اتوار، 27 نومبر، 2016

زبان دراز کی ڈائری - میرے رشکِ قمر


پیاری ڈائری،
لوگوں کو بھی کسی حال میں چین نہیں ہے۔ جہاں مشہور آدمی دکھا نہیں اور ان کے نفسیاتی عوارض ویسے ہی  امڈ آتے ہیں جیسے کسی بھی زندہ مادہ کو دیکھ کر برصغیر کے مردوں کے جذبات۔  زندگی میں پہلی مرتبہ جب ٹیلیویژن پر آئے تھے تو ہم نے کب سوچا تھا کہ ٹاک شو کی میزبانی،  ایک دن ایسی بلائے جان بن جائے گی کہ وہ ہمارے ابلے ہوئے انڈے کے منہ والے ایک سینئر کے بقول، الحذر الحذر!
بھئی قصہ کچھ یوں ہے کہ جب سے لوگوں کو پتہ چلا  تھا  کہ محلے کا چوکیدار تبدیل ہونے والا ہے تب سے سب ہمارے پیچھے پڑ گئے  تھے۔  اب انہیں کون سمجھائے کہ چوکیدار ایک نہایت متقی اور قناعت پسند آدمی ہوتا ہے ۔  اس کی ان ہی صفات کی بنا پر اور "محض انسانی ہمدردی کے جذبات کے تحت" ہم سب بہن بھائیوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ ہم لوگ حسب استطاعت اور حسب موقع اس کے جوتے چمکا دیا کریں گے۔ اور مرد تو وہی ہوتا ہے جو اپنی زبان کا پکا ہو۔  عورت پتہ نہیں کیا ہوتی ہے۔ شاید خود عورت کو بھی نہ پتہ  ہے اور نہ اسے فکر ہے سو اس غیر ضروری بات کو چھوڑکر واپس مدعے پر آتا ہوں کہ ایک بار تہیہ کرنے کے بعد ہم کبھی اپنی زبان سے نہیں پھرے۔ جب اور جہاں جتنا موقع ملا ہم نے ان جوتوں کو چمکایا۔ برش نہ ملا تو ہاتھ سے اور پالش میسر نہ ہوئی تو زبان سے ۔چوکیدار بدلتے گئے مگر ہم اپنی زبان سے نہ پھرے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ ہم نے چوکیدار کے حلیے میں پھرنے والے کسی عام آدمی کے جوتے بھی چمکا دیئے کہ کہیں آگے چل کر یہ چوکیدار نہ بن جائے اور تب ہماری عدم توجہی اور وعدہ ایفا نہ کرنے کا رنج رکھے۔ غرضیکہ ہم یہاں مومن کی ایک زبان والے قول کے پیچھے چلتے  رہے اور یہ مردود محلے دار ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ کمینگی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے!
پیاری ڈائری! یہ بات تو میں بتانا ہی بھول گیا کہ چونکہ چوکیدارعمر میں ہم سے بڑے ہوتے ہیں اور تہذیب دار گھرانوں میں بڑے باپ سمان ہوتے ہیں سو ہم بھی چوکیدار کو ابو مانتے آئے ہیں۔ بھلا بتاؤ کہ محلے کے خصیص لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہے؟ وہی ابلے ہوئے انڈے کے منہ والے سینئر ایک بار پھر یاد آگئے کہ یا للعجب! یہ بات تو ساری دنیا مانتی ہے کہ چیزوں میں جدت تراشنا ہمارا خاصہ ہے ۔  جہاں پوری دنیا منہ بولے بچے رکھتی ہے اور کسی کو اعتراض نہیں ہوتا وہاں ہم نے منہ بولے ابو رکھ لئے تو سب کو مرگی کے دورے پڑنے لگے؟ ایسے مواقع کے لئے ہی تو شاعر نے کہا تھا کہ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ تو خیر، اب یہ سارے محلے دار ہمارے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ چونکہ  آپ لوگ ٹیلیویژن پر آتے ہیں اور ساری دنیا کی خبریں رکھتے ہیں سو اب اپنے نئے آنے والے ابو کا نام بھی پیشگی بتائیں۔
اب اس سادے سے دکھنے والے معاملے میں  سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ اگر غلطی سے غلط نام بتا دیا تو نئے آنے والے چوکیدار نے پیشگی مخاصمت پال لینی تھی اور چوکیدار (جو کہ جیسا میں نے بارہا بیان کیا ہم بہن بھائیوں کے لئے باپ سمّان ہوتا ہے ) کی ناراضگی کا مطلب بتاتے ہوئے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔  اور صحیح نام پتہ ہوتا تو ہم ان احمق محلے داروں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے اس سے سلام علیک نہ بڑھا لیتے؟ اب یہ بات ان چھوٹے لوگوں کو کون سمجھائے؟ بہتر یہی تھا کہ جب کوئی اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش بھی کرتا تو میں بات کو گھما کر کہیں اور لے جاتا کہ باخبر ہونے کا بھرم بھی رہے اور خدانخواستہ انجانے میں کسی گستاخی سے بھی بچا جا سکے۔
اللہ اللہ کرکےیہ مشکل وقت کاٹا اور آج جب نئے چوکیدار کے نام کا اعلان ہونے والا تھا تب ہی محلے میں رہنے والا ایک منحوس شاعر آن ٹپکا کہ بھائی چوکیدار تو آنی جانی شے ہیں۔ آپ آج کے پروگرام میں اس مملکت اللہ داد کے گھٹن اور ہوس زدہ  معاشرے کے بارے میں بات کریں کہ جہاں اسلام کے نام پر آباد ایک شہر میں ایک باپ اپنی ہی سگی بیٹی کے ساتھ چار سال تک مسلسل زیادتی کرنے کا جرم ثابت ہونے پر کل عمر قید کا   سزاوار ٹھہرایا گیا ہے۔ جہاں کل ایک آٹھ سالہ معصوم کلی کو محض اس جرم میں مسل دیا  گیا کہ وہ اس دکان پر اکیلی سودا لینے پہنچ گئی جہاں ایک ہوس کار درندہ بھوکا بیٹھا تھا۔ چوکیدار کے موضوع پر آپ کے پروگرام کرنے سے پڑوسی کے چوکیدار سے ہمارے محلے کے چوکیدار کی لڑائی ختم نہیں ہوگی کہ اس لڑائی پر ٹیلیویژن دیکھنے والوں کا کوئی اختیار نہیں ہے مگر اس گھٹن اور ہوس زدہ معاشرے پر سوال اٹھانے سے شاید معاشرے میں ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوں جو اس گھٹن کے خاتمے کے بارے میں کچھ کر سکیں۔ اور کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم اپنے گھروں میں بہتری لا سکیں!
پیاری ڈائری! لوگوں کو بھی کسی حال میں چین نہیں ہے۔ جہاں مشہور آدمی دکھا نہیں اور ان کے نفسیاتی عوارض ویسے ہی  امڈ آتے ہیں جیسے کسی بھی زندہ مادہ کو دیکھ کر برصغیر کے مردوں کے جذبات۔  زندگی میں پہلی مرتبہ جب ٹیلیویژن پر آئے تھے تو ہم نے کب سوچا تھا کہ ٹاک شو کی میزبانی،  ایک دن ایسی بلائے جان بن جائے گی کہ وہ ہمارے ابلے ہوئے انڈے کے منہ والے ایک سینئر کے بقول، الحذر الحذر!
اس مردود شاعر کو لاتیں مار کر گھر سے نکالا اور پچھلے چار گھنٹے سے لاؤڈ سپیکر پر استاد نصرت فتح علی خان کی مشہور زمانہ قوالی، میرے رشکِ قمر لگا کر بیٹھا ہوا تھا تو اب جا کر مزاج بحال ہوا اور یہ ڈائری لکھنے بیٹھا۔ آج مجھے کامل یقین ہوگیا ہے کہ نصرت فتح علی خان ایک دو ر رس انسان تھے اور ان کا کل کلام ایک طرف مگر ان کی بخشش اس ہی میرے رشکِ قمر کی ادائیگی کے صدقے میں ہونی ہے۔ یاد رکھنا یہ بات سب سے پہلے میں نے تمہیں بتائی ہے۔
زبان دراز بوٹ چاٹوی

بدھ، 2 نومبر، 2016

23 اکتوبر

سر مجھے لگ رہا ہے کہ یہ جو بھی کچھ ہورہا ہے وہ محض اتفاقی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ضرور کوئی منصوبہ ساز زہن موجود ہے جو انتہائی صفائی اور مہارت سے یہ کام کر رہا ہے۔ مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ وہ کیوں یہ کام کر رہا ہے مگر یہ جو ایک دو واقعات میں نے آپ کو بیان کیے ہیں تو سر  ان کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ ۔۔۔۔ سر آپ میری بات مانیں نہ مانیں یہ یقینا کوئی سیریل کلر ہے جو اتنا شاطر ہے کہ پولیس کی نظروں میں آئے بغیر گزشتہ پانچ سالوں سے یہ کام کر رہا ہے! سر آپ بس مجھے اجازت دیں تو میں باقاعدہ کیس فائل کرکے تحقیقات شروع کردوں؟ میرا ماتحت آفیسر اس وقت میرے سامنے بیٹھا نہایت جذباتی انداز میں تیز تیز اور مسلسل بول رہا تھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کرایا اور پانی پینے کو کہا۔ وہ پانی پی کر فارغ ہوا تو میں نے اسے سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کی وجہ سے جذباتی ہورہا ہے اور  معاملہ ایک بڑے ہسپتال اور اس کی ساکھ کا ہے۔ غلط کیس فائل ہوا اور میڈیا کو کیس فائل ہونے کی خبر مل گئی تو ہسپتال والے اتنے طاقتور ہیں کہ ہم دونوں کو اٹھوا کر گھر بھجوا دیں گے اور شہرت خراب کرنے پر ہتک عزت کا دعویٰ الگ ہوگا۔ بہتر یہی ہوگا کہ وہ  چند دن  دفتر نہ آئے اور باہر سے ہی اپنے طور پر یہ تحقیقات خفیہ طریقے سے جاری رکھے اور مجھے مطلع  کرے۔ مناسب ثبوت بہم ہوجانے پر ہم کیس فائل کرکے معاملے کو دیکھ لیں گے۔
اس کو وہاں سے رخصت کرنے کے بعد میں نے فون اٹھایا اور اس ہی ہسپتال میں کام کرنے والی اپنی چھوٹی بہن کو بھی خبردار کردیا کہ وہ  رازاداری کے ساتھ اردگرد نظر رکھے اور کسی بھی گڑبڑ کے نتیجے میں مجھے فوری طور پر مطلع کرے۔ فون کال نمٹا کر میں نے سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی اور تھانے کے احاطے میں کھڑا ہوکر سگریٹ پیتے ہوئے معاملے کے ممکنہ پہلوؤں پر غور کرنے لگا۔
میرے ماتحت آفیسر کے بیان کے مطابق یہ معاملہ ابھی پولیس کی نظروں میں آیا ہی نہیں تھا جبکہ قتل کی یہ وارداتیں پچھلے پانچ سال سے جاری تھیں۔  اس کو بھی اس معاملے کی بھنک ایسے پڑی تھی کہ اس کی بیوی اس ہسپتال میں زچگی کے سلسلے میں گئی تھی اور جان کی بازی ہار گئی تھی۔ بیوی کی موت کے فورا بعد یعنی دو گھنٹوں میں ہی  ہسپتال والوں نے بچے کو بھی مردہ قرار دے دیا تھا۔ شاید کوئی اور ہوتا تو اس معاملے کو خدا کی مرضی قرار دے کر رو پیٹ لیتا مگر پولیس والوں اور بالخصوص تفتیشی افسران کا مزاج عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ میرے ماتحت کو یہ شک گزرا کہ یہ اموات جتنے عجیب انداز میں ہوئیں وہ طبعی موت نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کا معاملہ تھا۔ ہسپتال کا نام بہت بڑا تھا اس لئے  مجرمانہ غفلت کا براہ راست الزام لگانے کے مضمرات سے وہ آگاہ تھا۔ کیس کو مضبوط کرنے کے لئے اس نے اپنے ذرائع سے تحقیقات کیں تو ایک عجیب سی خبر اس کے سامنے آئی کہ  زچہ و بچہ کی موت کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ پچھلے پانچ سال سے ہر سال اکتوبر کے مہینے میں اس قسم کے واقعات اس ہسپتال میں ہوتے آئے تھے ۔  یہ معلومات ملتے ہی وہ جذبات میں دوڑتا ہوا میرے کمرے میں گھس آیا تھا اور مجھ سے کیس درج کرنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ سگریٹ  ختم کرکے میں نے اس کیس کے سلسلے میں دماغ میں آنے والے تمام فالتو خیالات کو جھٹکا اور واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ میں نے طے کرلیا تھا کہ اب اس معاملے پر تب ہی سوچوں گا جب کچھ مزید اطلاعات میرے سامنے آئیں گی۔


اس بات کو گزرے چار دن  ہوگئے تھے اور میرا ایک بار بھی اس سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔ میں اپنی بہن سے بھی معاملے کی مسلسل سن گن لے رہا تھا مگر اس  نے بھی اردگرد کوئی غیرمعمولی چیز محسوس نہیں کی تھی۔ میں پچھلے دو دن سے مسلسل دفتر سے واپسی میں اس کے گھر جارہا تھا مگر ہر مرتبہ یہی معلوم ہوتا کہ وہ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے گھر سے نکلا ہے اور جب میں اس کے موبائل پر فون کرتا تو گھنٹی بجتی مگر کوئی جواب نہ آتا۔ میں نے اس کے گھر والوں کو بھی بول رکھا تھا کہ وہ جب بھی گھر آئے تو اسے مجھ سے رابطہ کرنے کو کہیں مگر یا تو گھر والے اسے میرا پیغام نہیں پہنچا رہے تھے یا وہ خود مجھ سے کترا رہا تھا۔ آج میں نے سوچ لیا تھا کہ دفتر سے واپسی میں میں اس کے گھر جاؤں گا اور وہیں بیٹھ کر اس وقت تک اس کا انتظار کروں گا جب تک وہ واپس نہیں آجاتا۔
دفتر میں بہت سے توجہ طلب امور تھے مگر میرا دھیان اس ہی میں اٹکا ہوا تھا۔ کافی دیر تک بھی جب میں کسی اور چیز پر توجہ مرکوز نہ کرسکا تو میں نے جھلا کر اسے کال کرنے کے لئے موبائل نکالا تو اس ہی وقت سکرین پر اس کا نام جگمگانے لگا۔ میں نے فورا کال اٹھائی اور اس سے پہلے کہ میں اسے پچھلے چار دن پر مغلظات سناتا اس کی نہایت پرجوش آواز ابھری، سر! میرا شک صحیح نکلا۔ آپ بس جلدی سے ہسپتال پہنچ جائیں میں ہسپتال کے  سامنے والے ہوٹل میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ باقی تفصیلات میں مل کر بتاتا ہوں۔
میں گاڑی اڑاتا ہوا سیدھا ہسپتال کے سامنے واقع ہوٹل پر پہنچ گیا۔ وہ ہوٹل کے باہر پڑی کرسی پر بیٹھا ہسپتال کے دروازے پر نگاہیں جمائے بیٹھا تھا۔ میں اتر کر اس کے پاس گیا تو اس نے عادتا مجھے سلوٹ کردیا۔ وہ اس وقت سادہ کپڑوں میں ملبوس تھا اور مجھے لگا کہ لوگ اس کے اس طرح مجھے سلوٹ کرنے پر چونکے ہیں مگر پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو وردی میں موجود تھا اور یہ سراسیمگی میرے آنے کی وجہ سے پھیلی تھی۔ میں نے لوگوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کے برابر میں موجود کرسی سنبھال لی اور اردگرد  کی کرسیوں پر موجود لوگوں کو اٹھنے کا اشارہ کردیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارے گفتگو کوئی اور سنے اور لوگ تو ویسے ہی ہم سے دور بھاگنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں سو چند ہی لمحوں میں ہم دونوں اکیلے رہ گئے تھے۔
پہلے پانچ منٹ تو میرے اسے اس طرح غائب ہونے پر مغلظات سنانے میں لگ گئے مگر اس کا کہنا تھا کہ وہ بغیر کسی ٹھوس چیز کے میرا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے فون پر بات کرنے میں متامل تھا۔  چار گالیاں اس احمقانہ سوچ پر مزید کھانے کے بعد وہ معاملے کی تفصیلات پر آگیا۔
میرے ماتحت کے مطابق اس نے اکتوبر کے مہینے سے جڑے ان حادثات کو کھوجنے کے لئے ہسپتال کے سٹاف کو کھنگالنے کی کوشش کی  کہ ان میں سے کس کس کا اس مہینے سے کوئی خاص تعلق ہوسکتا ہے۔  پہلے مرحلے میں اس نے ہسپتال کے ہیومن ریسورس مینجر کو اپنی نوکری کی دھونس جمائے بغیر محض بندوق دکھا کر تمام سٹاف کا ڈیٹا حاصل کیا اور اس میں سے اکتوبر کی تاریخ پیدائش والے تمام  افراد کی نشاندہی کر لی۔ اس کے شک کا دائرہ اب ہسپتال کے چار سو سٹاف سے سمٹ کر محض سینتیس لوگوں پر رہ گیا تھا  امگر ایک دو کی بات ہوتی تو ٹھیک تھا ، وہ ذاتی حیثیت میں سینتیس لوگوں کو شامل تفتیش نہیں کرسکتا تھا۔ اسے لگنے لگا تھا کہ اب معاملہ یہیں ختم ہوجائے گا مگر قدرت اس پر مہربان ہوگئی جب اس نے کل رات سوچوں کے درمیان  بے دھیانی میں ہسپتال سے ملنے والی اپنی بیوی کی کیس فائل کھولی اور اسے ڈاکٹر کے خانے میں جو نام دکھا وہ اکتوبر میں پیدا ہونے والے ان افراد کی فہرست میں موجود تھا۔ اس کے بقول وہ رات بھر سو نہیں سکا اور صبح ہی ہسپتال پہنچ کر اس ہی ہیومن ریسورس مینجر کے ساتھ موجود تھا جس نے اسے پہلے بھی ڈیٹا فراہم کیا تھا۔ قسمت اس پر مسلسل مہربان تھی کہ وہ شخص ہیومن ریسورس مینجر  اور ایک توپ افسر ہونے کے ناطے ہسپتال کے تمام ستاف کی حاضری اور ہسپتال کے میڈیکل ریکارڈ دونوں تک رسائی رکھتا تھا۔ میرے ماتحت کے مطابق جیسے ہی اسے پتہ چلا  کہ پچھلے پانچ سال میں ہونے والی تمام زچہ و بچہ کی اموات کے وقت محض ایک شخص تھا جو ڈیوٹی پر موجود تھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس شخص کا نام وہ اپنی بیوی کے میڈیکل ریکارڈ میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔  وہ ڈاکٹر اس وقت بھی ہسپتال میں موجود تھی اور اب ہم دونوں ہسپتال میں تماشہ نہ بنانے کے لئے ہسپتال کے باہر اس کے منتظر تھے کہ وہ کب ڈیوٹی ختم کرکے نکلے اور ہم اسے اس کے گھر جا کر دھر لیں۔ میرا ماتحت ہسپتال کے ریکارڈ سے اس کا پتہ نکال لایا تھا مگر میں اپنی بہن کے حوالے سے میں اسے جانتا تھا  اور میں جانتا تھا کہ یہ ایک فرضی پتہ ہے۔ میں اس سفاک قاتل کا پتہ جانتا تھا جو ہسپتال سے پانچ منٹ کے فاصلے پر ہی واقع ایک پوش علاقے میں مکین تھی لہٰذا میں نے اپنے ماتحت کو ساتھ لیا اور اس کے گھر کے سامنے والے پارک میں جا کر انتظار کرنے لگا ۔
شام پانچ بجے اس کی ڈیوٹی ختم ہوئی تھی اور ٹھیک پانچ بج کر سولہ منٹ پر وہ اپنے گھر کا دروازہ کھول رہی تھی کہ میں نے اپنے ماتحت کے ساتھ اسے جالیا۔ وہ مجھے میرے ماتحت کے ساتھ اور اس طرح وردی میں دیکھ کر بری طرح گھبرا گئی تھی۔ میں نے اسے دروازہ کھول کر اندر چلنے کا اشارہ کیا۔
گھر میں اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ ہم اسے لے کر ڈرائنگ روم میں آگئے۔ میں نے اپنے ماتحت کو اشارہ کیا اور اس نے پورا معاملہ اس لڑکی کے سامنے رکھ دیا کہ کس طرح پولیس کو اب اس کی سفاک حرکات کا پتہ چل گیا ہے ۔ میرے ماتحت کی بات سن کر وہ بری طرح سے پھوٹ بہی مگر ہم دونوں وقت کے ساتھ اتنے پکے ہوچکے تھے کہ اب کسی  کے آنسو ہم پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے۔ اس نے جرم سے انکار نہیں کیا اور دھیمے لہجے میں بولی کہ اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟  مجھے لگا کہ میرا ماتحت بھی اس کے اتنی جلدی اقبال جرم کی امید نہیں کر رہا تھا۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ اس کا ہر قتل کے وقت ہسپتال میں موجود ہونا اسے کسی بھی عدالت میں قاتل نہیں ثابت کرسکتا تھااور ایک معمولی وکیل بھی ہمارے مقدمے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا۔ اور جب یہ بات ہم دونوں جانتے تھے تو اتنی مہارت سے قتل کرنے والی وہ بظاہر معمصوم دکھنے والی شاطر لڑکی کیوں واقف نہیں ہوگی؟ وہ لڑکی مگر شاید اس وقت کسی شدید جذباتی کیفیت  کا شکار تھی اور اقبال جرم کربیٹھی تھی۔ میں نے کہا کہ ابھی لیڈی پولیس بلوا کر ہم آپ کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ میں آپ کو ذاتی حیثیت میں جانتا ہوں مگر مجھے آپ سے اس بات کی امید نہیں تھی۔ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ مسیحائی جیسے مقدس پیشے سے منسلک ہوکر بھی قاتل بن گئیں؟  میرا سوال سن کر اس نے رونا بند کر دیا اور نظریں میری نظروں میں گاڑ کر بولی، میں نے اپنے مقدس پیشے سے کبھی بے وفائی نہیں کی ہے! میرا کام انسانوں کو درد سے نجات دلانا ہے انسپکٹر صاحب! اس کی آنکھوں میں موجود آنسوؤں کی لالی اس وقت خون کی لالی لگ رہی تھی اور کے لہجے میں جو وحشت تھی میں نے محسوس کیا کہ اس سے میرا ماتحت کانپ اٹھا ہے۔  اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے اپنا بیان دوبارہ جاری کردیا۔  ایک پولیس والا کیسے محسوس کرسکتا ہے کہ درد کیا ہوتا ہے جبکہ اس کی ساری زندگی تفتیش کے نام پر دوسروں پر تشدد میں گزر جاتی ہے۔ میں ڈاکٹر ہیں۔ میں جانتی ہوں درد کیا ہوتا ہے۔ میں انسان ہوں ۔ مجھے پتہ ہے کہ اس دنیا میں بن ماں کے بچوں کا کیا حال ہوتا ہے! میں ہی ہوں جو ان کا درد محسوس کرسکتی ہوں۔ میں ہی ہوں جس کی ماں اس ہی اکتوبر کے مہینے میں اسے پیدا کرتے ہوئے چل بسی تھی۔ خاندان بھر کے گھروں میں باری باری پلتے اور چاچا ماماؤں کے بچوں کی نوکری کرتے ہوئے جب میں ڈاکٹر اور پھر گائنی کی ماہر بنی تو اس کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ میں  کسی ماں کو مرنے نہیں دوں گی۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ میں گائنی کی ماہر تو بن سکتی ہوں مگر خدا نہیں بن سکتی۔ میں انہیں مرنے سے نہیں بچا سکتی۔ مگر جو پیچھے بچ جائیں انہیں ضرور ان کی ماؤں تک پہنچا سکتی ہوں۔ آپ اسے سفاکی کہتے ہیں؟ میں تو احساس کی اس منزل پر ہوں جہاں آپ کبھی نہیں پہنچ سکتے! آپ کی ماں شاید ابھی زندہ ہے!-

اس کی باتیں سنتے سنتے میری بس ہوچکی تھی۔ میں نے کھڑے ہوکر اپنا سائلینسر لگا ذاتی ریوالور نکال لیا۔ وہ ڈاکٹرنی  مجھے کھڑا ہوتا دیکھ کر خود بھی کھڑی ہوگئی تھی اور اب بھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑٰی تھی گویا اسے کسی بات کا ڈر نہ ہو۔ میرا ماتحت البتہ بری طرح گھبرا گیا تھا۔ اسے نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکنے کی کوشش کی کہ سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں مگر اس کا جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی میں نے اپنا ہاتھ چھڑا کر گولی چلا دی۔ وہ ڈاکٹرنی دوڑتی ہوئی آئی اور مجھ سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ ہمارے قدموں میں میرے ماتحت کی لاش پڑی تھی۔ آج ہماری ماں کی برسی تھی۔ میرا ماتحت بیچارہ ناتجربہ کار تھا جو دروازے پر لگی تختی نہ پڑھ سکا جس پر بڑا بڑا انسپکٹر عاطف علی تحریر تھا!

اتوار، 23 اکتوبر، 2016

(اس عنوان پر) آخری نظم

مجھے معلوم ہے تم منتظر ہو
کہ ہر سال گذشتہ کی طرح سے
رسم اک بار پھر دہرائی جائے
تخیل کی حسیں وادی میں جا کر
خیالی وصل کے لمحوں کی راحت
وفا کے باب کے سارے فسانے
مثالی اک تعلق سوچ کر میں
حسیں الفاظ کے قالب میں ڈھالوں
تمہارے نام پہ غزلیں تراشوں
حسیں عنوان کے روشن سے قصے
تمہارے نام سے منسوب کر کے
جہاں کو پھر سے یہ احساس دوں کہ
یہ رشتہ کس قدر کا معتبر ہے ۔۔۔۔


میری جاں اب مگر میں تھک چکا ہوں


یہ چوبیس سال کی دوری ہے جاناں)
(قرار واقعی میں تھک چکا ہوں


میں لکھوں کس طرح تم ہی بتائو
گذشتہ شب سے ہی یہ سانحہ ہے
تخیل کی بلندی سرنگوں ہے
قلم اب تاب کھوتا جا رہا ہے
فقط الفاظ باقی رہ گئے ہیں
ہر ایک احساس مٹتا جا رہا ہے


میں تیرے ساتھ اس دن مر گیا تھا
اور اب اندر کا شاعر مر گیا ہے


سید عاطف علی

23-Oct-2013

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

ادیب - 4

اگر وہ واقعی اتنا ہی کھڑوس ہوا تو کیا ہوگا؟ گھر کے دروازے پر کھڑے ہوئے یہ سوال ایک بار پھر میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا مگرمیں نے ہمت جمع کرتے ہوئے اطلاعی گھنٹی بجا  ہی دی۔ مجھے انتظار نہیں کرنا پڑا تھا  اور چند ہی لمحوں میں میں ایک لائبریری نما کمرے میں موجود تھا۔ کمرا بھی اس  کی تحاریر ہی کی طرح عجیب تھا۔ تمباکو کی سوندھ کمرے میں گویا رج چکی تھی۔ کتابیں اپنی الماریوں سے زیادہ میز پر موجود تھیں گویا پڑھنے کے بعد انہیں واپس رکھنے کی زحمت نہیں کی گئی ہو۔ دیواروں پر جابجا تصاویر موجود تھیں مگر ان میں سےکوئی ایک بھی مکمل نہیں تھی۔ گویا تصویر تخلیق پاتے ہوئے درمیان میں ہی مصور کی توجہ کھو چکی ہو اور دنیا میں اگر کوئی انسان اس نامکمل  تخلیق کو اپنا سکتا یا اسے اپنے کمرے کی دیوار پر سجا سکتا تھا تو وہ یہی تھا۔  کمرے میں گرد کے آثار موجود نہیں تھے گویا وہاں باقاعدگی سے صفائی ہوتی ہو مگر گرد کی غیر موجودگی کے باوجود  یہ بے ترتیبی اس بات کی عکاس تھی کہ صاحبِ خانہ کو گندگی اور ترتیب دونوں ہی سے چڑ تھی۔ کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے میں اطراف کا جائزہ لے رہا تھا اور سنے گئے تمام تجزیے بالکل درست ثابت ہورہے تھے۔

وہ اپنے وقت کا ایک مشہور ادیب تھا۔ ایسا ہمارے جریدے کے مدیر کا ماننا تھا۔ شاید جو لوگ اسے جانتے ہوں ان میں وہ مشہور رہا بھی ہو مگر میں نے آج سے ایک ہفتے پہلے تک اس کا نام تک نہیں سنا تھا۔ اور شاید آگے بھی نہ سنتا اگر مدیر صاحب نے مجھے اس کا انٹرویو کرنے کا حکم نامہ نہ سنایا ہوتا۔  دراصل مدیر صاحب خود کسی زمانے میں اس کے قاری رہ چکے تھے اور چونکہ اب برسوں سے اس نے لکھنا ترک کر دیا تھا  سو وہ چاہتے تھے کہ میں جاکر انٹرویو کے بہانے اس کے قلم چھوڑ دینے کی وجہ دریافت کروں۔ بقول انکے وہ کئی برسوں سے اس انٹرویو کی کوشش کر رہے تھے اور اب جب انہیں کامیابی مل گئی تھی تو وہ چاہتے تھے کہ ان کا بہترین صحافی جاکر اس کارخیر کو انجام دے اس لئے یہ بلا میرے سر منڈھ دی گئی تھی۔

میری عادت تھی کہ میں کسی بھی انٹرویو میں جانے سے پہلے اس شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرلیتا ہوں۔ وقت کے ساتھ  ادارے میں میرا مقام اتنا بلند ہوچکا تھا کہ میں صرف مشہور شخصیات کے انٹرویو ہی لے رہا ہوتا تھا سو بالعموم یہ معلومات بآسانی بہم ہو جاتی تھیں۔ اس ادیب کا معاملہ مگر مختلف تھا۔ ایک تو ادیب اور اوپر سے اردو زبان کا۔ معاشرے میں بیکار لوگوں سے تعلقات رکھنے کا رواج اب تقریبا ناپید ہوچکا تھا سو ایسے لوگوں کے دوست بھی ڈھونڈنےسے ملتے ہین اور بسا اوقات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔  بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ جہاں سے معلومات کروانے پر کچھ لوگ ضرور سامنے آئے جو اس ادیب کو جاننے کے دعویدار تھے مگر ان کا سامنے آنا معاملے کو اور گنجلک کرگیا۔ ہر دوسرا شخص اس کے بارے میں ایک یکسر نئی رائے لیکر سامنے آتا اور سب کا دعویٰ یہی ہوتا کہ باقی سب دھوکہ ہے اور مصنف کو جتنی اچھی طرح وہ جانتے ہیں ویسے کوئی نہیں جانتا۔ ایک بات پر البتہ سب متفق تھے کہ وہ ایک سفاک انسان ہے۔ کڑوا بولتا ہے اور اس سے بھی زیادہ کڑوا لکھتا ہے۔ لکھتا کیا ہے باقاعدہالفاظ کی قے کرتا  ہے۔

سوشل میڈیا سے ملنے والی ان معلومات نے میرے اندر ایک تجسس بھر دیا تھا اور اب میں باقاعدہ اس ملاقات کے دن گننے لگا تھا۔  آراء کا سلسلہ ملاقات والے دن تک جاری رہا اور آج میں سوشل میڈیا سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں ایک شدید ٹھرکی، بے انتہا لالچی، حد کے کمینے، اور بلا کے سفاک وغیرہ قسم کی انسان نما مخلوق کا انٹرویو لینے اس کے گھر پر موجود تھا جہاں اس کی ملازمہ مجھے اس لائبریری نما کمرے میں بٹھا کر چلی گئی تھی اور اب میں کمرے میں ٹہلتا ہوا اس کا منتظر تھا۔

جب انتظار کرتے ہوئے کافی دیر ہوگئی تو میں ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لینے لگا۔  ادھر ادھر نظریں دوڑاتے میری نظر اس تصویر پر جا کر ٹک گئی جس میں تمام انسان اوپر کی جانب حسرت سے دیکھ رہے تھے اور ان سب سے اوپر ایک انسان اکیلا بیٹھا اتنی ہی حسرت سے کاندھے سے کاندھا ملائے ان انسانوں کو دیکھ رہا تھا۔  اس انسانوں کے پہاڑ کے اوپر ایک بادل تھا اور بادل میں مصور نے ایک دریچہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر کچھ سوچ کر اس دریچے کو ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ابھی میں تصویر کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھاکہ پیچھے سے ایک بیزار کن آواز ابھری، ان تصاویر میں کچھ بھی نہیں دھرا ۔ جتنا غور تم لوگ تصاویر پر کرتے ہو اگر اس کی آدھی توجہ مصور کو دے دو تو شاید اس قسم کی تصاویر بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑے! میں  نے مڑ کر دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر انسان نشست میں دراز اپنا پائپ سلگا رہا تھا۔  میں نے لپک کر اسے سلام کیا اور اس کی سامنے والی نشست سنبھال لی۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں اپنی زندگی کا سب سے دلچسپ انٹرویو کرنے جا رہا تھا۔ اس نے پائپ پر سے نظریں اٹھا کر مجھے ناپسندیدگی سے دیکھا گویا اسے میرا اپنے سامنے بیٹھنا پسند نہ آیا ہومگر منہ سے کچھ بولے بغیر دوبارہ اپنے پائپ کے ساتھ مشغول ہوگیا۔

ایک لحظے کو تو میں شدید کھسیانہ ہوکر رہ گیا تھا مگر میں نے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس سے بغیر اجازت بیٹھنے کی معذرت چاہی اور انٹرویو شروع کرنے کی اجازت طلب کر لی۔ میری معذرت سن کر اس کے چہرے پر تاثرات کچھ نرم ہوگئے اور اس نے رضامندی میں سر ہلا دیا گویا مجھے سوال کرنے کی اجازت دے رہا ہو۔ پچھلے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے میں نے آسان اور عام سوالات سے گفتگو کا آغاز کرنا چاہا اور اس سے اس کے بچپن ، ابتدائی تعلیم اور گھر والوں سے متعلق سوال کرلیا۔ اس نے پائپ سے ایک گہرا کش بھرا اور  دھویں کو ہوا میں اچھالتے ہوئے میری جانب مسکرا کر دیکھا اور بولا، صاحب! کیوں دونوں کا وقت برباد کرتے ہو؟ میرے بچپن سے جب مجھے خود کوئی دلچسپی نہیں تو کسی اور کو کیا ہوگی؟ اور ابتدائی تعلیم کا کیا؟ سوال یہ نہیں ہے کہ میری ماضی کی تعلیم کیا رہی ہے۔ سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ میں اس لمحہ موجود میں کس چیز کو برحق گردانتا ہوں؟  آپ انسان زبردستی کیوں دوسروں کو ان کے ماضی کے ساتھ نتھی کرنا چاہتے ہیں؟ جب ایک چیز خدا نے گزار دی تو آپ کیوں اسے دہرانے پر مصر رہتے ہیں؟  اگر وہ میرے حق میں اتنی ہی اچھی ہوتی تو یقین رکھیے میں خود اسے کبھی گزرنے نہیں دیتا۔ خیر اب مزید وقت ضائع نہ کیجئے۔ وہ سوال کیجئے جو آپ کرنے آئے ہیں۔


مسلسل توہین کی وجہ سے اب میرے کان سرخ ہوچکے تھے اور اب میں باقاعدہ ان کو کھولتا ہوا محسوس کرسکتا تھا۔ میں نے اسے اس کی طرح برتنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس سے پوچھ لیا کہ اس نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔  کمرے میں تھوڑی دیر کے لئے خاموشی رہی اور اس دوران وہ پائپ کے کش لگاتے ہوئے مجھے نظروں میں تولنے کی کوشش کرتا رہا۔ اب مجھے اپنا آپ نہایت بچکانہ اور احمق محسوس ہورہا تھا اور میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں اس کی آنکھیں نوچ ڈالوں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی بچہ اپنے باپ کے سامنے موجود ہو اور کوئی احمقانہ سوال کر بیٹھا ہو اور اب اس کا باپ سوچ رہا ہو کہ اس کی اس حماقت کا جواب کس طرح دیا جائے۔  غیر اضطراری طور پر میں نے اپنا موبائل فون جیب سے نکال لیا اور پڑھے ہوئے پیغامات کو دوبارہ دیکھنے لگا۔ میں تھوڑی دیر کے لئے بھلا دینا چاہتا تھا کہ میں کہاں اور کیوں موجود ہوں۔ وہ شاید میری کیفیت بھانپ گیا تھا اس لئے گلا کھکار کر گویا ہوا، کیونکہ تم انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز بغیر مانگے مل جائے تو تم لوگ کبھی اس کی قدر نہیں کرتے۔ تم وہ لوگ ہو جو مخلوق کی قدر کرنا نہیں سیکھ سکے تو خالق کی قدر کرنا کیا جانو گے؟  تم شاید سوچ رہے ہوگے کہ ادیب تو اپنے لئے لکھتا ہے تو معاشرے کا اس کی تحاریر کو قبول کرنا نہ کرنا یا سمجھنا نہ سمجھنا اس کے لئے کیوں اہم ہوگیا تو جان رکھو کہ بھوک میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میں بھوکا نہیں ہوں۔ عورت کی حق تلفی پر میں کیوں روؤں؟ میں تو مرد ہوں۔ ادباء اور شعراء کی ناقدری پر میں کیوں لکھوں؟ میں ساری عمر کبھی بھی ان میں سے ایک تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور جب تم یہ سب مانتے ہو تو یہ بھی مان لو کہ میں اپنے لئے نہیں لکھتا۔ اور جب میں تمہارے لئے لکھتا ہوں تو اگر میں لکھتا رہتا اور ساری عمر بھی لکھتا رہتا تو بھی تم لوگ کبھی اس پر کان نہیں دھرتے۔ منٹو اور ایلیا کا پیغام پھیلنے کے لئے منٹو اور ایلیا کا مرنا ضروری ہے کہ زندوں کو عزت دینا اس مٹی   اور یہاں کے لوگوں کے خمیر میں ہی نہیں ہے! جاؤ اور جاکر خبر لگا دو کہ عاطف علی بھی مرگیا۔ شاید میرا پیغام بھی سن لیا جائے۔ چاء آرہی ہے۔ پی کر جانا۔ یہ کہہ کر اس نے ایک طنزیہ مسکراہٹ میری سمت اچھالی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔  لوگ ٹھیک ہی کہتے تھے اس کے بارے میں۔ عجیب وحشی قسم کی مخلوق ہے!

پیر، 26 ستمبر، 2016

شعور

کون کہتا ہے کہ تعلیم انسان کو شعور نہیں دیتی یا شعور انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتا؟ جیب میں بھرے نوٹوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے  جب یہ سوچ میرے دماغ میں آئی تو ایک طمانیت بھری مسکراہٹ میرے چہرے پر دوڑ گئی۔ میں جان گیا تھا کہ اب گھر میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا اور میرے چھوٹے بہن بھائی اب دوبارہ اسکول جا سکیں گے۔
میر ا  نام عاطف علی ہے اور میں سڑک کے کنارے اپنے باپ کا چھوڑا ہوا کتابوں کا ٹھیہ لگاتا ہوں۔کہنے کو میری عمر ابھی لکھنے پڑھنے کی ہے ۔ مگرتمباکو نوشی کی زیادتی آج سے تین سال پہلے میرے باپ کو کھا گئی تھی اوربیوہ ماں اور باقی چھ بہن بھائیوں کی ذمہ داری بڑا ہونے کے ناطے مجھ پر آن پڑی تھی۔  مجھ سے چھوٹی دو بہنیں تھیں جو گھر میں اماں کے ساتھ سلائی میں ہاتھ بٹاتی تھیں  اور ان کے بعد جو دو بھائی اور دو بہنیں تھے وہ ابھی اتنے چھوٹے تھے کہ کچھ کر نہیں سکتے تھے سو پورا دن گھر میں ادھم مچاتے تھے۔ ابا کے مرنے سے پہلے میں پہلے ایک ورکشاپ پر کام کر رہا تھا مگر وہاں کا ماحول مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا لہٰذا ابا کے جانے کے بعد میں نے ورکشاپ چھوڑ کر یہ ٹھیہ سنبھال لیا تھا۔ 
کتابوں کا کام بھی ہوائی روزی تھی۔ جہاں میرا ٹھیہ واقع تھا وہاں قطار سے آٹھ دیگر کتب فروش موجود تھے۔ ہم سب اٹھتے بیٹھتے  روزانہ یہی دعا کرتے تھے کہ کسی انگریز لکھاری کی کوئی نئی کتاب آجائے تو ہماری دکان بھی چل سکے ورنہ سارا سال محض نصاب کی کتب یا مشہور انگریزی کتابوں کی استعمال شدہ کاپیوں پر ہی گزارا کرنا پڑتا تھا اور ان پر مقابلہ سخت ہونے کی وجہ سے بچت بہت کم ہوپاتی تھی۔ باقی دکانداروں کی طرح میں خود بھی اس کام سے مطمئن نہیں تھا مگر واپس ورکشاپ جانے کا تصور اور استاد کا بہانے بہانے سے پیچھے والے اسٹور روم میں لے جانا یاد کرتا تو جھرجھری لے کر ایسے کسی بھی خیال کو ترک کردیتا تھا۔شاید باقی دکاندار بھی ماضی میں کسی ورکشاپ میں کام کر چکے تھے اس لئے ہم سب ہی سالہاسال سے تنگی کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے ٹھیے خالی کرنے پر تیار نہیں تھے۔
میں روزانہ صبح گیارہ بجے ٹھیہ سجا لیتا تھا  مگر  گاہکوں کے آنے کا وقت جامعات کی چھٹی کے بعد ایک گھنٹے یا دفاتر سے واپسی میں رکنے والے چند مخصوص سنکیوں کا ہی تھا جو آج کے زمانے میں بھی کتاب سے شغف رکھتے تھے اور نئی کتاب خریدنے کی استظاعت نہ رکھنے کی وجہ سے آتے جاتے ہمارے پاس  رک جاتے تھے۔ باقی دکاندار تو وقت بتانے کے لئے ٹھنڈے وقت میں ایک دوسرے  سے ہنسی مذاق کرکے گزار لیتے تھے مگر میری عمر محض سولہ سال ہونے کی وجہ سے مجھے اس گفتگو سے باہر رکھا جاتا تھا۔ کرنے کو کوئی اور کام ہوتا نہیں تھا سو میں نے اپنے ہی ٹھیے پر برسوں سے نئے قاری کی منتظر کچھ اردو ادب کی کتابیں کھنگالنی شروع کردیں۔ اردو ادب پڑھنے کی دو ہی وجوہات تھیں۔ پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ کہ یہ کتابیں پچھلے تین سال سے کہ جب سے میں اس ٹھیے پر تھا، وہیں موجود تھیں اور آج تک ان کا کوئی قاری پیدا نہیں ہوا تھا۔ خدا جانے ابا نے کیا سوچ کر انہیں خریدا تھا اور خدا جانے میرے ٹھیہ سنبھالنے سے پہلے بھی وہ کتنے ہی سال یہاں گزار چکی تھیں۔ سو اگر میں انہیں نہ پڑھتا تو بھی وقت کے ساتھ وہ مزید سالخوردہ ہو رہی تھیں اور شاید کچھ عرصے بعد اتنی گل جاتیں کہ پڑھنے کے لائق بھی نہ رہتیں۔  دوسری وجہ یہ تھی کہ سرکاری اسکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد مجھے اردو پڑھنی تو آگئی تھی مگر انگریزی پڑھنا بہرحال ایک مشکل کام تھا۔
میں ان دنوں اماں کے بڑھتے ہوئے تقاضوں سے شدید پریشان تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری بہنیں بانس کی طرح بڑھ رہی ہیں لہٰذا مجھے آمدنی بڑھانی چاہئے تاکہ وہ ان کے جہیز کے لئے کچھ رقم پس انداز کرسکیں ورنہ بغیر باپ کی بچی کا ہاتھ تھامنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوگا کہ پتہ نہیں جہیز دے پائیں گے یا نہیں۔  سو بستی میں لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم ابھی سے بہنوں کے لئے مال جمع کر رہے ہیں تاکہ وقت پر ان کے لئے ڈھنگ کے رشتے آ سکیں۔ دوسری فکر اماں کو دیگر چھوٹے بہن بھائیوں کی لاحق تھی جو پورا دن محلے میں کھمبے پیٹا کرتے اور گولیاں کھیلتے تھے۔اماں چاہتی تھیں کہ وہ اور کچھ نہیں تو سرکاری اسکول ہی جانا شروع کردیں ورنہ جیسے میں بچپن میں ورکشاپ بھیجا گیا تھا ویسے ہی کم از کم بھائیوں کو بھی کسی ورکشاپ میں ڈال دیا جائے۔ میں ان دونوں ہی چیزوں کا مخالف تھا۔ میرا ماننا تھا کہ اسکول بچوں کو تربیت کے لئے بھیجا جاتا ہے اور سرکاری اسکول میں پڑھ کر میں جان گیا تھا کہ جس قسم کی تربیت وہاں ان بچوں کو ملے گی اس سے بہتر ہے وہ محلے میں گولیاں کھیل لیں۔ اور ورکشاپ بھیجنے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ان سب مسائل کا واحد حل یہ تھا کہ آمدنی میں اضافہ کیا جائے تاکہ بہنوں کے لئے رقم جوڑی جا سکے اور بھائی کسی سستے ہی سہی مگر پرائیوٹ اسکول میں جا سکیں جہاں کم از کم سرکاری اسکول جیسا برا حال نہ ہو۔ مگر یہ آمدنی میں اضافے کا سوال اتنا گنجلک تھا کہ میں بہت کوشش کے باوجود  اس کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔
ان ہی پریشانیوں کے دنوں میں وہ کتاب میرے ہاتھ لگ گئی۔ تقسیم کے ہنگاموں پر لکھی اس کتاب میں بہت سے افسانے مرقوم تھے۔ باقی ساری کہانیاں میرے لئے غیر اہم تھیں مگر اس ایک کہانی پر میرا دماغ اٹک کر رہ گیا جس میں مہاجر کیمپ کے باہر دو خواتین چھابڑی  لگا کر پکوڑے بیچا کرتی تھیں اور پھر ایک نیک انسان ان پر ترس کھا کر انہیں اپنے ساتھ موٹر میں بٹھا کر لے جاتا ہے اور واپسی میں انہیں اتنے پیسے دے دیتا ہے کہ جن سے ان کا ہفتہ سکون سے نکل جائے۔ کہنے کو یہ بھی تقسیم سے جڑی ہوئی تمام کہانیوں ہی کی طرح ایک کہانی تھی مگر یہ کہانی مجھ پر شعور کے نئے در وا کر گئی۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑی مونچھوں والا روز میرے ہی ٹھیے کے سامنے گاڑی کیوں روکتا ہے اور کیوں کبھی گاڑی سے اترنے کی زحمت کیئے بغیر بس میرے ٹھیے کی جانب دیکھتا ہی رہتا ہے۔ اور کیوں جب میں نے پہلی مرتبہ اس کی گاڑی کی جانب جاکر اس سے پوچھنا چاہا تھا تو برابر والے غفور چاچا نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے کسی بھی گاڑی کی طرف جا کر کتاب بیچنے سے سختی سے منع کردیا تھا۔  اس کہانی کو پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ تقسیم کے ہنگامے آج تک تھمے نہیں تھے۔ کرداروں کے نام تبدیل ہوگئے تھےمگر کہانی آج بھی وہی تھی۔  موٹر والوں کی جگہ ان کی اولاد  یا پھر اس اولاد کی اولاد لے چکی تھی اور چھابڑی والیوں کی جگہ ان کی بیٹیاں اور ان کی بیٹیوں کی بیٹیاں آ گئی تھیں۔اور آج پھر جب ایک گاڑی میرے ٹھیے کے سامنے رکی تو  مجھے معلوم تھا کہ مجھے کیا کرنا تھا۔ میں نے غفور چاچا سے ٹھیے کا خیال رکھنے کو کہا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
بمشکل دو گھنٹے بعد ہی میں واپس اپنے ٹھیے پر موجود تھا۔ غفور چاچا نے مجھے دیکھا تو غصہ کرنے کا ناٹک کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے  مسکرا کر ان کی سمت دیکھا اور ٹھیے کے اسٹول پر بیٹھ کر تقسیم کے ہنگاموں پر لکھی ہوئی وہ کتاب اٹھا کر دوبارہ پڑھنا شروع ہوگیا۔

کون کہتا ہے کہ تعلیم انسان کو شعور نہیں دیتی یا شعور انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتا؟ جیب میں بھرے نوٹوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے  جب یہ سوچ میرے دماغ میں آئی تو ایک طمانیت بھری مسکراہٹ میرے چہرے پر دوڑ گئی۔ میں جان گیا تھا کہ اب گھر میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا اور میرے چھوٹے بہن بھائی اب دوبارہ اسکول جا سکیں گے۔ 

ہفتہ، 17 ستمبر، 2016

نباض

ادیب معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کی خبر سب سے پہلے اسے ہوتی ہے۔ اور چونکہ وہ  معاشرے کی نفسیات دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے لہٰذا انسانی نفسیات کا سب سے بڑا عالم بھی ادیب ہی ہوتا ہے۔
اچھے عالم کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے علم کو بروئے کار لاتا ہے اس لئے میں بھی اکثر راہ چلتے لوگوں کو دیکھ کر ان کی نفسیات پڑھنے  کی کوشش کرتا ہوں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے مجھے سڑک کے کنارے ایک فاحشہ کھڑی نظر آئی تھی۔ چست کپڑے  پہن کر ہر گزرتی گاڑی کو وہ جس طرح سےدیکھ رہی تھی اس سے مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کس طرح کسی بھی گاڑی کو روک کر اس میں بیٹھ جائے۔  لڑکی قبول صورت تھی اور ویسے بھی جس صورت میں یہ  خواتین ہم مرد حضرات کو درکار ہوتی ہیں اس میں ہر طرح کی صورت قبول ہوتی ہے۔ تو میں نے بھی فقط انسانی ہمدردی کے تحت موٹرسایکل گھمائی مگر برا ہو اس لمبی داڑھی والے جوان کا جو مجھ سے پہلے اس تک پہنچ چکا تھا اور اب وہ فاحشہ گاڑی کی کھلی کھڑکی میں جھک کر اس سے بھاؤ تاؤ کرنے میں مصروف تھی۔  میں اسے دیکھتے ہی سمجھ چکا تھا کہ یہ مطلبی عورت محض وقت کا زیاں تھی اور ویسے بھی میرے پاس بازاری عورتوں کے لئے نہ وقت تھا نہ ان پر لٹانے کے لئے پیسے سو میں نے موٹر سائیکل آگے بڑھا دی۔
میں تھوڑا ہی آگے گیا ہوں گا کہ وہی لمبی داڑھی والا جوان میرے برابر میں سے گاڑی دوڑاتا ہوا گزرا جس کی آگے والی نشست پر وہی لڑکی براجمان تھی۔ نفسیات دان ہونے کے ناطے میں  اس جوان کی شکل دیکھتے ہی جان گیا تھا کہ ہوس اس پر بری طرح سوار تھی۔ جس برق رفتاری سے وہ میرے برابر سے گزرا تھا وہ بتا رہی تھی کہ اب اسے ضبط کا یارا نہیں رہا تھا۔ وہ منزل تک پہنچ کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔  میں نے دل ہی دل میں اس کے حلیے اور اس کی حرکات پر ایک قہقہ لگایا اور اپنی توجہ واپس سڑک پر مبذول کردی۔
تھوڑا آہی گے گیا  ہوں گا تو اشارے پرمجھے وہی گاڑی رکی ہوئی نظر آئی۔ موٹر سائیکل کے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں گاڑیوں کے بیچ سے ہوتا ہوا اس گاڑی کے قریب پہنچ گیا اور جب اشارہ کھلا تو میں نے بھی اس گاڑی کے ساتھ ہی موٹر سائیکل دوڑانی شروع کردی۔ پانچ سات منٹ کے سفر کے بعد گاڑی ایک رہائشی علاقے میں داخل ہوئی تو میں بھی تماشہ دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے ہی داخل ہوگیا۔ میں  نے سوچ لیا تھا کہ ان دونوں کو ایک ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہوئے پکڑوں گا تو خوب تماشہ رہے گا۔ داڑھی کے پیچھے چھپے اس مکروہ چہرے کو لوگوں کے سامنے لانا مجھ ایسے ادیبوں کا ہی تو کام تھا۔
گاڑی رہائشی علاقے میں ہوتی ہوئی ایک گلی میں جا کر کھڑی ہوئی تو میں نے بھی پیچھے ہی اس گلی کے نکڑ پر موٹر سائیکل روک دی اور ان دونوں کے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔ توقع کے برعکس اس جوان نے گاڑی بند نہیں کی اور نہ ہی گاڑی سے اترا۔ لڑکی البتہ اتر کر گھر کے اندر چلی گئی اور وہ جوان گھر کے باہر ہی انتظار کرنے لگا۔
تھوڑی دیر تک تو میں بھی وہیں نکڑ پر کھڑا اس معاملے کے آگے بڑھنے کا انتظار کرتا رہا مگر پھر نجانے کہاں سے اس محلے کے چند لونڈے نکل آئے جو مجھے مشکوک نظروں سے گھورنے لگے۔ میں تماشہ بنانے آیا تھا سو خود تماشہ بننے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے خاموشی سے موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور اس کالونی کے گیٹ پر جا کر کھڑا ہوگیا۔ 
کالونی کے دروازے پر مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور تھوڑی ہی دیر میں وہی گاڑی  ایک بار پھر کالونی سے باہر آتی دکھائی دے گئی۔  اس بار وہ لڑکی اپنے ساتھ ایک اور لڑکی کو بھی لے آئی تھی جو سیاہ شیشوں کے باوجود عقبی نشست پر بیٹھی نظر آرہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ  مولوی کی ہوس ایک عورت سے پوری نہیں ہوسکتی تھی اس لئے وہ لڑکی اسے اپنے ساتھ کوٹھے پر لے آئی تھی اور اب یہاں سے ایک اور لڑکی کو لے کر وہ دونوں مولوی کے گھر جا رہے تھے۔ میں نےتو سوچ  ہی لیا تھا کہ اس کہانی کا انجام دیکھ کر ہی جاؤں گا سو میں نے ایک بار پھر تعاقب شروع کردیا۔
اس بار یہ تعاقب بہت زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا۔ چند ہی لمحوں کے بعد گاڑی اس رہائشی کالونی سے متصل ایک بازار میں جاکر کھڑی ہوگئی ۔ پرانی والی لڑکی جب گاڑی سے اتری تو میں سمجھ گیا کہ پیسوں کی وجہ سے  اب دو کا معاملہ نہیں بن پایا ہے سو مولوی نے دوسری والی کو پسند کرکے اس پہلی والی کو اتار دیا ہے۔ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے میں نے جلدی سے جاکر گاڑی کے قریب میں اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر دی  اور اس مولوی کی طرف لپکا جو اس فاحشہ سے کچھ بات کر رہا تھا۔
جب میں ان دونوں کے قریب پہنچا تو وہ فاحشہ اس ٹھرکی مولوی سے کہہ رہی تھی کہ بھائی! میرے پاس پیسے نہیں ہیں کہ آپ کو دے سکوں اور اگر ہوتے بھی اور میں آپ کو دے بھی دیتی تو آپ کا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکتی تھی۔ رکشہ مل نہیں رہا تھا اور اگر اسے اب بھی یہاں ڈاکٹر کے پاس نہ لاتی تو اس کا بخار اور بڑھ جاتا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو دوسری لڑکی جو شکل سے اس پہلی کی بڑی بہن ہی لگ رہی تھی کاندھے سے ایک بچے کو لگائے دوڑتی ہوئی سامنے واقع ڈاکٹر کے کلینک کی سمت جارہی تھی۔

میں خود کو کوستے ہوئے واپس موٹر سائکل کی جانب بڑھ گیا۔ ادیب تو  معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔اور چونکہ وہ  معاشرے کی نفسیات دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے لہٰذا انسانی نفسیات کا سب سے بڑا عالم بھی ادیب ہی ہوتا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ بازاری عورت نرا وقت اور پیسے کا زیاں ہے۔ فالتو میں ایک لیٹر پیٹرول ضائع کروا دیا۔ لعنتی!

پیر، 5 ستمبر، 2016

امی کے نام ایک خط

نوٹ: میں اس تحریر کو چھاپنے کے حق میں نہیں تھا مگر ایک بہت قیمتی انسان کی رائے تھی کہ اس خط کو چھاپا جائے کہ شاید کسی کے کام آجائے!

پیاری امی!
آپ کی خیریت تو معلوم ہوتی ہی رہتی ہے مگر میں جانتی ہوں کہ آپ میرے بارے میں نہیں معلوم کرپاتیں  تو سوچا آج آپ کو خط لکھ کر اپنی خیریت سے آگاہ کردوں۔   میں یہاں بالکل بخیر ہوں۔ مرضی کی زندگی گزارتی ہوں۔ سونے جاگنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اٹھنے کھیلنے پر بھی کوئی نہیں ٹوکتا۔ میں جانتی ہوں کہ آپ چاہتی تھیں کہ دوسری ماؤں کی طرح آپ بھی کھانا لے کر میرے پیچھے پیچھے بھاگیں اور میں منہ بسورے آگے آگے دوڑتی رہوں مگر میں اس سے پہلے ہی یہاں پہنچ گئی ہوں جہاں مجھ پر کسی قسم کی کوئ  روک ٹو ک نہیں ہے! سنا ہے مائیں اولاد کی خوشی میں خوش رہتی ہیں خواہ وہ خوشی انہیں خود کتنی ہی تکلیف یا تھکن دے جاتی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تو آپ بھی میرے لئے بہت خوش ہوں گی نا؟
پیاری امی! میں جانتی ہوں کہ میں نے آنے میں جلدی کردی اور آپ یہ امی لفظ میرے منہ سے سننا چاہتی تھیں مگر سنا نہیں سکی تو سوچا پڑھا ہی دوں۔ خط بھی تو آدھی ملاقات ہی ہوتی ہے نا۔  آج باقی بچوں کے ساتھ بیٹھی کھیلتے کھیلتے مجھے ایک بار پھر آپ کی یاد آگئی تو سوچا کہ کھیلنے کو تو عمر پڑی ہے پہلے آپ سے مخاطب ہوجاؤں۔
پیاری امی! میرا آپ کا ساتھ بہت مختصر تھا۔ مگر مجھے یاد ہے کہ اس مختصر ساتھ میں بھی میں نے آپ کو بہت اذیت دی تھی۔ دن بھر مجھے اٹھائے گھومنے کے بعد جب آپ سونے لیٹتیں تو میرے جاگنے کا وقت ہو جاتا۔ دن کا چین اور رات کا آرام سب اکارت کر رکھا تھا میں نے مگر آپ چڑچڑاہٹ ہونے کے باوجود کبھی مجھ پر غصہ نہیں ہوتی تھیں۔ میرا غصہ سارا بابا پر نکلتا تھا اور اکثر اوقات تو آپ بابا پر بھی نہیں نکالتی تھیں۔ ضبط کر جاتی تھیں۔  مجھے آپ کی یہ ضبط کرنے کی عادت کبھی بھی پسند نہیں آئی تھی۔ وہ جو آپ کو لگتا تھا کہ میں کھیل میں لاتیں چلا رہی ہوں وہ دراصل میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہوتی تھی۔  مجھے سوچ سوچ کر غصہ آتا تھا کہ آپ اتنا کچھ کیسے برداشت کرلیتی تھیں۔  خیر وہ وقت بھی ان ہی سب ہلکی پھلکی باتوں میں گزر گیا۔ ہلکی پھلکی میرے لئے کہ میں تو اپنے سوئمنگ پول میں مزے سے تیرا کرتی تھی۔ اگر وہ وقت سخت تھا بھی تو آپ کے لئے تھا۔
وقت تیزی کے ساتھ گزرتا گیا اور  میری آپ کو دیکھنے کی خواہش دن بدن شدت اختیار کرتی چلی گئی۔  میں آپ کو سن سکتی تھی۔ آپ کی سوچوں کو محسوس کرسکتی تھی۔ مگر میں اب آپ کو چھونا چاہتی تھی۔ آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ آپ کے رحم سے نکل کر آپ کی آغوش میں آنا چاہتی تھی۔  اور جب وہ دن آیا جب میں آپ کو بالآخر دیکھ سکتی تو مجھے بتایا گیا کہ مجھے واپس وہیں جانا ہے جہاں سے میں آپ کے پاس بھیجی گئی ہوں۔
مجھے جب یہ خبر ملی تو  میں آپ کے لئے بہت پریشان تھی۔ آپ نے اتنا عرصہ مشقت کرکے مجھے پالا تھا۔ میں چھوٹی تھی مگر اتنا شعور رکھتی تھی کہ آپ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہیں۔ اتنی محبت جتنی کبھی آپ نے خود اپنے آپ سے بھی نہیں کی تھی۔ اتنی محبت جتنی کوئی بڑے سے بڑا ادیب بھی اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔
میں نے اپنے بنانے والے، آپ کے پاس مجھے بھیجنے والے، اور پھر مجھے آپ کے  پاس  سے واپس بلانے والے اللہ میاں سے پوچھا کہ میرے بعد آپ کا کیا ہوگا؟  انہوں نے کہا کہ آپ کو وہ میری جگہ کچھ اور دے دیں گے۔ اس دن مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ محبت یکطرفہ نہیں تھی۔ میں بھی آپ سے اتنی ہی محبت کرتی تھی۔ میری جگہ کسی اور کا آجانا مجھے اس وقت بہت برا محسوس ہورہا تھا۔ میں رو پڑی تھی۔ تب مجھے سمجھایا گیا کہ اب میری جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا۔ میرے بعد خواہ ایک ہو یا پانچ یا دس۔ سب سے پہلی اب صرف میں ہی کہلاؤں گی! میرے بعد والے سب اپنی جگہ اچھے ہوں گے مگر آپ کے دل میں میرے لئے جو جگہ ہے وہ کوئی نہیں لے سکے گا۔ میرے لئے یہ اطمینان بہت تھا۔ میں نے اپنے بنانے والے کے حکم پر سر جھکا دیا اور یہاں چلی آئی۔
پیاری امی! یہاں آنے کے بعد انہوں نے اپنے سارے وعدے پورے کردیئے۔ میں اچھے سے اچھا کھاتی ہوں۔ اچھے سے اچھا پہنتی ہوں۔ جو جی چاہتا ہے کرتی ہوں۔ میری عمر کے سارے بچے جب ریں ریں کر رہے ہوتے ہیں تو میں گنگناتی پھرتی ہوں۔ میں نے ان سے وعدہ لیا ہے کہ جب کبھی ہماری ملاقات ہوئی تو آپ کی اس تکلیف کے بدلے میں آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو اپنے ساتھ اس جگہ لے آؤں گی جہاں کوئی کبھی نہیں روتا۔ جہاں آپ کی خدمت پر ہر وقت لوگ مامور رہیں گے۔ جہاں آپ کے لئے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔  مگر امی! میرے یہ سب کرنے کے باوجود اور یہ تمام چیزیں ہوجانے کے باوجود میں خوش نہیں ہوں۔ یہاں اداس ہونے کا تصور نہیں ہے سو جب کوئی مجھے دیکھتا ہے تو حیران ہوجاتا ہے کہ میں یہاں آکر بھی اداس کیسے ہوسکتی ہوں؟ مگر امی! خود بتائیں کہ جب کبھی میں خدا سے درخواست کرکے آپ کا احوال معلوم کرتی ہوں اور مجھے ایک تھکی ہوئی، اداس، ٹوٹی ہوئی ماں دکھتی ہے تو میں کیسے مسکرا سکتی ہوں۔ آپ کو شاید آج بھی یہ احساس نہیں ہے کہ محبت یکطرفہ نہیں تھی۔ آپ کے آنسو اور آپ کی تکلیف بھی میرے لئے اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنی میری تکلیف آپ کے لئے تھی۔
والسلام

ہمیشہ کے لئے آپ کی بیٹی

جمعرات، 25 اگست، 2016

جنت مکانی اقبال جانی کی ڈائری - سوشل میڈیا

پیاری ڈائری،

پیکاچو کی تلاش کا احوال تو تم پچھلے ہفتے سن ہی چکی ہو تو آج جب تھوڑی فرصت میسر ہوئی تو سوچا باقی کی کہانی بھی مکتوب کر ہی دوں۔

بھئی ماجرہ کچھ یوں ہے کہ جب سے یہ انٹرنیٹ آٰیا ہے یہاں کا ماحول بھی عجیب ہوگیا ہے۔ پرسوں ہی کی بات ہے کہ ایلیا بھائی کے محل سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان کی بہتّر میں سے ایک نے غلطی سے فیس بک پرکسی  فراق کی کوئی غزل شیئر کر دی تھی۔ یہ خبر جب ایلیا کی نیوز فیڈ میں آئی تو یہ لگے اس حور کو لتاڑنے۔ اب وہ غریب لاکھ یقین دلائے کہ معاملہ یوں نہیں اور یوں ہے اور وہ فراق کو دو کوڑی کا شاعر نہیں مانتی مگر ایلیا بھائی کا اصرار تھا کہ اگر تو واقعی اپنے دعوے اور میری محبت میں سچی ہے تو ابھی اپنی رگ کاٹ کر دکھا تو میں مانوں! اُدھر وہ بھی تیش کھا کر چلارہی تھی کہ اول تو رگوں کا تصور نہیں اور جو ہوتی بھی تو کیا سچ میں کاٹ لیتی؟ آپ نے خود فرمائش کرکے فارحہ مانگی تھی۔ اب بھگتیں! بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ ہوا مگر شام گئے تک ایلیا نے اس پر بھی ایک بے وزنی غزل کہہ ڈالی اور گلی گلی دروازے بجا کر لوگوں کو سناتے پھرے۔ خیر یہ بھی خوب تماشہ رہا!

یہ تو ہوا فیس بک کا احوال، دوسری طرف کوئی موا انسٹا گرام کرکے بھی آگیا ہے۔  اپنی بیگم تو خیر ملکہ حسن بھی ہو تو بھی خوش شکل  نہیں لگ سکتی بلکہ جنوب کے ایک شاعر کے بقول، عورت کے خوبصورت ہونے کے لئے اس کا پرایا ہونا ضروری ہے تو ان کا کیا رونا مگر اچھی خاصی حورین اس انسٹا گرام کے چکر میں عجیب ہوگئی ہیں۔ کل پائیں باغ میں داخل ہوا تو ایک ٹیڑھے منہ والی عورت کو دیکھ کر ڈر ہی تو گیا۔چہرے کے بگڑے ہوئے نقوش دیکھ کر لگا کہ شاید بیگم صاحب ہیں مگر جب ان خاتون نے منہ سیدھا کیا تو پہچانا کہ یہ تو چونسٹھویں ہیں۔ پوچھا کہ خدا نخواستہ یہاں بھی مرگی کا مرض موجود ہے تو شرم سے دوہری ہوتے ہوئے گویا ہوئیں کہ انسٹا پر سیلفی ڈالنی تھی۔ یا للعجب!

خیر یہ سب گفتگو تو برسبیل تذکرہ تھی۔ اصل ماجرہ تو اس ٹوئیٹر کا تھا۔ بھئی یہ ٹوئیٹر بھی کوئی کمال کی چیز ہے۔ گھنٹوں مجمعے کو مسحور کرکے تقاریر کرنے والے اب بیٹھ کر شکل دیکھتے ہیں اور گھرمیں اپنے کمرے سے باہر بھی پہچانے نہ جانے والے احباب اب سلیبرٹی کہلاتے ہیں۔ ابھی کل  ہی کی بات ہے کہ مغرب کے بعد مغربی محلے میں وہ تیسری والی مشہور مغربی چیز کی محفل جمی  ہوئی تھی کہ محمد علی صاحب بیٹھے بیٹھے آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے اداسی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ کل میں نے چودہ نکات ٹوئیٹ کئے تھے۔ چودہ ریٹوئیٹ بھی نہیں ملیں۔ بعد میں وہی ٹوئیٹ فاطمہ نے اپنے اکاؤنٹ سے کریں تو تین گھنٹے میں تین سو ریٹوئیٹ اور چار سو فیورٹ مل گئے۔ بات واقعی افسوس کی تھی سو سب نے مل کر تسلی دینے کی کوشش کی۔ رحمت علی البتہ بیٹھے ہوئے منہ دبا کر ہنستے رہے۔ محمد علی کی نظر پڑی تو چڑ کر اس ہنسی کی پوچھ بیٹھے۔ رحمت علی پہلے تو پہلو دیتے رہے مگر بالآخر بول پڑے کہ دوسروں کا کیا شکوہ؟ خود آپ نے جس بڑے گلے والی رتی کی آئی ڈی پرسوں فالو کی تھی اور اس کے بعد سے ہی مسلسل ڈائریکٹ میسج کی ریکویسٹ بھیج رہے ہیں وہ خاکسار کی ہی ہے! اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سمجھ داروں کے لئے نشانِ عبرت ہے۔

بس اس واقعے کے بعد سے سمجھوسوشل میڈیا سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہے۔ سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں کہ جن حوروں کو ہم غزلیں سناتے رہے اگر کبھی وہ بھی غلماں نکلے تو  ۔۔۔  رہے نام اللہ کا!


محمد اقبال 

پیر، 22 اگست، 2016

ورثہ

کتنی بار سمجھایا ہے تم لوگوں کو کہ یہ کھیلنے کی چیزیں نہیں ہیں! ابا کی دھاڑ صحن میں گونجی اور ہم سب بچے سراسیمہ ہوکر اماں کے کمرے کی طرف دوڑ گئے۔ ابا ویسے تو ٹھیک ٹھاک ہی تھے اور باقیوں کے ابو کے مقابلے میں کم ہی ٖغصہ کرتے تھے مگر اپنی اماں کے جہیز کے ان پیتل کے برتنوں میں تو مانو ان کی جان چھپی ہوئی تھی۔  یہ برتنوں کا پورا سیٹ  ہماری دادی کے خاندان میں خدا جانے کب سے چلا آرہا تھا اور ان کو ان کی اماں نے رخصتی پر دیا تھا ۔ پہلے دادی نے اسے سنبھال کر رکھا ہوا تھا اور اب ان کے گزرنے کے بعد سے ابا نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا لی تھی۔ 

نئے زمانے تھے اور پیتل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں سو پیتل کے برتن مکمل متروک ہوچکے تھے۔ ان برتنوں کے متروک ہونے کی وجہ سے ان کے قلعی کرنے والے بھی ناپید ہوچکے تھے اور ہمارے اسٹور روم میں سجے ہوئے وہ ظروف بھی سال خوردگی کے کارن نوادرات لگتے  تھے۔ فطر ی طور پر ہر وہ چیز جس سے روکا جائے وہ بچوں کی محبوب ہوتی ہے سو یہی معاملہ ان برتنوں کا بھی تھا۔  ہمیں جب کبھی موقع ملتا ہم ان برتنوں کو سٹور سے نکال لاتے اور صحن میں سجا کر میوزیم میوزیم کھیلا کرتے تھے۔ عام طور پر یہ وقت دوپہر کا ہی ہوتا کہ دن بھر کی تھکن کے بعد اماں اپنی کمر سیدھی کر رہی ہوتی تھیں اور ہم بچوں کی عیاشی ہوجاتی تھی۔ البتہ کسی دن  قسمت خراب  بھی ہوتی اور ابا جلدی گھر آجاتے  اور پھر ایک آدھ گھنٹے تک وہ بڑبڑاتے اور اماں کو صلواتیں سناتے رہتے تھے کہ جن سے تین بچے نہیں سنبھلتے تھے۔
آج برسوں بعد وہ مناظر پھر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے کیونکہ آج برسوں بعد وہی ظروف ایک بار پھر ہمارے دالان میں سجے ہوئے تھے اور اس بار انہیں سٹور سے نکالنے کی گستاخی کرنے والا کوئی اور نہیں خود ابا تھے۔

معاملہ کچھ یوں تھا  کہ میں یونیورسٹی سے فارغ ہوچکی تھی اور آنے والے رشتوں میں سے ایک امی ابو کو پسند
 بھی آگیا تھا اور وہاں میری بات پکی کر دی گئی تھی۔ لڑکا پڑھا لکھا تھا۔ اچھی نوکری تھی اور خاندانی لوگ تھے۔ بقول ابا کے، میرے لئے اس سے بہتر کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔  خیر اس جملے کا کیا کہ یہ جملہ تو میرے ملک کی تقریبا ہر مطلقہ نے بھی اپنی شادی کے وقت ضرور سن رکھا ہوتا ہے کیونکہ یہ جملہ والدین اولاد سے زیادہ خود کو تسلی دینے کے لئے  کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اور انہیں اس تسلی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ بچپن سے جب لڑکی کو محض لڑکی بنا کر پالا جائے تو بڑے ہوکر اسے یہ یقین دلانا کہ وہ محض لڑکی نہیں بلکہ انسان بھی ہے بہت دشوار ہوتا ہے۔پھر وہ ساری عمر کے لئے محض ایک لڑکی ہی ہوتی ہے۔ اور پھر  جس معاشرے میں لڑکی کو سراہنے کا مطلب اسے "بلاوجہ سر چڑاھنا " قرار دے دیا جائے تو پھر اس غریب کی زندگی میں آنے والا ارذل ترین مرد بھی جب اسے مصنوعی ہی سہی، اگر عزت دیتا ہے، اسے سراہتا ہے ، تو وہ غریب اسے دنیا کا سب سے مخلص انسان سمجھ بیٹھتی ہے۔ سب کچھ اسے سونپنے پر تیار ہوجاتی ہے۔ گویا کہ وہ دکاندار جو اپنے مال سے اس قدر مایوس ہوچکا ہو کہ جب رات گئے کوئی بھولا بھٹکا نشئی بھی بھٹکتا ہوا اس کی دکان پر آ نکلے تو وہ دکاندار محض اپنا نقصان کم کرنے کے لئے اپنا قیمتی ترین سامان، قیمت خرید سے بھی کم داموں میں بیچ دینے کو تیار ہوجائے۔اور لاکھ تعلیم یافتہ سہی مگر بہرحال  میں بھی اس ہی معاشرے میں رہنے والی  ایک لڑکی تھی سو اگر ایک لڑکا عمر بھر کے لئے  میری ذمہ داری اٹھانے پر راضی تھا تو اس اسے بہتر کوئی انسان میرے لئے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

 میں دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی مگر دونوں بھائی ابھی چھوٹے تھے اور کما نہیں رہے تھے۔ شادی کے تمام اخراجات کا بار ابا کے کاندھوں پر تھا  اور وہ اپنے حساب سے جس حد تک ہوسکتا تھا تیاریوں میں مصروف تھے۔ اکلوتی لڑکی ہونے کی وجہ سے انہیں معلوم تھا کہ یہ خرچہ دوبارہ پلٹ کر نہیں آنا سو انہوں نے ماتھے پر بل ڈالے بغیر ساری جمع پونجی میری شادی کی تیاریوں پر لگا دی تھی۔ متوسط طبقے کا گھرانہ تھا سو اماں کا زیور بکنے کے بعد اور دیگر جمع پونجی ملا کر بھی ناکافی ثابت ہوئی تھی اور ابا کو چند دوستوں سے ادھاربھی  لینا پڑ گیا تھا مگر وہ پھر بھی مطمئن تھے کہ میں رخصت ہوکر اچھے گھر میں جارہی ہوں۔

ان کا یہ اطمینان مگر عارضی ثابت ہوا تھا کیونکہ جس دن جہیز کا سامان پہنچا کر وہ وواپس آئے تو ان کا منہ تفکرات کی دکان بنا ہوا تھا۔ میرے ہونے والے سسر نے انہیں بہت رسان سے سمجھادیا تھا کہ ان کا زمانہ اور تھا مگر اب نئے زمانے کے نئے تقاضے ہیں۔ وہ مانگ تو نہیں رہے مگر آنے والی بہو رکشہ ٹیکسیوں میں گھومتی اچھی نہیں لگے گی اور ویسے بھی لڑکا انجینئر ہے سو بعد میں تو اپنی گاڑی خرید ہی لے گا مگر تب تک بیچاری بہو کہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتی پھرے گی؟ آپ نے اتنا تام جھام بلا وجہ کرلیا حالانکہ ہم لوگ تو جہیز کو لعنت سمجھتے ہیں اس لئے ہم نے آپ سے کوئی مانگ بھی نہیں کی تھی۔ گاڑی کا معاملہ بھی اس لئے اٹھا رہے ہیں کہ یہ آپ کی اپنی بیٹی کی خوشی اور آرام کا معاملہ ہے۔ بھئی ہم نے تو پورے خاندان کو بتا دیا ہے کہ خیر سے بہو اونچے گھرانے سے ہے اور اس نے نہایت محبت کرنے والے والدین پائے ہیں سو اب تو یہ عزت کا معاملہ ہوگیا ہے۔ تین دن بعد نکاح ہے۔ کوئی اچھی سی گاڑی دیکھ لیں۔ اور آپ کو تو ہماری فطرت کا پتہ ہے۔ کم پہ راضی ہوجانے والے لوگ ہیں۔ چھوٹی گاڑی بھی چلے گی! وہ تو یہ کہہ کر ابا سے ہاتھ ملا اور گھر کے اندر چلے گئے مگر ابا پر پریشانیوں کے پہاڑ توڑ گئے۔

جمع پونجی پہلے ہی لگ چکی تھی۔ اماں کا زیور بک چکا تھا۔  ادھار دینے والوں کی بھی ایک سکت ہوتی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی  گاڑی بھی کم از کم چھ لاکھ روپے کی آتی۔ اتنے پیسے مزید ادھار کس سے لیتے؟ ابا پہلے تو گھر آکر کمرا بند کرکے بیٹھ رہے پھر ان کے دماغ میں ان برتنوں کا خیال آگیا۔ ابا کے ایک خالہ زاد بھائی نوادرات کا کام کرتے تھے اور مدت سے ابا کے پیچھے پڑے تھے کہ وہ ظروف انہیں بیچ دیئے جائیں مگر ابا اس بارے میں ایک لفظ بھی سننے کے روادار نہیں تھے۔ مجبوری کا نام شکریہ سو آج ابا نے انہیں فون کرکے گھر بلا لیا تھا۔ تین لاکھ روپے نقد بطور ان برتنوں کی قیمت اور گاڑی کے لئے درکار باقی تین لاکھ روپے بطور ادھار دینے کے عوض ان برتنوں کا سودا ہوگیا تھا۔

میں صحن سے گزری تو دیکھا ابا اپنے رومال سے رگڑ کر ایک ایک برتن کو صاف کر رہے تھے۔ خدا جانے کب
 سے ضبط کئے بیٹھے تھے مگر مجھے دیکھ کر ان کا ضبط ٹوٹ گیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ انہوں نے فورا منہ پھیر لیا۔ وہ میرے سامنے کمزور نہیں دکھنا چاہتے تھے۔ خود میں بھی وہاں انہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی تھی لہذا دوڑتی ہوئی کمرے میں گھس کر اماں کی گود میں منہ دے دیا اور پھوٹ بہی۔ اماں سب ماجرا جانتی تھیں سو انہوں نے خاموشی سے میرے بالوں کو سہلانا شروع کردیا۔

جب تھوڑی دیر رو چکنے کے بعد میرا دل ہلکا ہوگیا تو میں نے گود سے سر اٹھا کر اماں سے پوچھا کہ وہ ابا کو روکتی کیوں نہیں ہیں؟ وہ تو جانتی ہیں کہ ان برتنوں میں ابا کی جان چھپی ہے! ان کے بغیر وہ آدھے ہوجائیں گے! یہ ان کی ماں کی نشانی ہیں! میرے جہیز میں اتنا کچھ تو جا ہی چکا ہے سو اب مزید دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ابا کو سمجھاتی کیوں نہیں ہیں کہ وہ لڑکے والوں سے بات کریں؟ ہم بیٹی دے رہے ہیں یا بیٹا خرید رہے ہیں؟ اور اگر آج ہم یہ سب کچھ دے کر ان کا بیٹا خرید بھی رہے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ وقت کے ساتھ ہمیں مزید قیمت نہیں چکانی پڑے گی؟ آج تو یہ برتن بک رہے ہیں کل تو بیچنے کو بھی کچھ نہیں بچے گا ماں! آپ ابا کو کچھ سمجھاتی کیوں نہیں ہیں آخر؟ آپ تو خود ایک عورت ہیں؟ آپ جہیز جیسی اس لعنت پر خاموش کیسے ہیں؟ بولیں امی؟

اماں نے اپنی آنکھ میں آنے والے آنسو کو انگلی سے جھٹکا اور سفاکی سے گویا ہوئیں، بیٹا! میں آج تک اپنی شادی پر ہونے والی اپنے باپ کی حالت نہیں بھولی! تمہارے باپ کو  کیسے سمجھاؤں؟ کیا سمجھاؤں؟ خود بتاؤ!


جمعرات، 11 اگست، 2016

جنت مکانی؛ اقبال جانی کی ڈائری سے اقتباسات

ارے میاں ڈائری! تم بھی کیا سوچتی ہوگی کہ آج میں خود قلم اٹھا کر کیسے آگیا تو بھائی بات دراصل  یہ ہے کہ مجھے خود لکھنے کی عادت نہیں ہے۔ ہمیشہ کوئی خدمت گزار موجود ہوتا تھا کہ ہم کہتے جاتے تھے اور وہ لکھتے جاتے تھے۔ اب یہاں کے خدمت گار یا تو عربی بولتے   ہیں یا فارسی! ہم نے  ایک بار سمجھانے کی کوشش کی کہ میاں اردو بولا کرو کہ تمہاری اپنی زبان ہے تو عربی والوں نے فارسی والوں کے ساتھ مل کر ہمیں پاگل خانے بھجوانے کا منصوبہ بنا لیا کہ اپنی زبان کا استعمال نہ کرنا وہ واحد چیز ہے جس پر دونوں ازل سے متحد ہیں۔

کل  بہرحال ایک مجبوری آن پڑی تھی سو دل کڑا کر کے ایک بھائی صاحب سے درخواست کردی کہ ہمارے ایک عزیز کے نام مبارک بادی رقعہ لکھ دیں کہ جن کے ہاں ایک سگڑ پوتا پیدا ہوا تھا۔  الفاظ ہمارے تھے مگر تحریر ان کی۔ جن صاحب کے نام یہ رقعہ تھا وہ زرا جنگ و ہتھیار وغیرہم کے شوقین تھے  اور ہم علامہ بلاوجہ تو مشہور نہیں سو ہم نے بھی شاعرانہ تشبیہ استعمال کی اور لکھوا بھیجا کہ خدا کرے آپ کے ہاں آنے والا یہ نیا آبدار خنجر آپ کے دشمنوں کے سینوں میں ہمیشہ پیوست رہے۔ ملاحظہ تو کیجئے کہ کیا شاندار جملہ تراشا تھا۔ بنا پیئے محض اس جملے کے نشے میں گھنٹوں جھومتے رہے۔  اتفاق سے بیگم بھی خلد مکانی ہیں سو ان کے سیر سے واپس آنے کا وقت ہوا تو حواس بحال ہوئے اور فورا ہوش میں آگئے کہ اتفاق سے ایک حور بھی کہیں سے دو جرے پی کر آگئی تھی اور ہم دونوں کا بیگم صاحب کی غیر موجودگی  میں بیک وقت مدہوش ہونا ، رہے نام اللہ کا! سوچ کر روح کانپ جاتی ہے! خیرخدا  خدا کر کے دوپہر کو وہ رقعہ ان صاحب کو پہنچایا اور اس خط کے پڑھتے ہی وہ  الٹا برس پڑے اور لگے کوسنے دینے کہ میرے سگڑ پوتے نے آپ کا کیا بگاڑا ہے جو آپ نے اسے یوں گالی دی؟َ تحقیق پر معلوم ہوا کہ کاتب صاحب چونکہ پاکستان سے تھے اور نووارد تھے سو اردو لکھنا تو جانتے تھے مگر انگریزی میں! خنجر لکھتے ہوئے ایک ایچ لگانا بھول گئے اور ہمارا گریبان پکڑا گیا۔ پکڑے جاتے ہیں گدھوں کے لکھے پر ناحق!
خیر یہ تو غیر ضروری تفصیلات تھیں مگر لکھنے بیٹھا تو بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ میرے ساتھ اکثر یہی ہوتا ہے۔ کل محمد علی بھی اسی  بات پر 
جھنجھلا کر بولے کہ علامہ صاحب آپ واپس فیس بک پر کیوں نہیں چلے جاتے؟  یہ ٹوئیٹر آپ کے بس کا روگ نہیں ہے! افوہ! میں تو بتانا ہی بھول گیا کہ ایدھی صاحب کے آنے پر یہاں ایک ہیش ٹیگ آئی ایم ایدھی کا بڑا چرچا رہا تھا اور تین چار احباب کی فرمائش پر دنیاوی سوشل میڈیا  اور موبائل فون وغیرہ یہاں بھی فراہم کردیئے گئے ہیں۔ یقین جانو ان چیزوں کے آنے کے بعد سے یہاں کا نقشہ ہی بدل گیا۔ کل پاکستان کے حالات کے اوپر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا  جس میں صرف چند خاص احباب  مدعو تھے۔ ابھی میٹنگ شروع ہی ہوئی تھی کہ کمرے میں ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ کالے گورے بھورے ہر طرح کے لوگ۔ امریکی،  چینی، سعودی اور ایرانیوں کی تو خیر تھی مگر  ماتھا اس وقت ٹھنکا جب مشہور ہندوستانی بھی کمرے میں داخل ہوئے ۔ لیاقت علی نے مکے لہرا لہرا کر سب کو یاد دلایا کہ یہاں پاکستان کے حوالے سے اجلاس جاری ہے اور تمام غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ عبدالرب نے اپنے اوپر اوندھے ہوتے ہندوستانی کو سیدھا کیا اور اس سے پوچھ بیٹھے کہ یہاں کیا کر رہا ہے تو اس نے موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا پیکاچو ڈھونڈ رہا ہوں۔ خود بتاؤ؟

کہنے کو بہت سی باتیں موجود ہیں مگر فی الوقت زرا جلدی میں ہوں۔ زیادہ دیر کمرے کا دروازہ بند رہے تو بیگم صاحب کو شک ہونے لگتا ہے۔ کل اس ٹوئیٹر کی کہانی بھی بیان کروں گا۔ تب تک کے لئے اجازت!

والسلام


محمد اقبال

جمعہ، 5 اگست، 2016

ڈیڑھ عشقیہ

شیشے کے سامنے کھڑی وہ اپنی خوبصورت اور دراز زلفوں کو سنوارتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اپنے سراپے کا جائزہ بھی لے رہی تھی۔ خود کو اوپر سے نیچے تک دیکھ کر ایک  عجیب سی مسکان اس کے ہونٹوں پر دوڑ گئی۔ فخریہ مسکان، مگر وہ فخر جو بے پناہ تھکن کے بعد آیا ہو۔
کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو آج سے تین سال پہلے تک اپنے شدید موٹاپے کی وجہ سے محض بطورِ لطیفہ یاد کی جاتی تھی۔ مگر پھر ایک دن وہ بیمار پڑی اور ایسی پڑی کہ پھر اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ بیماری کہنے کو جان لیوا تھی مگر اسے ایک نئی زندگی عطا کرگئی تھی۔ علاج کے دوران وہ مانو گھلنا شروع ہوگئی اور جب دو سال کے تھکا دینے والے علاج کے بعد بیماری رخصت ہوئی تو جاتے ہوئے اس کے جسم پر موجود فاضل گوشت اور چکنائی سب ساتھ لے گئی۔ گئے زمانے میں اس حالت کو کو ہڈیوں کا ڈھانچہ  ہونا کہا جاتا تھا  مگر  اب سائز زیرو کی اصطلاح آنے کے بعد وہ اب جہاں بھی جاتی مرکز نگاہ بن جاتی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ خدا نے اسے شاندار نین نقش سے بھی نواز رکھا تھا اور اس توجہی کی وجہ محض اس کی نزاکت  نہیں تھی مگر یہی نین نقش جب موٹاپے کی چربی کے پیچھے موجود تھے تو کوئی انہیں سراہنا تو درکنار دیکھنے تک کا روادار نہیں تھا۔
بیماری سے فراغت کے بعد کچھ ماہ تو وہ گھر پر ہی آرام کرتی رہی مگر وہ سالوں سے  گھر پر بیٹھے بیٹھے زچ ہوچکی تھی۔ وہ ابھی جوان تھی۔ پڑھی لکھی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ضائع کر رہی ہے۔ اب جب ڈاکٹر نے بھی اسے کام کرنے کی اجازت دے دی تھی تو وہ مزید گھر میں رہ کر بستر توڑ نا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے گھر والوں کو قائل کرکے ایک دفتر جوائن کرلیا تھا۔ باپ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ابھی اسے مزید آرام کرنا چاہئے تو اس نے انہیں یہ کہہ کر قائل کرلیا تھا کہ وہ کون سا پتھر توڑنے کی نوکری کرنے جارہی ہے؟ دن بھر دفتر میں ایئر کنڈیشنر میں بیٹھ کر ہی تو کام کرنا ہے! باپ اس کے کام کرنے پر خورسند تو نہیں تھا مگر اس کی خوشی کے لئے مجبورا راضی ہوگیا اور اللہ کے حکم سے جلد ہی اسے نوکری بھی مل گئی سو اس نے دفتر جانا شروع کردیا۔
اس کے دفتر کے کنوارے ساتھیوں کے نزدیک وہ کمپنی کے قیام کے بعد سے اب تک کمپنی کی جانب سے کیا گیا سب سے اچھا فیصلہ تھی۔  اس کے آنے کے بعد سے دفتر کے مردوں کو اچانک سے خیال آگیا تھا کہ ان کے دفتری ملبوسات کتنے پرانے فیشن کے ہیں۔ پرفیوم کا کون سا برانڈ سب سے بہتر ہے اس کے اوپر باقاعدہ بحث ہونے لگی۔ کھانے کے وقفے میں شاید سب ہی گھر کے لائے ٹفن کو لعنت بھیج کر باہر کھانا شروع کردیتے مگر غنیمت تھا کہ بیماری نے  اس کی بھوک اڑا دی تھی سو وہ لنچ بریک میں اپنی نشست پر ہی رہتی یا خواتین کے لئے مخصوص کمرے میں جاکر دو کرسیاں جوڑتی اور دراز ہوجاتی۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ دفتر کے مردوں کی ان سب حرکات سے ناواقف تھی۔ چوبیس سال بھگتنے والی بے اعتنائی نے اسے التفات کا مطلب بہت اچھی طرح سکھا دیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ لوگ یہ سب اس کی توجہ پانے کے لئے کر رہے ہیں مگر وہ کسی بھی پیش قدمی سے ڈرتی تھی۔  اسے لگتا تھا کہ جس دن وہ لوگ اس کی اصلیت اور اس کی بیماری کے بارے میں جانیں گے تو یہ سب پیچھے ہٹ جائیں گے۔ وہ اس ٹھکرائے جانے کی تکلیف سے بچنا چاہتی تھی۔  وہ سب سے مسکرا کر بات کرتی مگر کسی کو اپنی مسکراہٹ سے رضامندی کا مطلب نکالنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
کہتے ہیں کہ ایک ہی چوکھٹ پر مسلسل سجدہ کرنے سے پتھر ٹوٹے نہ ٹوٹے، سر میں درد ضرور ہوجاتا ہے۔ اس کے دفتر کے ساتھیوں نے جب اس دردِ سر کو محسوس کیا تو وہ ایک ایک کرکے پیچھے ہونا شروع ہوگئے۔ اور ان کے اس طرح پیچھے ہٹنے پر اسے نہ کوئی شکایت تھی نہ گلہ۔ وہ مطمئن تھی کہ اس نے کسی کو کوئی امید نہیں دلائی تھی اورنہ  خود کسی کے دیے گئے محبت کے فریب میں گرفتار ہوئی تھی۔ ایک بات اسے البتہ اب بھی پریشان کرتی تھی کہ سب کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد بھی ان میں سے ایک ابھی تک اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا تھا۔  اور وہ اپنے ارادے میں اتنا اٹل تھا کہ باقیوں کے برعکس ، نتائج سے بے پرواہ ہو کر باقاعدہ محبت کا اظہار بھی کر چکا تھا۔  اس کے اس اظہار پر اس نے اسے نرمی سے ٹال دیا تھا مگر وہ باز نہیں آیا تھا۔
جب مہینے گزرنے کے بعد بھی اس کی روش میں تبدیلی نہیں آئی تو آج اس نے اسے بٹھا کر سمجھانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ مدت سے مصر تھا کہ یہ اس کے ساتھ کھانے پر باہر چلے تو اس نے آج رات کھانے پر ملنے کی حامی بھر لی۔ اس وقت وہ اس سے ملاقات کے لئے ہی تیار ہونے شیشے کے سامنے کھڑی تھی۔ لباس پر ایک ناقدانہ نظر ڈالنے کے بعد اس نے جلدی جلدی کاجل سے بھنووں کو ایک فائنل ٹچ دیا اور پرس اٹھا کر باہر نکل گئی۔ جہاں وہ اپنی گاڑی میں اس کا منتظر تھا۔
شہر کے مشہور ریستوران میں اس نے ان دونوں کے لئے ایک کونا مخصوص کروا لیا تھا تاکہ وہ اس حسینہ کے ساتھ سکون اور تنہائی میں وقت گزار سکے۔ راستے بھر اور پھر کھانا کھانے تک وہ دونوں ادھر ادھر کی خوش گپیاں کرتے رہے۔ کھانے سے فراغت کے بعد جب اس نے دوبارہ ان دونوں کی شادی کا موضوع چھیڑا تو اس نے لگی لپٹی رکھے بغیر اسے اپنی بیماری اور اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ اس کی بات سن کر پہلے تو وہ تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں رہا مگر پھر گویا ہوا کہ وہ جانتا ہے کہ اس نے یہ بھنویں کاجل سے بنا رکھی ہیں اور اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  اس کا موٹاپا، دنیا کا اس کو ٹھکرانا وغیرہ سب ماضی کی باتیں ہیں اور اس ماضی کی وجہ سے وہ حال کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔  اس نے ایک ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی زلفوں کو سہلاتے ہوئے گویا ہوا، جسم ویسے بھی عمر کے ساتھ ڈھل جاتا ہے۔ سچ کہوں تو میں تمہاری زلفوں کی وجہ سے ہی تمہارا دیوانہ ہوا تھا مگر وقت کے ساتھ جب یہ بال اپنی چمک کھو دیں گے اور سفید ہوجائیں گے تو تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟ خود تمہاری زلفوں  ہی کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اس کی یہ بات سن کر اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔ جذبات کی شدت میں اس نے اپنے بالوں کے سہلاتے اس ہاتھ کو چوم لیا اور اپنے سر پر سے وہ شاندار وگ اتار کر برابر میں موجود خالی کرسی پر رکھی اور آنکھیں بند کر کے کر کرسی  کی پشت پر گردن ٹکا دی۔ اس کا بدترین خوف غلط ثابت ہوگیا تھا۔

یہاں تک پہنچ کر میں نے بہت کوشش کی مگر ابلنے والے قہقہوں کا طوفان روکنا مشکل ہی نہیں، ناممکن تھا۔ میں نے قلم اٹھا کر دیوار پر مارا اور ہنستے ہنستے زمین پر لوٹ گیا۔دنیا سچ کہتی تھی، میں واقعی محبت کے موضوع پر نہیں لکھ سکتا۔

اتوار، 31 جولائی، 2016

اڑان

سڑک کے اس پار کھڑا وہ خشمگیں نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔  میں جانتا تھا کہ اس کی نظریں میرے ساتھ موجود میری بیٹی پر تھیں۔  ہاں میں مانتا ہوں کہ وہ میری سگی بیٹی نہیں تھی اور اس نے ہی اسے میرے حوالے کیا تھا کہ میں اس کا خیال رکھ سکوں ۔ وہ ایک سرکاری ہرکارہ تھا جو توجہ طلب بچوں کو ایسے گھرانوں میں بھیجتا تھا جو ان کا خیال رکھ سکیں۔ سرکار اسے اس کام کی تنخواہ اور ایسے بچوں کو رکھنے والوں کو اس کا محنتانہ دیتی تھی۔ مگر گزشتہ برسوں میں اس بچی کے ساتھ میرا تعلق اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ میں مکمل طور پر بھول بیٹھا کہ وہ میرے پاس بطور امانت رکھوائی گئی تھی۔ میں یہ کیسے بھول سکتا تھا کہ کس طرح اس ننھی پری نے آ کر میری زندگی کو مکمل کیا تھا۔  میری بے کار اور بد رنگ زیست کو ایک مقصد اور یہ خوشنما رنگ دیے تھے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ میں نے اس کی ذمہ داری محض اس لالچ میں قبول کی تھی کہ میں اس سے پہلے  گود لئے گئے بچوں کی طرح ایک دو ماہ اسے اپنے پاس رکھ کر اس کا محنتانہ وصول کروں گا مگر جب وقت مقررہ کے بعد اس کے جانے کا وقت آیا تو پہلی مرتبہ میرا دل شدید پسیج گیا تھا۔ میں نے  اپنے تمام تعلقات اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس بچی کو اپنے پاس رکوا لیا تھا۔ اپنے تئیں ہمیشہ کے لئے! بیچ میں ایک مرتبہ وہ اسے ایک ماہ کے لئے لے گیا تھا مگر اس ایک ماہ میں خود اس بچی کے واویلوں اور میری پیہم درخواست پر اس نے اس بچی کو واپس میرے حوالے کردیا تھا۔ جب تک وہ خود ذمہ دار نہیں ہوجاتی تب تک کے لئے اس کے ذمہ داری میرے نام لکھ دی گئی تھی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ کیسے میں اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے ناچتا ہوا گھر آیا تھا۔ مجھے اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا کہ محنتانہ ملنا تو درکنار، الٹا مجھے اب اسے اپنے ساتھ رکھنے کی روازنہ کی بنیاد پر قیمت ادا کرنی تھی ۔ میرے لئے یہی بہت تھا کہ وہ میرے ساتھ تھی۔ میرے پاس تھی۔ میری بیٹی تھی۔ میری تھی۔ ہاں ٹھیک ہے کہ اس کی زندگی کے فیصلے اس نے اب بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھے تھے اور اس کی زندگی میں کیا ہونا ہے یہ وہی طے کرتا تھا مگر روزمرہ کی چھوٹی موٹی تمام چیزیں میں اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر خود طے کرتا تھا اور یہی میرے لئے بہت تھا۔
 وقت کی سب سے اچھی اور سب سے بری بات ایک ہی ہے۔ یہ گزر جاتا ہے۔ اس بات کو کہنے کو سال گزر گئے تھے مگر سوچو تو کل کا ہی واقعہ لگتا ہے۔ یقین مانو تو میں تو اس بات کو سرے سے بھول ہی چکا ہوتامگر وہ مجھے یاد دلانا نہیں بھولتا تھا۔ ہر کچھ دن بعد وہ کسی غریب بچے کا ہاتھ پکڑ کر میرے دروازے پر کھڑا ہوتا تھا ۔ نت نئے بہانوں سے مجھے میرے ماضی کی طرف گھسیٹتا۔  مزید بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی ترغیب دیتا۔میرے نہ ماننے پر پیسوں کا لالچ دیتا۔ اور جب کوئی چیز اثر نہیں کرتی تو ہر بار میرے منہ پر سیاہی مل کر دوڑ جاتا۔ میں جانتا تھا کہ وہ طاقتور تھا سو میں اس سے بگاڑ نہیں سکتا تھا۔ مجبوری میں سب کچھ برداشت کرنا پڑتا۔ کیوں نہ کرتا؟ اگر وہ طاقتور نہ بھی ہوتا تو بھی میری بیٹی اس ہی کی دی ہوئی تھی اور وہ چاہتا تو ہمارے معاہدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی اسے واپس لے سکتا تھا۔ میں اس سے کیسے لڑسکتا تھا؟
گزشتہ کئی ماہ سے اس نے آنا چھوڑ دیا تھا تو میں بھی کچھ مطمئن ہوگیا تھا۔ زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی ۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ میری بیٹی بڑی ہورہی ہے۔اب وہ زندگی کو خود سے پرکھنا چاہتی تھی۔ خود کو پرکھنا چاہتی تھی۔ میں اس کے لئے بہت خوش ہوا تھا۔میں اس دن کو یاد کرتا جب وہ میرے پاس آئی تھی اور پھر آج کی اس لڑکی کو دیکھتا تو مانو میرا سینہ گز بھر کا ہوجاتا تھا۔ مگر جیسا میں نے کہا کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا سو اس دن بھی جب وہ میرے ساتھ چلتے ہوئے مجھ سے بڑے قدم اٹھا کر مڑ مڑ کر مجھے ہنستے ہوئے دکھا رہی تھی کہ کس طرح وہ اب میرے نقش قدم سے بڑھ کر خود قدم اٹھا سکتی ہے تو تب ہی میری نظر اس پر پڑی تھی۔ وہی سرکاری کارندہ ایک کافی شاپ میں بیٹھا ، شیشے سے باہر ہم دونوں کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ہماری نظریں ملیں تو اس نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے میری بیٹی کی طرف اشارہ کیا اور ایک مسکراہٹ میری سمت اچھال دی۔ میں اس مسکراہٹ کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکتا تھا سو میں نے جلدی سے اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام لیا اور اسے تقریبا گھسیٹتا ہوا وہاں سے لے آیا۔ میں محسوس کرسکتا تھا کہ اسے میری یہ حرکت قطعا پسند نہیں آئی تھی مگر میرا لحاظ کرتے ہوئے وہ خاموش ہوگئی۔
اس دن کے بعد سے تو یہ معمول ہی بن گیا۔ ہم دونوں جہاں کہیں بھی جاتے وہ وہاں پہنچ جاتا۔ مجھے دیکھ کر دانت نکوستا۔ میں زندگی میں کبھی اتنا بزدل نہیں رہا مگر اس وقت خوف کے مارے میری روح تک کانپ جاتی اور میں گھبرا کر بیٹی کا ہاتھ تھام لیتا۔ خود کو تسلی دینے کے لئے کہ وہ میرے ساتھ موجود ہے اور کوئی اسے مجھ سے جدا نہیں کرسکتا۔
آج جب میں نے اسے سڑک کے اس پار دیکھا تو پہلے تو میں نے سوچا کہ بیٹی کو منع کردوں کہ ہمیں سڑک کے اس پار نہیں جانا چاہیے مگر میں جانتا تھا کہ وہاں اس کا جانا ضروری تھا سو میں نے بادل نخواستہ اس کے ساتھ چلنا شروع کردیا۔ حسب معمول سڑک پار کرتے ہوئے میں نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ سڑک پار کرکے جیسے ہی ہم فٹ پاتھ پر پہنچے تو اس سے پہلے کہ میں اس کا ہاتھ چھوڑنے کا سوچتا اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بول اٹھی، بابا! میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں مگر میں اس محبت کے بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے تھک چکی ہوں۔ آپ کی محبت کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ میرا دم گھٹتا ہے۔ میں جینا چاہتی ہوں۔ اڑنا چاہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ آپ اس اڑان میں میرے بازو بننا چاہتے ہیں مگر بابا میرے اپنے پروں کا کیا؟ بابا! میں تھک چکی ہوں۔ میں زندگی کو اس طرح سے نہیں گزار سکتی جس طرح لوگ چاہتے ہیں کہ میں گزاروں۔ میری اپنی ذاتی خواہشات کا کیا؟ آپ مجھ سے یہ امید کیوں رکھتے ہیں کہ میں آپ کی جگہ آ کر سوچوں؟ میری جگہ آ کر کون سوچتا ہے؟ بابا! میں معذرت چاہتی ہوں اگر میرے الفاظ آپ کے لئے تکلیف دہ ہیں مگر بابا آپ کو تو خوش ہونا چاہئے۔ آپ کی بیٹی اب بڑی ہوگئی ہے۔ اپنے فیصلے خود لے سکتی ہے۔ اپنی ذمہ داری خود اٹھا سکتی ہے!

لوگ ہمارے پاس سے لاتعلق ہوکر گزر رہے تھے گویا اس گفتگو کو سن ہی نہ رہے ہوں مگر قریب ہی کھڑاوہ شخص قہقہے مار کر ہنس رہا تھا اور ان ہی قہقہوں کے درمیان اس نے میری بیٹی کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے ساتھ لے کر چل دیا۔ معاہدے کے مطابق، میری بیٹی اب اپنی ذمہ داری خود اٹھا سکتی تھی! 

بلاگ فالوورز

آمدورفت