہوس شامل ہوتی ہے اور میرا تو تم سے عقیدت کا رشتہ تھا۔ عقیدت میں ہوس کیونکر ہوسکتی تھی؟    اور اگر یہ ہوس ہوتی تو کئی بار دیکھنے کے باوجود مجھے تمہارا سراپا آج غور کرنے پر بھی کیوں یاد نہیں؟ مگر پیاری! یہ سب تو غیر ضروری باتیں ہیں۔  فراق کے ان خوبصورت اور یادگار لمحات میں غیر ضروری باتوں کا کیا مطلب؟  ضروری اور یاد رکھنے کی بات محض اتنی ہے کہ میں تم سے محبت کرتا تھا۔ پوجنے کی حد تک۔( مگر اب تو یہ بھی ایک غیر ضروری بات ہے۔)

پیاری! مجھے معاف کردینا کہ میں زندگی میں پہلی بار کسی کو الوداعی خط لکھ رہا ہوں سو نہیں جانتا کہ کیا لکھوں؟  ہاں یہ ضرور جانتا ہوں کہ شاید تم سے کلام کرنے کا موقع پھر نہ مل سکے، سو میں چاہوں گا کہ اس آخری کلام کی وساطت سے ایک بار تمہارا شکریہ ادا کر سکوں! جانتا ہوں کہ محض ایک خط تمہارے شکریئے کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر کیا کروں کہ ایک لاچار ادیب ہونے کے ناطے میرے پاس تمہیں دینے کیلئے سوائے الفاظ اور دعائوں کے کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ دونوں (میرا سب کچھ) آج تمہارے نام ہیں۔

میری پیاری! میں نے چاہا کہ تمہیں زندگی  میں جہنم میں اترنے سے روکوں ۔ تمہارے لیئے سایہ بنوں۔ تمہارے اوپر آنے والی ہر تکلیف میں خود پر لے لوں۔  مگر خدا جانے میں کیوں بھول بیٹھا تھا کہ خدا نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اگر میں تمہاری زندگی میں کچھ نہیں ہونے دیتا تو تمہاری زندگی میں کچھ ہوتا ہی نہیں! یہ خیال ہم دونوں کے درمیان اس خلیج کی تمہید بن گیا جو شاید اب ہم دونوں مل کر بھی نہ پاٹ سکیں۔ سو آج سے تم آزاد ہو کہ جس طرح چاہو جیئو! ہاں مگر تمہارا شکریہ کہ تم نےمجهے سکهایا، خدا کو اپنی پسندیدہ مخلوق کا جہنم/عذاب کی طرف بهاگتے ہوئے دیکهنا کتنا برا لگتا ہوگا۔  تمہارا شکریہ کہ تم نے مجهے سکھایا کہ ہم میں سے ہر شخص خدائی خواہشات تو رکھتا ہے مگر یہ بات بھول بیٹھتا ہے کہ خدائی خواہشات خدائی ظرف کی متقاضی ہوتی ہیں۔ تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھے دکهایا  انسان کتنی تیزی سے دل میں، اور پهر کیسے اتنی ہی تیزی سے، دل سے، اترتا ہے. تمہارا شکریہ کہ تمہارے طفیل میں یہ جان پایا کہ ، دل کا خدا میں نہیں کوئی اور ہے جو ہمارے دلوں کو پھیرنے میں ماہر ہے۔

میری پیاری! میں جانتا ہوں کہ تمہیں اس فراق کا چنداں فرق نہیں پڑے گا مگر زندگی کے کسی موڑ پر اگر پچھتاوہ تمہارا رستہ روکے تو یہ یاد کر لینا کہ ہر خلا ایک دن پر ہو ہی جانا ہے. مجھے تمہاری ذات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ یہ فراق اور وصال مسلسل جراحت کا ایک عمل ہے جس میں نشتر مالکِ کائنات کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے تم سے کوئی تکلیف نہیں، ہاں  البتہ جراحی کے عمل کی اذیت ضرور ہے، اور شدید ہے. مگر تمہارا شکریہ کہ یہ تکلیف مجهےاپنے انسان اور عاجز ہونےکا احساس دے رہی ہے! میری پیاری! میں سیکھ گیا ہوں کہ ہر تکلیف ایک نئی راحت کا آغاز ہے.

سو تمہارا شکریہ. صد ہزار شکریہ

والسلام

مخلص

بدھ، 23 ستمبر، 2015

محبت کی سچی نظم

ہاتھ میں زہر کا پیالہ تھا
آخری بار مل رہے تھے ہم
دل فگاراں تھے، خوں بداماں تھے
کتنے رنجور ہوگئے تھے ہم

ساتھ جو جی کبھی نہیں سکتے
ساتھ میں مر تو وہ بھی سکتے ہیں
کیا حسیں شام ، کیا حسیں جملے
ہم انہیں بھول کیسے سکتے ہیں

=============================

میں نے اور تم نے جو پیا تھا وہ
زہر امرت سے بڑھ کے حاذق تھا
کون جیتا ہے زہر پی کر بھی
کون ہم تم سا ایسا  عاشق تھا

ساتھ جینے کی ساتھ مرنے  کی
بات ایک  یاد  ہوگئی ہوگی
مجھ کو  بھی  کام تھے ضروری کچھ
تم بھی  مجبور ہوگئی ہوگی

منگل، 15 ستمبر، 2015

ادیب - 2

ڈیئر مشہور و معروف ادیب،

بھائی یار یہ کیا چیز بھجوائی ہے آپ نے ؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ جیسا اتنا مشہور ادیب کیسے ایسی کہانیاں لکھ سکتا ہے جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہ ہو؟ بھلا بتاؤ کون سی دنیا میں عورت مرد پر ہاتھ اٹھاتی ہے اور وہ خاموشی سے برداشت کرتا ہے کیونکہ اس کی تربیت وغیرہ ایسی نہیں ہوتی کہ وہ جواب میں عورت پر ہاتھ اٹھا سکے؟ کمال کرتے ہیں یار آپ بھی! اور آپ نے یہ کہاں سنا ہے کہ عورت کسی مرد کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھی کسی دوسرے مرد کے ساتھ تعلق رکھ سکتی ہے؟ حضرت یہ پاکستانی معاشرہ ہے اور آپ پاکستانی ٹیلیویژن کیلئے لکھ رہے ہیں! تصور تو کریں اگر یہ چیزیں میڈیا پر دکھائی جانے لگیں تو معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اور اگر دکھانا ہی ہے تو حقیقت دکھائیے کہ کس طرح لڑکی کا آشنا اس معصوم کو بہلا پھسلا کر اپنے شوہر کو قتل کرنے پر آمادہ کرتا ہے کیونکہ بات پھر وہی ہے کہ پاکستانی عورت نکاح کے بندھن سے آزاد ہوئے بغیر کسی اور مرد کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نعوذباللہ سوچ بھی نہیں سکتی۔

میں شاید جذباتی ہورہا ہوں مگر بھائی آپ ماشاءاللہ ایک نامور ادیب ہو۔  آپ کو یوں برباد ہوتے دیکھ کر دکھ ہورہا ہے۔ کیوں اپنے نام پر بٹہ لگانے پر تلے ہوئے ہو؟ سیدھی سیدھی کہانیاں لکھا کرو جیسے سب لکھتے ہیں۔ میں آپکی سہولت کیلئے چند بنیادی چیزیں دوبارہ یاد کرا دیتا ہوں۔ کہانی کا مرکزی کردار ہمیشہ عورت ہونی چاہئے۔ یہ بات بتانے کی ضرورت تو نہیں مگر احتیاطا بتا رہا ہوں کہ عورت مظلوم ہوتی ہے سو ڈرامے میں بھی اس پر جتنے مظالم ہوں گے کہانی حقیقت سے اتنی ہی قریب معلوم ہوگی۔ بحیثیت ایک ادیب آپ پر یہ ذمہ داری ہے کہ آپ ڈرامہ دیکھنے والی خواتین کو یہ احساس دلائیں کہ صرف وہی نہیں ہیں جن کی زندگیاں شادی کے بعد برباد ہوگئی ہیں۔ انسانی نفسیات ہے کہ اپنے سے زیادہ مظلوم کو دیکھ کر ہمیں فطری طور پر صبر آجاتا ہے۔ بحیثیت ڈرامہ نگار یہ قوم کی عورتوں کا آپ پر قرض ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیئے اور کہانی دوبارہ لکھیئے۔

خط کے اختتام پر میں آپ کی توجہ ایک اہم  مسئلے کی طرف بھی دلانا چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان پڑوسی ملک کی فلموں کی وجہ سے دین سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے کہنے پر آپ نے اس چیز کا سدباب کرنے کی کوشش کی تھی مگر آپ کا یہ نامعقول تصور کہ ایک سائنسدان مسلمان بھی ہوسکتا ہے  ایک عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ کہانی کے کردار کو تھوڑا تبدیل کریں اور مسلمان کو سائنسدان دکھائیں تاکہ لوگوں میں اسلام کا بہتر تصور پیدا ہو۔ مجھے امید ہے کہ آپ دونوں کے مابین فرق سمجھ گئے ہوں گے۔

امید ہے کہ آپ اصلاح کے بعد کہانی جلد ہی دوبارہ بھجوادیں گے تاکہ کاسٹنگ مکمل کرکے ہم شوٹ اسٹارٹ کرسکیں۔

والسلام
مشہور پروڈیوسر


ابے او ابنِ ابو جہل

خدا کی لعنت ہو اس منحوس گھڑی پر جس شب تیرے والدین نے فیصلہ کیا تھا کہ آج ہم تھوڑی دیر بعد سوئیں گے۔ کاش وہ اس دن واقعی سوجاتے اور دنیا میں ایک اور کم  فہم، کم ظرف، بسیار سخن، ناہنجار نہ پیدا ہوا ہوتا۔ تو جانتا بھی ہے کہ تو حقیقی دنیا کے نام پر کس تخیلاتی جہنم میں جی رہا ہے؟ تیری ماں تجھ پر روئے تو نے معاشرے کے مسائل کا نہ خود ادراک کیا نہ کسی اور کو ہونے دیا۔ مجھ اور مجھ ایسے کسی بھی کہانی نویس نے جب جب معاشرے کے بھیانک چہرے سے نقاب اتارنی چاہی، تیرا خود ساختہ شوقِ عظمت اس کے آڑے آگیا۔ ارے میرے نہ لکھنے سے کیا معاشرے کی یہ بھیانک سچائیاں چھپ جائیں گی؟ میں مانتا ہوں کہ میں اس نیم عریاں معاشرے کے بدن پر لٹکتے چیتھڑے بھی نوچ دینا چاہتا ہوں مگر تو خود بتا کہ اس نیم برہنگی میں بھی کون سا ستر باقی ہے؟ تیرا حال اس کوٹھے کی عورت کا سا ہے جو مجبوری نہیں بلکہ شوق میں دھندا کرتی ہے۔ جسم پر لباس کے نام پر ایک چیتھڑا نہیں ہوتا مگر سر پر دوپٹہ اس سلیقے سے جماتی ہے کہ حرام ہے ایک بال بھی دکھ جائے۔ جب کوئی گاہک تیری برہنگی پر تجھے ٹوکتا ہے تو تو الٹا اس گاہک کو لتاڑتی ہے کہ جسے سر کا دوپٹہ تو نہ دکھا البتہ جسم کی برہنگی دکھ گئی۔ لعنت ہے تجھ پر اور تیری سوچ پر۔ تجھے لگتا ہے کہ تیرے دیئے گئے چند روپوں کہ جن سے میرے گھر کا چولہا جلتا ہے، کی وجہ سے میں سچ لکھنا چھوڑ دوں گا تو یہ تیری خام خیالی ہے۔ تیرا روپیہ تجھے مبارک مگر میں تیری وجہ سے اپنے قلم کی حرمت کو قربان نہیں کرسکتا۔ میں چند روپیوں کی وجہ سے سچ لکھنا نہیں چھوڑ سکتا۔ کہانی کسی اور سے لکھوا لے مگر مجھ سے سچ لکھنے کا حق نہ چھین۔

والسلام
چوتیا۔


محترم جناب مشہور پروڈیوسر

آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ فدوی اپنی نادانی پر شرمندہ ہے۔ ترمیم شدہ مسودہ انشاءاللہ پرسوں کی ڈاک سے آپ کو موصول ہوجائے گا۔ امید ہے حسب سابق اس مرتبہ کہانی کا معاوضہ ارسال کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے کہ خاکسار کا ہاتھ تھوڑا تنگ ہے اور بھوک کے عالم میں شاعری تو کی جاسکتی ہے مگر کہانی نہیں لکھی جاسکتی۔

مخلص


مشہور و معروف ادیب

جمعہ، 11 ستمبر، 2015

سیلفی

میں ایک ادیب ہوں. چونکہ ادیب حساس ہوتے ہیں لہذا میں اپنی حساسیت میں معاشرے کے تمام پیپ زدہ چھالے اٹها کر گهر لے آتا ہوں. کچھ قرطاس پر انڈیلتا ہوں اور باقی روح پر سجا لیتا ہوں. یہی روح کے چهالے بڑھ کر کوڑھ بن جاتے ہیں. میری زبان پر بهی آجاتے ہیں. پهر جب میں بولتا ہوں تو الفاظ کی جگہ منہ سے پیپ نکلتی ہے. لوگ خوفزدہ ہوکر دور بهاگ جاتے ہیں.

ہر مریض کی طرح میں بهی توجہ کا طالب ہوتا ہوں. ہمدردی کا خواہاں ہوتا ہوں. مگر مجهے بتایا جاتا ہے کہ میں تو مرد ہوں. اور مرد چونکہ بہت عام دستیاب ہیں لہٰذا کسی مرد/عورت کو میرے کوڑھ زدہ جسم کی محبت مجھ سے بات کرنے کی اشتہا نہیں دیتی.

ان سب مصائب میں گهرا ادیب بالآخر مکمل تنہا رہ جاتا ہے اور اس تنہائی کی مفلسی میں پهر ایک وقت ایسا بهی آتا ہے کہ دنیا کو اپنے وجود کے ہونے کا احساس دلانے کیلئے اگر تصویر بهی کهینچنی پڑے تو کوئی تصویر ساز میسر نہیں ہوتا.

اپنا دل بہلانے کیلئے ہم سخن طرازوں نے ان مفلسی کی تصاویر کو سیلفی کا خوبصورت نام دے رکها ہے.

منٹو

کیا نکموں کی طرح ہر وقت گھر پر پڑے ان کتابوں میں سر کھپاتے رہتے ہو؟ احساس نام کی کوئی چیز تمہارے اندر موجود ہے بھی یا نہیں؟ تمہاری فلسفیانہ لفاظیوں سے ذہنی عیاشی تو ممکن ہے مگر بنیادی انسان ضروریات ان لفاظیوں سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ کب سمجھو گے تم؟  اپنے تئیں اتنے حساس بنے پھرتے ہو کہ پوری دنیا کا درد صاحب کے جگر میں سمویا ہوا ہے مگر زرا احساس نہیں  ہے کہ تمہارے اس طرح گھربیٹھے کہانیاں لکھنے سے گھر میں آٹے دل کے واندے ہوئے رہتے ہیں؟ شرم کر لو کچھ سعادت حسن! شرم کرلو!

میں آنکھیں بند کرکے اپنی کم عقل بیوی کی باتیں سن رہا تھا اور اس کے تھک کر خاموش ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ تھک کر چلی جائے تو میں دوبارہ اپنی کہانی کی طرف متوجہ ہو سکوں۔ میرا نام سعادت حسن ہے مگر میں منٹو نہیں ہوں۔  کچھ مماثلتیں البتہ مجھ میں اور منٹو میں ضرور موجود ہیں مگر وہ اتنی زیادہ نہیں کہ میں خود کو منٹو سمجھ بیٹھوں۔ ٹھیک ہے کہ میں بھی منٹو کی طرح تمباکو کا رسیا ہوں۔ اور ٹھیک ہے کہ منٹو کی طرح میری جیب میں بھی نوٹوں کی جگہ کہانیوں کا بسیرا ہوا کرتا ہے۔ اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ میری بیوی کا بھی بس چلے تو مجھے پاگل خانے بھجوادے۔ مگر میں منٹو کی طرح بادہ نوش نہیں ہوں۔ میں منٹو کی طرح پیشیاں نہیں بھگتتا کیوں کہ میں منٹو کی طرح  پاگل نہیں ہوں کی معاشرے کو ننگا کرتی تحاریر لوگوں کے سامنے لاؤں۔ منٹو کی بیٹی کو ٹائیفائیڈ ہوا تھا اور منٹو نے اس کی دوا کے پیسے دارو میں اڑا دیئے تھے جبکہ اگر میری بیٹی کو بخار ہوجائے تو میرے پاس اتنے پیسے ہوتے ہی نہیں کہ دارو یا سگریٹ میں اڑائے جا سکیں۔ ان اور ان جیسی دیگر بہت سی باتوں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں منٹو نہیں ہوں اور نہ منٹو بن سکتا ہوں۔

پچھلے ایک ماہ سے البتہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے۔ منٹو پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔ ہر طرف اس فلم اور منٹو کی سچی کہانیوں کے چرچے ہیں۔ میں نے بھی لوگوں کو فخر سے بتانا شروع کردیا ہے کہ امرتسر کا کشمیری منٹو نہ سہی، امروہے کا سید، سعادت حسن میں بھی ہوں اور میں بھی کہانیاں لکھتا ہوں۔ منٹو کی فلم کے بعد سے میں نے اپنی تمام غیر مطبوعہ اور سابقہ ناقابل اشاعت سچی کہانیوں کا ایک مجموعہ ترتیب دینا شروع کردیا ہے۔ آج اس ہی سلسلے میں ایک آخری کہانی کی نوک پلک سنوار رہا تھا کہ بیگم صاحبہ کے لیکچر کا وقت ہوگیا اور مجھے کام روک کر ان کی صلواتیں سننی پڑیں۔ دل تو کیا اس کی ہذیان بیچ میں ہی روک کر اسے بتا دوں کہ ہمارے برے دن اب ختم ہوگئے ہیں اور معاشرے نے جس طرح منٹو کو سراہنا شروع کردیا ہے، بہت جلد اب اس کا شوہر بھی ایک مالدار و عزت دار آدمی ہوگا۔ پھر یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ایک دفعہ کتاب کی پیشگی مل جائے تو پیسے سیدھے لاکر منہ پر ماروں گا اور تب بتاؤں گا کہ وہ اپنے وقت کے کتنے بڑے ادیب کی بیوی ہے۔  یہی سوچ کر اس کی باتیں سن اور برداشت کرتا رہا۔

بیگم کے چلے جانے کے بعد میں نے جلدی جلدی کہانی مکمل کی اور ایک معروف پبلشر کے پاس پہنچ گیا۔ پبلشر میرا کام پہلے بھی دیکھ چکا تھا اس لیئے تپاک سے ملے مگر جب میں نے انہیں منٹو ایسی سچی کہانیوں کے بارے میں بتایا تو ان کے تیور یکلخت تبدیل ہوگئے۔ انتہائی رکھائی سے بولے، مسودہ چھوڑ جائیں میں دیکھ لوں گا۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ یہ مخصوص جملہ وہ تب بولا کرتے تھے کہ جب وہ کسی نو آمیز مصنف کو ٹالنا چاہتے تھے۔ میرے یاد دلانے پر وہ صاحب مسکرائے  اور بولے کہ جب سب جانتے ہیں تو یہ بچکانہ حرکات کیوں کرتے ہیں؟ کون چھاپے گا منٹو ایسی کہانیاں؟ میں نے انہیں یاد دلایا کہ کس طرح منٹو پر بننے والی فلم اس وقت کھڑکی توڑ بزنس کر رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ عامۃ الناس میں ایسی کہانیوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ انہوں نے میری طرف مسکرا کردیکھا اور ایک سادہ کاغذ میری سمت بڑھاتے ہوئے بولے، لڑکی کی بے وفائی، لڑکے کا دین کی طرف رجحان، لڑکی کا بعد میں پچھتانا، لڑکے کا دنیاوی اعتبار سے بھی سپر ہیرو ثابت ہونا، لڑکی کا مزید پچھتانا، لڑکے کا مزید اچھی زندگی گزارنا۔ شروع سے آخر تک پورا پلاٹ میں نے بتا دیا ہے۔ آج کل ایسی کہانیوں کی مانگ ہے۔ لکھ سکتے ہو تو ابھی کہانی کا اجمالی خاکہ (ون لائنر) لکھ کر کیشیئر سے پیشگی بیس ہزار روپے لے جاؤ ورنہ  اگر منٹو کا اتنا ہی بھوت سوار ہے تو یاد رکھو، فلم منٹو کے مرنے کے پچاس سال بعد بنی ہے۔ تمہارے تو ابھی مرنے میں بھی پانچ دس باقی لگتے ہیں۔ اگر انتظار کرسکتے ہو تو مسودہ چھوڑ جاؤ اور نیچے یاد سے لکھ دینا کہ پچاس سال بعد جب تمہارے اوپر فلم بنے تو اس کے پریمئر کیلئے گھر میں سے کس کس فرد کو دعوت نامہ بھجوایا جائے۔


میں نے میز پر سے سادہ کاغذ اور قلم اٹھایا اور برابر والے کمرے میں جا کر کہانی لکھنے لگا۔ کہانی کے ہیرو کا نام منٹو تھا مگر یہ والا منٹو نہ شراب پیتا تھا اور نہ ہی خون تھوکتا تھا۔

جمعہ، 4 ستمبر، 2015

بابا مجھ کو سونے دو نا؟

کتنے دن کے بعد تو بابا
ایسا کوئی شور نہیں ہے

اٹھو بھاگودوڑو دیکھو
بچ کے!
بیٹا جلدی جلدی
دیکھو! بچ کے! دوڑو بیٹا

طیاروں کا شور نہ کوئی
بم نہ آگ کے شعلے بابا

پیارے بابا
تھک سا گیا ہوں

اتنے دن کے بعد تو بابا
میرے پیارے اچھے بابا
بابا مجھ کو سونے دو نا؟

بدھ، 2 ستمبر، 2015

فاطمہ

امی میں اسکول جا رہی ہوں ۔ دروازہ بند کرلیجئے گا۔ پراٹھے کے رول کو تقریبا نگلتے ہوئے فاطمہ نے دروازے سے ہانک لگائی اور تیز قدموں کے ساتھ اسکول کیلئے روانہ ہوگئی۔
وہ ایک بائیس سالہ لڑکی تھی جو گھر کے قریب ہی واقع ایک نجی اسکول میں پڑھاتی تھی۔ پچھلے سال ہی والد کا انتقال ہوگیا تھا اور گھر کے اخراجات اور رشتے داروں کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر فاطمہ نے نوکری کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ وہ اپنی بیوہ ماں اور تین چھوٹے بہن بھائیوں کی کفیل بن گئی تھی۔ ایک بھائی انیس سال کا تھا اور دوسرا ابھی چودہ کا۔ دونوں پڑھائی کر رہے تھے کیونکہ اس وقت پڑھائی چھوڑنے کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ پھر ساری عمر چھوٹی موٹی نوکریاں ہی کرتے رہتے۔ فاطمہ اس بات کو سمجھ سکتی تھی اس لیئے اس نے بھائی کے بہت اصرار کرنے کے باوجود اسے نوکری کی اجازت نہیں دی تھی۔ بہت منت سماجت کے بعد اس نے اب صبح گھروں میں اخبار ڈالنے کا کام شروع کردیا تھا کہ کم از کم اپنی پڑھائی کا خرچ خود اٹھا سکے۔ سب سے چھوٹٰی  بہن ابھی بہت چھوٹی تھی اور پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ گو اسکول سے تنخواہ کم ملتی تھی مگر خدا نے اسے اور گھر والوں کو قناعت ایسی عظیم نعمت سے نوازا تھا سو کھینچ تان کر بہر حال گزارا ہو ہی جاتا تھا۔ فاطمہ اپنی اس چھوٹی سی کائنات میں بہت خوش تو نہیں البتہ مطمئن ضرور تھی۔
اسکول میں اساتذہ کو بچوں سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا تاکہ وہ اسمبلی کی تیاری کرسکیں اور آج وہ گھر سے نکلنے میں لیٹ ہوگئی تھی۔ تیز قدموں کے ساتھ ہانپتی ہوئی وہ اسکول پہنچی تو دروازے پر ہی  اسے اپنے اسکول کی ساتھی  اسریٰ مل گئی جو اس ہی کی راہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے اسریٰ کو سلام کرکے اندر اسکول میں جھانکا تو اسکول ابھی خالی تھا اور بچے آنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ اس نے سکھ کا سانس لیا  اوراسریٰ کی طرف متوجہ ہوگئی جو اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے باہر کی طرف لے جا رہی تھی۔  اسے اپنی طرف متوجہ پاکر اسریٰ بولی، سنو! وہ جو میں نے تمہیں دوسرے اسکول میں ڈبل تنخواہ پر نوکری کا بتایا تھا وہاں سے انٹرویو کی کال آگئی ہے۔ پک اینڈ ڈراپ بھی دے رہے ہیں وہ لوگ۔  باہر گاڑی کھڑی ہوئی ہے چلو انٹرویو دیکر آتے ہیں۔ فاطمہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ تنخواہ ڈبل ہوجانے سے گھر کے کتنے ہی مسائل حل ہوسکتے تھے۔ اسے اسکول کی باقی استانیوں پر  شدید غصہ آیا جو اسے ہر وقت اسریٰ کے بارے میں بھڑکاتی رہتی تھیں کہ وہ صحیح لڑکی نہیں ہے۔  وہ اس کے ساتھ باہر جانے لگی مگر پھر خیال آگیا کہ اگر نوکری نہ ہوئی تو ؟ اسے اس اسکول سے بات خراب کرکے نہیں جانا چاہیئے۔ اس نے اسریٰ سے باتھ روم  کا بہانہ کیا اور اندر پرنسپل کے کمرے میں جاکر ان سے دس منٹ کیلئے اسریٰ کے ساتھ جانے کی اجازت لیکر آگئی۔
اسکول کے باہر بچوں کو لانے لے جانے والی ایک سوزوکی کیری موجود تھی ۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکا موجود تھا اس لیئے اسریٰ نے اسے اپنے ساتھ پیچھے بٹھا لیا۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد کیا ہوا یہ اسے یاد نہیں مگر جب اسے  ہوش آیا تو اس نے خود کو کسی ہوٹل کے کمرے میں پایا۔ اس کے دونوں ہاتھ  پشت کی جانب بندھے ہوئے تھے اور منہ میں ایک کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا کہ اگر وہ چاہے بھی تو آواز بلند نہ کرسکے۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر کمرے میں موجود اسریٰ اور تین لڑکے جو خوش گپیوں میں مصروف تھے اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اسریٰ اس کے قریب آئی اور بڑے رسان سے اسے سمجھانے لگی کہ یہ لڑکے اس کے دوست ہیں اور فاطمہ کو گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ یہ لڑکے اس کا بے حد خیال رکھیں گے اور چند ضروری کاموں کے بعد اسے واپس گاڑی میں گھر چھوڑ  آئیں گے۔ محض آدھے گھنٹے کی محنت کے بدلے فاطمہ کو آج پچاس ہزار روپے ملیں گے اور آج کے بعد ہر مرتبہ اس کمرے میں آنے کے اس کو پانچ ہزار روپے دیئے جائیں گے۔
فاطمہ کو لگ رہا تھا کہ کوئی سیسہ پگھلا کر اس کے کانوں میں انڈیل رہا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسریٰ ایک عورت ہوتے ہوئے اس کے ساتھ یہ سب کیسے کرسکتی تھی؟ مگر یہ وقت  کوسنوں کا نہیں تدبیر کا تھا۔ فاطمہ بھولی ضرور تھی مگر بے وقوف نہیں تھی۔ اس نے محسوس کرلیا تھا کہ اگر اس نے اس ہی حالت میں مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو وہ چاروں لڑکے اسے بے بس کرکے بھی اپنا کام نکال لیں گے البتہ اگر وہ اپنے ہاتھ پاؤں کھلوانے میں کامیاب ہوجاتی تو شاید بچنے کی کوئی سبیل نکل جاتی۔ فاطمہ نے  فوری طور پر ایک فیصلہ کیا اور اپنے چہرے کے تاثرات کو خوف سے خوشی میں بدلنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسریٰ جو اسے بغور دیکھ رہی تھی، خوش ہوکر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئی کہ دیکھا میں نہ کہتی تھی کہ بیچاری بچی واقعی بہت ضرورت مند ہے۔ چلو ہاتھ پاؤں کھول دو اس کے اور جلدی جلدی کام نمٹا لو۔ چھٹی کا ٹائم ہونے والا ہے میں نے واپس گھر پہنچنا ہے۔ محلے والے ایویں باتیں بناتے ہیں اگر دیر سے جاؤں تو۔
لڑکوں میں سے دو نے اپنی پتلونوں میں اڑسی ہوئی بندوقیں نکال لیں اور فاطمہ کو نشانے پر رکھتے ہوئے تیسرے کو اس کے ہاتھ پاؤں کھولنے کا اشارہ کردیا۔ ہاتھ پاؤں اور منہ کے آزاد ہوتے ہیں فاطمہ نے اپنے پھیپھڑوں کے پورے زور سے چلانا شروع کردیا ۔ وہ پاگلوں کی طرح چلا  رہی تھی کہ شاید کسی تک اس کی آواز پہنچ جائے اور کوئی اس کی مدد کو آسکے مگر  شاید ہوٹل والے نے یہ کمرہ ایسے ہی کاموں کیلئے مخصوص کیا ہوا تھا کیونکہ فاطمہ کی صدائیں ہزار کوشش سے بھی کمرے سے باہر نہیں نکل پائیں۔ فاطمہ نے جب دیکھا کہ اس کے چلانے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے اور لڑکے جس ڈھٹائی سے ہنس رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ کمرا ساؤنڈ پروف ہے تو اس نے ایک خطرناک فیصلہ کرلیا۔ اس نے بندو ق بردار لڑکوں میں سے ایک پر چھلانگ لگا دی۔ وہ اس افتاد کیلئے شاید تیار نہیں تھا اور فاطمہ کے حملے کی جھونک میں آکر الٹ پڑا ۔ بندوق اس کے ہاتھ سے نکل کر گرپڑی تھی۔ فاطمہ تیزی سے بندوق کی سمت لپکی مگر جتنی دیر میں وہ بندوق اٹھاتی، دوسرا لڑکا سنبھل کر اس پر فائر کھول چکا تھا۔ چار گولیاں فاطمہ کے نازک جسم کیلئے  بہت تھیں۔ تھوڑی دیر اس کا جسم تڑپا اور پھر ہمیشہ کیلئے ساکت ہوگیا۔
اسریٰ نے اپنے ساتھیوں کو غلیظ گالیوں سے نوازنا شروع کردیا جنہوں نے ہاتھ آئی چڑیا کو اس طرح مسل دیا تھا۔ اسریٰ نے اس لڑکی سے لاکھوں روپے کمانے کے منصوبے بنا رکھے تھے۔ وہ اسکول میں نوکری کر ہی اس لیئے رہی تھی کہ مجبوری میں گھر سے نکلنے والی لڑکیوں کو پھسلا کر اس دھندے میں لایا جاسکے۔ ایک مرتبہ جو لڑکی اس گیسٹ ہاؤس میں پہنچ جاتی اسے پیسوں کا لالچ دیکر راضی کرلیا جاتا اور جو اس لالچ میں نہیں آتیں  ان غریبوں کی بیہوش کرکے ان کی نازیبا تصاویر بنا ئی جاتیں اور پھر انہیں بلیک میل کرکے ان سب کاموں کیلئے مجبور کیا جاتا تھا۔ فاطمہ پر ایک ماہ سے اس کی نظر تھی مگر اس کے ساتھیوں کی جلد بازی کی وجہ سے شکار اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔  غصہ تو اسے بہت تھا مگر فی الوقت اہم کام لاش کو ٹھکانے لگانا تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ فاطمہ کو اس کے ساتھ جاتے کسی نے نہیں دیکھا تھا لہٰذا کسی کا شک اس پر نہیں جائے گا۔
گاڑی میں فاطمہ کی لاش کو ڈال کر وہ لوگ اس گیسٹ ہائؤس سے نکلے اور ایک رہائشی علاقے میں نسبتا سنسان جگہ دیکھ کر لاش پھینک کر وہاں سے فرار ہوگئے۔  اسکول کی چھٹی کا وقت ہوچکا تھا لہٰذا  اسریٰ اپنے گھر پر ہی اتری اور باقی ساتھی بھی اپنے اپنے ٹھکانوں پر روانہ ہوگئے۔
گھر پہنچ کر وہ نہا دھو کر کمر سیدھی کرنے کیلئے لیٹ گئی۔ آج کے واقعے سے وہ شدید ذہنی کوفت کا شکار ہوچکی تھی اور اب تھوڑی دیر سونا چاہتی تھی۔ اس نے نیند کی آدھی گولی لی اور بستر میں ڈھ گئی۔ نجانے کتنی دیر سوئی ہوگی مگر جب آنکھ کھلی تو خود کو پانی میں شرابور پایا۔ سامنے ایک زنانہ پولیس آفیسر پانی کا جگ ہاتھ میں لیئے کھڑی تھی۔ نیم غنودگی کے عالم میں پولیس کو دیکھ کر اسریٰ بوکھلا گئی اور چلا اٹھی کہ میں نے اسے قتل نہیں کیا ۔ میں تو بس اسے وہاں تک لیکر گئی تھی۔ چند ہی لمحوں بعد وہ پولیس کی موبائل وین میں بیٹھی اپنے باقی ساتھیوں کے ٹھکانے کی طرف جارہی تھی۔
جب فاطمہ چھٹی کے بعد بھی گھر نہیں پہنچی تو اس کی ماں نے اسکول فون کیا جہاں سے انہیں پتہ چلا کہ فاطمہ اسریٰ کے ساتھ صبح سے دس منٹ کا کہہ کر نکلی ہوئی ہے اور اس کے بعد اسکول نہیں لوٹی ہے۔ فاطمہ کی ماں نے اسکول ہی سے اسریٰ کے گھر کا نمبر لیا اور وہاں فون کرنے پر پتہ چلا کہ اسریٰ تو حسبِ معمول آج بھی اسکول گئی تھی اور حسبِ معمول چھٹی کے وقت اسکول سے آکر تھکن کی وجہ سے سو رہی ہے۔ فاطمہ کی ماں نے اسریٰ کے گھر میں یہ نہیں بتایا کہ فاطمہ صبح سے اسکے ساتھ تھی بلکہ یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ دراصل فاطمہ چھٹی کے بعد اسریٰ کے ساتھ جانے کا کہہ کر گئی تھی تو میں نے سوچا پوچھ لوں۔  فون رکھتے ہوئے فاطمہ کی ماں کا دل ہول رہا تھا مگر وہ جان گئی تھیں کہ فاطمہ کے لوٹ کر نہ آنے میں کہیں نہ کہیں اسریٰ کا ہاتھ ضرور شامل ہے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو فون کیاجو پولیس میں سب انسپکٹر تھا اور پوری کہانی اسکے گوش گزار کردی۔ بھائی نے فورا زنانہ پولیس کو مطلع کیا اور اسریٰ کے گھر پر چھاپہ مار دیا۔ اسریٰ کی بدقسمتی کے وہ ٹرینکولائزر کے اثر میں تھی اس لیئے اس نے نیم مدہوشی میں اقرار جرم کرلیا اور پھر پولیس کا کام آسان ہوگیا۔
اس واقعے کو تین ماہ ہوچکے تھے۔ پورا گینگ پکڑا جاچکا تھا اور ان کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا۔ فاطمہ کے گھر والوں کو پوری امید تھی کہ انہیں انصاف ملے گا اور ان درندوں کو کم از کم پھانسی کی سزا سنائی جائے گی۔آج فاطمہ کا چھوٹا بھائی ہاشم اپنے  اخبار فروش انجمن کے ساتھیوں کے ساتھ ایک مظاہرہ کرنے کیلئے پریس کلب آیا ہوا تھا۔اس سانحے کے بعد سے اسکے ساتھی  اس کا بہت زیادہ خیال کرنے لگے تھے۔ وہ سب اس تکلیف کو سمجھ سکتے تھے جس سے ان کا ساتھی گزرا تھا۔ ادھر ہاشم بھی اس ایک دن سے ہی اپنے اندر ایک آگ محسوس کر رہا تھا اور اس کو کسی مثبت سمت میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا اور بولنا بھی خوب جانتا تھا۔سو پچھلے تین ماہ میں غیر محصوس طور پر وہ انیس سالہ نوجوان ان کا لیڈر بن چکا تھا۔
 وہ لوگ جب پریس کلب پہنچے تو ان سے پہلے بوژروا طبقے کے کچھ مرد اور خواتین بشمول لڑکے اور لڑکیاں ہاتھوں میں موم بتیاں اٹھائے احتجاج کرنے میں مصروف تھے۔ یہ اور اس کے ساتھی جگہ خالی ہونے کا انتظار کرنے لگے کہ جب جگہ خالی ہو تو یہ لوگ آگے آئیں اور پنے مطالبات پریس  کے سامنے رکھ سکیں۔ کھڑے کھڑے جب اکتاہٹ ہونے لگی تو ہاشم ٹہلتا ہوا دوسری طرف چلا گیا کہ وہاں سے ان افراد کے مطالبات کے بینر ہی پڑھ سکے۔اسے ہمیشہ سے لگتا تھا کہ  لیڈر کیلئے ضروری ہوتا ہے وہ وقت کے مشہور نعروں کی جانکاری رکھتا ہو تاکہ انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکے۔ وہ ٹہلتا ہوا جب مظاہرے کے سامنے پہنچا تو پہلا بینر پڑھتے ہی اس کی کھوپڑی گھوم گئی۔ مظاہرین پھانسی ایسی بے رحمانہ سزا کے خاتمے کیلئے  احتجاج کر رہے تھے۔ ہاشم نے وہیں سے کھڑے کھڑے اپنے ساتھیوں کو وہاں پہنچنے کا اشارہ کردیا۔ اسکے ساتھی جب وہاں پہنچے تو پہلے تو ہاشم کی آنکھوں میں اترے ہوئے خون کو دیکھ کر لرز گئے مگر جب سامنے ہونے والے احتجاجی بینرز پر نظر پڑی تو معاملہ ان کی سمجھ میں آگیا۔ ان میں سے ایک اخبار فروش  نے آگے بڑھے کر مظاہرین سے بینر چھین کر پھاڑنا شروع کردیئے۔ اس کا دیکھا دیکھی تمام اخبار فروشوں نے ہی مظاہرے پر ہلا بول دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں صرف پھٹے ہوئے بینرز کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ مظاہرین فرار ہوچکے تھے۔

رات کو ٹیلیویژن پر ٹاک شو میں گرماگرم بحث جاری تھی کہ معاشرہ اتنا متشدد کیسے ہوگیا ہے کہ ایک انتہائی غیر انسانی سزا کیخلاف ہونے والا مظاہرہ بھی اس سے برداشت نہیں ہوتا  نیز یہ پھانسی والی سزا پر دوبارہ پابندی کب لگائی جائے گی؟

منگل، 1 ستمبر، 2015

اے میرے پیارے قصہ گو

اے میرے پیارے قصہ گو!
چھیٹری ہے کہانی آج ، تو سن
تیرے ان آدھے قصوں سے
میری دنیا ویران ہوئی!

تو نے بولا،
"دونوں پھر ساتھ رہے ایسے
خوش باش بہت،
خورسند بہت"
 
یہ کیوں نہ کہا
"شہزادے تھے، رہ سکتے تھے!
پر تیرے سپنوں کا موچی
تجھے عشق، محبت، نغموں سے
بہلائے گا پہلے سالوں میں
اور اسکے بعد سدا دونوں
بچوں کی بھوک کو لیکر کے
اک دوجے کا منہ نوچیں گے"

اے میرے پیارے قصہ گو
اے میرے جھوٹے قصہ گو
تیرے ان آدھے قصوں سے
میری دنیا برباد ہوئی۔

سید عاطف علی
یکم ستمبر 2015

بلاگ فالوورز

آمدورفت