اتوار، 19 نومبر، 2017

زبان دراز کی ڈائری - دھرنا

پیاری ڈائری!
طویل غیر حاضری کی معذرت! ایسا نہیں کہ لکھنے ایسا کچھ نہ رہا ہومگر لکھنے پر طبیعت مائل ہی نہیں ہوتی۔ وہ کیا ہے نا کہ ڈائری لکھنے کے پیسے نہیں ملتے اور فن بے شک پیسوں کا محتاج نہ ہو مگر حقیقی فنکار ساری عمر پائی پائی کا محتاج ہوتا ہے۔
آج صبح سے ارادہ کر کے بیٹھا تھا کہ ڈائری لکھوں گا اور آج خلافِ معمول کوئی جلی کٹی نہیں لکھوں گا۔ کچھ پر امید لکھوں گا۔ جس طرح بالآخر خالہ کے جمشید سے بیاہی جانے والی دوشیزائیں شادی سے پہلے فواد خان کو تصور کر کے شاعری  بھرے مضامین لکھتی ہیں، ویسا کچھ! مگر برا ہو اس نئی نسل کا کہ انہوں نے اچھے خاصے مزاج کو مکدر کرکے رکھ دیا۔ بھئی گانوں کی حد تک تو ری مکس کی سمجھ آتی ہے مگر ہماری صدیوں پرانی لوک کہانیوں میں تضمین کرنا کون سی شرافت ہے؟
ہوا کچھ یوں کہ ہماری نواسی نے ہم سے کہانی سننے کی فرمائش کردی۔ ہم کافی دن سے دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے آج کے کام کو پرسوں پر ٹالنے کی روش پر گامزن تھیں کہ کل پر ٹالنا ان کے نزدیک بہت مین سٹریم تھا۔ سو ہم نے انہیں اپنے بچپن کی سنی ہوئی کہانی سنا دی کہ جس میں ایک چڑیا اپنے بچوں کے ساتھ کسی کھیت میں رہا کرتی تھی ۔ جب اور جہاں جی کرتا غیور مردوں کی طرح منہ مارتی پھرتی کہ جانتی تھی کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ایک دن چڑیا کے بچوں کے نے اسے بتایا کہ انہوں نے خود اپنے گناہگار کانوں سے کسان کو اسے گالیاں دیتے سنا ہے ۔ کسان نے پیٹ بھر کر گالیاں دینے کے بعد یہ بھی فرمایا ہے کہ اس نے اپنے بھائی سے بات کر لی ہے اور کل ہی وہ کھیت سے چڑیا کا خاتمہ کر لے گا۔ چڑیا سیاسی رہنما تو تھی نہیں کہ چھوٹوں کی باتوں میں آجاتی، اس نے بچوں کو تسلی دی کہ اس کی کسان کے بھائی کے ساتھ اچھی سیٹنگ ہے انشاءاللہ کچھ نہیں بگڑے گا۔ جہاں جی چاہے منہ مارو! 
 بچے بے فکر ہو کر ایک مرتبہ پھر کھیت اجاڑنے میں مشغول ہوگئے ۔ چند دن بعد بچوں نے پھر اطلاع دی کہ کسان اب کی مرتبہ زیادہ گندی گالیوں پر اتر آیا ہے اور کہتا ہے کہ کل وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ہمارا گھونسلہ اجاڑ دے گا۔ چڑیا نے بچوں کو ایک مرتبہ پھر دھنیا پلا کر سلا دیا اور اپنے معمولات میں مصروف ہوگئی۔
تیسری مرتبہ البتہ صورتحال بہت سنگین تھی۔ بچوں نے بتایا کہ کسان نے گھر میں انٹرنیٹ لگوا لیا ہے اور ایک مخصوص سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد خادم حسین رضوی جیسی گالیاں بکنے لگا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ آج خود اپنے ہاتھ سے ہمارا گھونسلہ اکھاڑ پھینکے گا۔
روایتی کہانی کے مطابق اب چڑیا کو بچوں کو سمجھانا تھا کہ بچو! سامان سمیٹ لو۔ اب یہ انسان کام کر کے ہی رہے گا کیونکہ یہ اس بار کسی پر منحصر نہیں ہے اور نہ ہی آج کا کام کل پر ٹال رہا ہے مگر اس سے پہلے کے ہم یہ انجام اس دس سالہ بچی کو سمجھاتے اس نے کہا، نانو! آگے کی کہانی مجھے پتہ ہے۔ اس چڑیا نے دس پندرہ چڑیاں اور اکٹھی کی ہوں گی اور کھیت میں دھرنا دے کر بیٹھ گئی ہوگی۔ اس کے بعد کسان کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے سارے نقصانات معاف کرے اور کھیت میں سے ایک حصہ ان چ٭٭یوں  ۔۔۔ (خادم حسین صاحب کے نام کی دہشت سے اب کمپیوٹر چڑیوں کو بھی سینسر کر رہا ہے۔ سبحان اللہ) کو بھی دینے پر مجبور ہوگیا ہوگا اور اس کے بعد سب یوں ہنسی خوشی رہنے لگے ہوں گے  جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ہم نے تپ کر اس سے پوچھا اور جب آپ یہ سب جانتی ہی ہیں تو یہ بھی بتا دیں کہ کہانی کا حاصل کیا تھا؟ تس پر وہ بڑے رسان سے بولیں، دھرنے میں بڑی برکت ہے!
خود بتاؤ۔ اس قسم کی اولاد کے ہوتے ہوئے انسان کیسے شاعری بھرے مضامین لکھ سکتا ہے؟
والسلام
زبان دراز دھرنوی

بدھ، 1 نومبر، 2017

خانم بے حیائی

اس کا نام جو بھی کچھ رہا ہو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ سب کا ماننا تھا کہ وہ پیدائشی گونگی بہری ہے۔  بہری قوم یا افراد کو آپ جو جی چاہے لقب دے دیجئے ، پیار سے بلائیے یا دشنام سے نوازیے، ان کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ تو اپنے حال میں مست رہتے اور رہتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں۔ سو اس کے نام سے بھی اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مگر اس کے بہرے پن سے اب گھر والوں کو فرق پڑنے لگا تھا۔ خاندان، محلے کی کسی بھی تقریب میں جہاں چار لوگ جمع ہوتے، بلاوجہ ہمدردیاں جتانے لگتے۔ ہائے اللہ! کتنی پیاری بچی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی چن چن کر لوگوں کو آزماتا ہے۔ دیکھو معصوم اگر سن بول پاتی تو کیا چلا   جاتا کسی کا؟ مگر خیر! اللہ آپ لوگوں اور اس بچی کو صبر دے!  گھر والے شروع میں تو یہ باتیں سنتے  اور چپ ہو جاتے۔ پھر اس کے بعد ان باتوں کو سننے کے بعد جھلانے کا مرحلہ شروع ہوا اور بالآخر کسی بھی اور انسان کی طرح  اس کے گھر والوں کو بھی ہمدردی کی عادت پڑ گئی اور اگر آپ ان سے مل کر ہمدردی نہ جتائیں تو انہوں نے باقاعدہ اس بات کا برا منانا شروع کردیا۔
اسے ان تمام باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں مست تھی اوراس ہی مستی میں بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی عمر اب پندرہ برس ہوچلی تھی اور گھر والوں کو ہمدردی کے بادلوں کے پیچھے چھپا حقیقت کا سورج نظر آنے لگا تھا۔ مانا کہ تمازت ابھی اتنی نہ بڑھی تھی کہ  انسان جھلس جائے مگر آج نہیں تو کل اس حقیقت نے سامنے آجانا تھا۔ چار پانچ برس میں وہ معاشرے کی مروجہ شادی کی عمر کو پہنچنے والی تھی اور صورتحال یہ تھی کہ اس کے تمام شوق اب تک بچوں والے ہی تھے کہ گویا وہ محض جسمانی طور پر تو بڑھ رہی تھی مگر ذہنی طور پر وہ ایک پانچ سات سالہ بچی کی طرح ہو۔ علاج معالجے کا   مسئلہ یہ تھا کہ شہر چھوٹا تھااور بیماری بڑی۔ پہلے شہر کے بڑے ڈاکٹروں کو دکھایا گیا مگر جب لکھوکھا روپے کے نسخے اور آپریشن تجویز ہوئے تو واپس قصبے کے  حکیموں اور نیم حکیموں کی چوکھٹ چومی گئی۔  جب وہاں سے افاقہ نہ ہوا تو کسی نے مشورہ دے دیا کہ اسے ایران لے جاؤ۔ وہاں مشہد کے روزے پر سنا ہے کہ ہر قسم کی بیماری شفا پا جاتی ہے۔
چھوٹے شہر کے متوسط طبقے کے لوگ تھے جن کی زندگیوں کی معراج یہی تھی کہ لاہور یا کراچی دیکھ آئیں۔ قصبے میں چند گھر ایسے ضرور تھے  کہ جو خلیجی ممالک میں مزدوری کرتے تھے مگر ایران جانے کا تجربہ کسی کا بھی نہیں تھا۔ کہتے ہیں نا کہ ماں مرے ماسی جئے۔ خالہ اماں نے ذمہ داری اٹھائی کہ اگر بچی اور ان کے خاوند کا خرچہ گھر والے اٹھا لیں تو وہ اپنے میاں کے ساتھ اسے مشہد لے جائیں گی کہ اس ہی صدقے میں ان کی بھی زیارت ہو جائے گی۔ سودا برا نہیں تھا سو سفر کی تیاری شروع کر دی گئی اور اللہ اللہ کر کے خیر سے یہ لوگ مشہد پہنچ گئے۔
مشہد پہنچنے کے دو دن بعد خالہ کا ٹیلیفون آیا کہ معجزہ ہو گیا ہے۔ صبح جب وہ اسے روزے پر لے کر گئیں تو  روزے کے حکام نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ ننگے سر حرم میں نہیں جا سکتیں ۔ پہلے جا کر روزے کے ساتھ موجود دفتر سے مفت میں  چادر وصول کریں اور پھر سر ڈھانپ کر آئیں۔ وہ مسلسل فارسی میں سمجھا رہے تھے، خانم ! بے حیائی! خانم! بے حیائی! ہماری تو خیر ہوئی کہ ہم نے دفتر سے جا کر چادر وصول کی اور حرم میں جا کر فاتحہ پڑھی اور واپس آگئے مگر جب حرم سے باہر نکلے تو  مجھے لگا کہ یہ کچھ بدبدا رہی ہے۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ معجزہ ہوگیا ہے۔ خیر سے ہماری شہزادی نہ صرف سن سکتی ہے بلکہ بول بھی سکتی ہے۔ وہ بدبدا رہی تھی، خانم بے حیائی۔ خانم بے حیائی! بھئی میں نے تو بے ساختہ ماتھا چوم لیا شہزادی کا۔ خیر سے وہیں بازار سے میوہ خریدا اور واپس جا کر حرم پر نیاز چڑھا آئی۔  تمہارے خالو تو خیر تہران چلے گئے ہیں اور یہ یہاں بیٹھی خانم بے حیائی کر کر کے میرا  سر کھا رہی ہے۔ میں نے پوچھا مطلب پتہ ہے اس بات کا  تو جواب میں کہتی ہے خانم بے حیائی کھی کھی کھی اب بتاؤ اس بات پر میں کیا بولتی۔ میں نے بے حیائی کا مطلب اشاروں میں سمجھایا  تو اب گانے کی طرح شروع ہوگئی ہے خانم م م م  ! بےےےے  حیااااااائی ۔۔۔ خانم م م م  ! بےےےے  حیااااااائی  ۔۔۔۔ یہ لو خود اس کے منہ سے سن لو!
پانچ دن کے بعد خالہ اسے لے کر خیر سے واپس گھر پہنچ گئیں ۔  گھر والے سارے اس کے گرد جمع تھے۔ سب بہت پراشتیاق تھے کہ  آج اس کو بولتا سنیں گے مگر خلاف معمول آج وہ بہت مضمحل لگ رہی تھی۔  خالہ سے پوچھا تو کہنے لگیں پرسوں تک اچھی خاصی تھی مگر خدا جانے پرسوں سے بالکل ویسے ہی چپ ہے جیسے کبھی بولی ہی نہ ہو۔ تم سب نے خود اسے فون پر بولتے سنا تھا ۔  میں خود سے کہہ رہی ہوتی کہ یہ بولی تھی تو تم شک کرتے مگر تم سب نے خود اسے فون پر بولتے سنا تھا۔ بیٹا بولو! شاباش بول کر دکھاؤ۔ بیٹا میں جانتی ہوں تم سن سکتی ہو اور سمجھ بھی سکتی ہو۔ دیکھو یہاں سب تمہارے اپنے ہیں۔ شاباش بول کر دکھاؤ۔  بولو خانم بے حیائی!
اس نے اپنے دامن پر سے نظریں اٹھائیں۔ سب کی طرف دیکھا۔ اس کی بائیں آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا اور وہ دھیرے سے بولی ۔۔۔۔  خالو بے حیائی!

منگل، 24 اکتوبر، 2017

نقاب

دن بھر کی مشقت کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو اتنا تھک چکا تھا کہ نقاب بدلے بغیر ہی سو گیا۔  رات کے پچھلے پہر اس کی بیٹی کی پیاس سے آنکھ کھلی تو پہلو میں باپ کی جگہ کسی انجان چہرے کو دیکھ کر گھبرا ہٹ میں چلا اٹھی۔ چپ کرانے کے لاکھ جتن کئے مگر وہ مان کر نہ دی۔ غریب کی عمر ہی کیا تھی کہ وہ باپ کی مجبوریاں سمجھتی؟ بڑی مشکل سے الماری سے گھر والا نقاب نکال کر لگایا تب جا کر اس معصوم کی جان میں جان آئی ۔ انسانوں اور بالخصوص بچوں کا المیہ یہی ہے کہ یہ اپنے پسندیدہ کرداروں کو کبھی اپنی مرضی کے روپ کے علاوہ دیکھ ہی نہیں سکتے۔ پھر چاہے وہ ان کی مرضی کا روپ محض ایک نقاب ہی ہو مگر وہ اصل پر اس من چاہی نقل کو فوقیت دیتے آئے ہیں۔
وہ کافی دیر بیٹی کے ساتھ جاگ کر اسے تسلیاں دیتا رہا اور جب اسے سلا کر فارغ ہوا تب احساس ہوا کہ اپنی نیند غائب ہوچکی ہے۔   اول تو یونہی دیر تک  کروٹیں بدلتا رہا مگر جب نیند کی جگہ جھنجھلاہٹ آنے لگی تو اٹھ کر خوابگاہ سے باہر آگیا۔ اسے رہ رہ کر اپنی حماقت پر غصہ آرہا تھا۔ کیا تھا اگر گھر میں گھسنے سے پہلے وہ گھر والا نقاب لگا لیتا؟  اس معصوم کا کیا قصور تھا کہ وہ اس کا یہ روپ دیکھتی؟  پھر سوچا آج نہیں تو کل کبھی تو اس نے یہ والا روپ بھی دیکھ ہی لینا تھا؟ تب کیا ہوتا؟ کل کا ہوتا آج سہی !  پھر خیال آیا تب تک وہ بڑی ہوچکی ہوتی اور شاید اس طرح نہ ڈرتی؟ سوچ  کا سلسلہ مسلسل دراز ہوتا چلا جا رہا تھا۔ ڈرنے سے اس کے دماغ میں ایک اور سوچ ابھر آئی۔ اس نے سوچا کیا میں اتنا  ہی بھیانک ہوں کہ میری اپنی اولاد تک مجھ سے خوف کھائے؟ پھر جوابی سوچ آئی کہ جو کچھ دیکھ کر وہ ڈری وہ میری اصل نہیں تھی۔ وہ تو محض حالات کی وجہ سے طاری کیا گیا ایک نقاب تھا۔ اصل پر طاری ہوا ایک نقاب۔ سوچ کے تسلسل میں چلتا ہوا وہ بے دھیانی میں شیشے کے سامنے جا کھڑا ہوا اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر نقاب کو جانچنے لگا۔ اس وقت وہ ایک مکمل باپ تھا۔ شفیق اور  مہربان  ۔ چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ اس نے نقاب کو یک بار گی اتار کر  پھینک دیا۔ نیچے سے برآمد ہونے والا چہرہ ایک شوہر کا تھا۔ محبت کی چمک سے بھرپور اور صبیح۔  اسے یاد آیا کہ یہ نقاب اس نے باپ والے نقاب سے پہلے پہنا تھا۔ اس نے اسے بھی نوچ کر پھینک دیا۔ وہ اب اس چہرے کی تلاش میں تھا جو اس کا اپنا چہرہ تھا۔ شوہر کے چہرے کے پیچھے ایک فرمانبردار بیٹے کا نقاب آویزاں تھا۔ اس کے ہاتھ اب میکانکی انداز میں چل رہے تھے۔ بیٹے کے بعد بھائی۔ بھائی کے بعد دوست۔ دوست کے بعد مزدور۔ ایک کے بعد ایک چہرہ آتا گیا اور وہ بغیر رکے ان نقابوں کو نوچتا چلا گیا یہاں تک کہ چہرے پر کوئی نقاب باقی نہ رہا۔اب اس کے سامنے  کوئی نقاب نہیں تھا۔ فقظ ایک چہرہ تھا۔ نقابوں کے بوجھ سے جھریوں زدہ۔ نقابوں کے ٹانکوں سے زخم آلود۔ وہ چہرہ کہیں سے بھی انسانی  چہرہ نہیں تھا۔ شیشے میں اس کے سامنے ایک عفریت کھڑی تھی۔ اس نے گھبرا کر نقاب دوبارہ لگانے چاہے تو احساس ہوا کہ جذبات میں آکر نقاب اتارنے کے دوران وہ ساری نقابیں پھاڑ بیٹھا ہے۔  شیشے میں موجود عفریت اب فلک شگاف قہقہے لگا رہی تھی۔ اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا اور جب قریب کوئی چیز نہ دکھی تو اپنا منہ شیشے پر دے مارا اور اس وقت تک مارتا رہا جب تک کے شیشہ کرچی کرچی ہوکر آدھا زمین اور باقی اس کے چہرے میں پیوست نہیں ہوگیا۔ اپنے چہرے سے جاری خون کی دھاروں کو وہ باقاعدہ محسوس کرسکتا تھا۔اسے نے بہتے ہوئے گرم سیال خون کو اپنے چہرے پر محسوس کیا تو گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔  اسے اٹھتا دیکھ کر اس کی معصوم بیٹی سہم کر بولی، بابا! میں تو آپ کو پیار کرنے آئی تھی مگر مجھ سے تھوڑا سا دودھ گر گیا۔ آئی ایم سوری۔ اس نے بے ساختہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور جب یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ محض ایک بھیانک خواب تھا اور نقاب چہرے پر سلامت موجود ہے تو بیٹی کا ماتھا چوم کر دوبارہ سونے لیٹ گیا۔

پیر، 4 ستمبر، 2017

بھیڑیا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک دو پیروں والا بھیڑیا رہتا تھا۔ میں مانتا ہوں کہ شہروں میں بسنے والے دو پیروں کے بھیڑیے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے جنگل میں بھی دو پیر کے بھیڑیے پائے جا سکتے ہیں مگرکیا کریں کہ جس بھیڑیے کی یہ کہانی ہے وہ واقعی دو پیروں والا تھا اور جنگل میں ہی رہتا تھا۔  گو کہنے کو اس بھیڑیے کا ایک نام بھی تھا مگر اس نام  کو یہاں بتانے میں ایک مسئلہ ہے کہ نام سن کر آپ لوگ اس کا مذہب اور پھر اس مذہب کا مسلک ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں تاکہ  کہانی کے اختتام کی بنیاد پر طے کر سکیں کہ وہ آیا واقعی آپ کے اپنے مسلک کا تھا یا دشمن کا ایجنٹ تھا جو آپ کےفرقے کو بدنام کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا لہٰذا ہم اس بھیڑیے کے نام کو یہیں چھوڑ کر کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔

تو جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا آیا ہے کہ  کہانی کا مرکزی کردار چند مشکل حالات میں زندگی شروع کرتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ قسمت اس کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور اس کے بعد اس کے دن پھر جاتے ہیں اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ ویسا ہی اس کہانی میں بھی ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ آخر کو لیکھک نے بھی تو وہی لکھنا ہے جو قارئین شوق سے پڑھتے ہیں۔ زندگی اور تقدیر کی مسلسل ٹھوکریں کھانے کے بعد ایسی کہانیوں کی افیم سے ہی تو انہیں یہ ڈھارس ملتی ہے کہ ان کی قسمت کا دروازہ بھی کسی دن کھل جائے گا۔   لیکھک یہ بات جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کامیابی مجمع  اکٹھا کرنے میں ہے اور مجمع اکٹھا کرنے کے لئے وہ باتیں کرنا ضروری ہے جو لوگ سننا چاہتے ہیں ناکہ وہ باتیں جو انہیں سننے کی ضرورت ہے۔مگر چونکہ نہ میں لیکھک ہوں اور نہ ہی دوراندیش لہٰذا آج کہانی وہاں سے شروع ہوگی جہاں پر کہانی ختم ہوتی آئی تھی۔

سو جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ کہانی سب کے ہنسی خوشی رہنے کے بعد شروع ہوتی ہے تو جب سب ہنسی خوشی رہنے لگے تو اس کے چند دن بعد انہیں یہ احساس ہوگیا کہ یہ ہنسی خوشی رہنا تو بہت بورنگ سی چیز ہے۔اب ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے منہ نوچنے لگیں اور پھر ہنسی خوشی رہنے لگیں مگر ہم نے ایسا کیا تو آپ کہیں گے کہ بھئی کیا عمدہ کہانی ہے   اور ہم محشر کے حساب اور قبر کے عذاب کے بعد سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتے ہیں وہ سخن ناشناس کی تعریف ہے۔ بخدا سخن شناس کی خاموشی اتنا نہیں کھَلتی جتنا سخن ناشناس کی تعریف سے جان جاتی ہے۔ تو کہانی کو بہرحال آگے بڑھنا ہے اور کہانی آگے بڑھتی ہے کہ جب سب لوگ ایک دوسرے کے منہ نوچ رہے تھے تب اس دو پیر کے بھیڑیے نے ایک چیز محسوس کی کہ وہ پنجے چلانے کے ساتھ ساتھ جبڑے بھی چلانا شروع ہو گیا ہے اور قریب آنے والے ہر  جانور کو بلاتخصیص کاٹنے لگا ہے۔ چونکہ وہ بھیڑیا   تھا اور اپنے خالہ زاد بھائی کی طرح اسے شہروں کی ہوا نہیں لگی تھی تو بجائے سب کو بھنبھوڑنے کی عادت پر فخر کرنے کے اس نے الٹا اس بات پر شرمندہ رہنا شروع کردیا۔  میں جانتا ہوں کہ شہروں میں بسنے والے دو پیروں کے بھیڑیے اس بات پر بھی جزبز ہورہے ہوں گے کہ عجیب احمق بھیڑیا ہے اور ہمارے نام پر دھبا ہے وغیرہ وغیرہ مگر کیا کریں؟  یہ ہماری کہانی ہے اور ہر کہانی کار کی طرح ہماری بھی مرضی کے اپنے تخلیق کردہ کردار سے جس طرح کے چاہے ڈرامے کروائیں۔ جیسے چاہیں اس کی زندگی رگید دیں۔ اور پھر اس کے بعد احسان بھی جتائیں ۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ تو ہوا یوں کہ ہوتے ہوتے اس کی شرم اتنی بڑھ گئی کہ اس نے  تمام جانوروں سے دور جا کر رہنے کا فیصلہ کرلیا۔

                                                                        باقی جانوروں پر تو اس کے اس فیصلے کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا مگر جو غریب اس سے محبت کرتے تھے وہ بہت ملول ہوگئے۔ انہوں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ وقتی چیز ہے اور ختم ہوجائے گی مگر اس نے اول اول تو ان پر بھی پنجے جھاڑے اور بعد میں ان سے خود ہی کنارا کر لیا کہ وہ اب اپنے وحشی پن سے انہیں مزید تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔

اس کے بعد کیا ہوا۔ کس طرح جب کوئی نہ بچا اور اس نے خود اپنے آپ کو نوچ نوچ کر مار ڈالا وغیرہ وغیرہ یہ سب غیر اہم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

ختم شد

اتوار، 13 اگست، 2017

مندر

تو بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں  بہت سارے لوگ رہتے تھے۔ نانا ابا نے کہانی کہنا شروع کی ہی تھی کہ جویریہ بول اٹھی، مگر گاؤں میں جب بہت زیادہ لوگ رہنے لگیں تو پھر وہ گاؤں تو نہیں ہوا نا؟ پھر تو وہ قصبہ یا چھوٹا شہر ہوجائے گا؟  نانا ابا  ایک لحظے کے لئے چونکے اور پھر سادگی سے بولے، مگر چونکہ اس گاؤں کے لوگ آپ کی طرح ذہین نہیں تھے تو وہ خود کو گاؤں ہی سمجھتے تھے اور کیونکہ انہیں گاؤں والا کہنے سے کسی اور گاؤں والے کی دل آزاری نہیں ہوتی لہٰذا اصولی طور پر ہمیں  ان کی اس معصوم  خواہش کا احترام کرنا چاہئے ۔ نانا ابو  آپ اس کو چھوڑیں کہانی سنائیں۔ ننھے شہود کو جویریہ کی نکتہ چینی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔  نانا ابا نے مسکرا کر اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور کہانی دوبارہ شروع کردی۔ تو بھئی جیسا کہ میں نے بتایا اس گاؤں میں بہت سارے لوگ رہتے تھے اور مل جل کر رہتے تھے۔ چھوٹی موٹی باتیں تو ہر جگہ ہی رہتی ہیں مگر عمومی طور پر وہ پر امن اور پرسکون طور پر ساتھ رہنے والے لوگ تھے۔  اس گاؤں کے سیانوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس طرح جوڑ کے رکھنے میں اس مندر کا بہت بڑا ہاتھ تھا کہ جس میں پرلوک سے آئے دیوی دیوتا موجود تھے۔ گاؤں میں ذرا بھی اونچ نیچ ہوتی تو یہ دیوی دیوتا بیچ میں پڑ کر اسے ختم کرا دیتے۔ جسے چاہتے نواز دیتے اور جسے چاہتے عمران دیتے۔کوئی پیار سے مان جاتا تو کوئی لالچ سے اور جو کوئی ان دونوں سے نہ مانتا تو اس کے لئے تو ڈنڈا تھا ہی۔ غرضیکہ پورا گاؤں ان دیوی دیوتاؤں کے دم سے ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔
پیارے بچو!  دنیا میں  حماقت اور ذلالت کے علاوہ کوئی چیز مستقل نہیں ہے۔ سو گاؤں والوں کے یہ دن بھی مستقل نہیں رہے۔ پر لوک کے اپنے حالات خراب ہونے کی وجہ سے دیوی دیوتاؤں نے اعلان کر دیا  کہ وہ مندر خالی کر کے واپس پرلوک سدھار رہے ہیں۔ چند ایک بدخواہوں نے موقع دیکھ کر لوگوں کو بھڑکانا شروع کردیا کہ اب جب مندر  خالی ہونے ہی لگا ہے تو اس مندر کو یا تو گرا دیا جائے یا پھر اس میں تالا ڈال دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اس مندر میں گھس کر دیوی یا دیوتا نہ بن سکے۔ لوگ انہیں یاد دلاتے کہ ان ہی دیوتاؤں کی وجہ سے گاؤں کا نظام قائم ہے تو یہ بدخواہ جواب میں کہتے کہ نظام قائم رکھنے کی قیمت کے طور پر یہ جو دیوی دیوتاؤں کو ہر قسم کی تنقید اور سوالات سے استثنا حاصل ہے وہ بہت بڑی قیمت ہے۔ یہ دیوی دیوتا جو من میں آئے کر گزریں کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ کہنا تو دور کی بات، ان کے بارے میں غلط سوچتا یا سوال کرتا پا لیا جائے تو غریب کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔
گاؤں والے مگر عقل مند تھے لہٰذا ان  کی باتوں میں نہ آئے۔  اور آتے بھی کیسے؟ دیویوں کی کرپا سے ان لوگوں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور جلد ہی یہ لوگ یا تو چوریاں پکڑے جانے پر جیل میں پائے گئے یا سڑک پر جھگڑتے ہوئے قتل ہوگئے۔ گاؤں والوں نے ان کے انجام سے عبرت پکڑی اور ہمیشہ کے لئے ان باتوں پر وقت ضائع کرنے سے توبہ کرلی۔
تو پھر وہ دیوی دیوتا وہاں رکے یا چلے گئے؟  جویریہ نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے نانا ابا سے سوال کیا جو کہانی یہاں تک پہنچا کر خاموش ہوگئے تھے  اور خلا میں تک رہے تھے۔ جویریہ کے سوال کو سن کر وہ چونک اٹھے اور بولے، ہاں وہ دیوی دیوتا تو چلے گئے مگر ان کے جانے کے بعد گاؤں کے دو حصے کر دئے گئے اور گاؤں کے ساتھ ساتھ مندر بھی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ دونوں مندروں میں متعلقہ گاؤں کے اپنے اپنے دیوتا لاکر سجا دئے گئے اور گاؤں کا کاروبار ویسے ہی چلنے لگا جیسے صدیوں سے چلتا آیا تھا۔

تو کیا یہ نئے دیوتا بھی پرانے دیوتاؤں جیسے ہی تھے؟ جویریہ کہانی کو گہرائی میں جا کر سمجھنا چاہتی تھی۔  نانا ابا مسکرائے، یا شاید انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی ، بہر حال ان کے ہونٹ مڑے ضرور اور وہ اس مسکراہٹ یا نیم مسکراہٹ کے درمیان بولے، بالکل ویسے ہی! اتنے ہی سفاک، ہٹ دھرم اور عوام کو جوتی کی نوک پر رکھ کر انتظامی حکم چلانے والے۔ ایک طرف کے گاؤں کے مندر کے دیوتا نے تو خود اپنے ہی گاؤں میں یہ کہہ کر مزید تقسیم کی بنیاد بھی رکھ دی کہ جو زبان میں بولوں گا پورے گاؤں میں کسی کو وہ زبان آتی ہو یا نہیں اسے بہرحال وہی زبان بولنی ہوگی۔ اور جو یہ زبان نہیں بول سکتا وہ خواہ گونگا رہے میری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نانا ابا بھی شاید اپنی ہی دھن میں کچھ مزید بھی بولتے مگر باہر سے رشید ماموں نے آکر بتایا کہ پڑوس والے فوجی انکل جو نانا ابا کے بچپن کے دوست ہیں ،نانا ابا کی خیریت پوچھنے آئے ہیں۔   یہ سنتے ہی نانا ابا نے اپنا پاندان اٹھایا اور چلنے لگے۔ شہود نے پیچھے سے آواز لگائی ، نانا ابا کہانی تو مکمل کرتے جائیں؟ نانا ابا کمرے کے دروازے پر رکے اور مڑ کر بولے، دیوتا کے بارے میں جو آخری بات میں نے کی وہ محض ایک افواہ ہے۔ وہ دیوتا واقعی اس قابل تھا کہ اس کی پوجا کی جائے اور اسے مندر میں رکھا جائے۔ اس ہی کے وجود کے دم سے گاؤں میں آج بھی سب ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ اب بھاگ جاؤ۔ اگلی کہانی اگلی بار!

ہفتہ، 12 اگست، 2017

کہانی

تخلیق درد سے عبارت ہوتی ہے۔ بنا درد کے تخلیق ایسی ہی ہے جیسے   مہمانوں کے سامنے ناشتے کی میز پر ندیدی  ہوتی اولاد۔  انسان دیکھ دیکھ کر پچھتاتا ہے اور دعا کرتا ہے  لوگ بھول جائیں کہ یہ آپ کی تخلیق ہے۔میری بات سن کر اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولا،اس حساب سے تو تم اپنی تمام تخلیقات سے خائف ہوگے؟ تمہارے جیسے سفاک انسان کے اندر درد محسوس کرنے کی صفت ہے ہی کب کہ تم درد کو سینچ کر اسے کہانی میں تبدیل کر سکو؟  میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور ایک بار پھر اسے یاد دلایا کہ  سخن طرازی، سفاکی کا مہذب نام ہے۔   جب انسان کا ظرف اتنا محدود ہوجائے کہ وہ ذرا سا درد بھی برداشت نہ کرسکے اور ہر چھوٹی بڑی تکلیف کو قرطاس پر انڈیل کر  اپنا درد معاشرے میں بانٹ دے تو آپ اسے ادیب کہتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ دردانڈیلے  گا اتنا ہی بڑا ادیب کہلائے گا۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر جھنجھلا کر بولا، یار بندے نے گہری باتیں ہی سننی ہوں تو چاء کے ہوٹل یا محلے کے ٹھیے پر جا کر نہ بیٹھ جائے؟ کہانی سنانے کے لئے بلایا تھا کہانی سنا!  میں نے رحم آمیز نظروں سے اسے دیکھا اور  صفحات اس کے آگے کر دیے جن میں میری لکھی  وہ بغیر درد کی تخلیقات موجود تھیں۔
ونی
باچا خان نے کہا تھا کہ کسی معاشرے کو پرکھنا ہو تو دیکھ لو کہ وہ اپنی خواتین کو کس طرح  برتتا ہے۔ اس نے  ٹوئیٹر پر جا کر یہ جملہ لکھا اور بے صبری سے آنے والے ریٹوئیٹ کا انتظار کرنے لگا۔ انتظار زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا اور چند ہی لمحوں میں ریٹوئیٹ کی تعداد  بڑھنا شروع ہوگئی۔ اس نے اطمینان  کا سانس لیا اور صوفے  پر ہی ٹانگیں پھیلا لیں۔  ریٹوئیٹ کی تعداد تھوڑی سی بڑھ جاتی تو اس نے اسکرین شاٹ لے کر ابھی فیس بک پر بھی پوسٹ کرنا تھا۔ جی نہیں! اسے لائکس یا ریٹوئیٹ جمع کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اور اگر تھا بھی تو اس میں کون سی بری بات ہے؟ کسے نہیں ہوتا؟ جس  زمانے میں وہ موجود تھا وہاں لوگ ریٹوئیٹ اور لائک  حاصل کرنے کے لئے ان لوگوں تک کے تلوے چاٹنے کے لئے تیار تھے جنہیں حقیقی زندگی میں جوتے مارنا بھی جوتوں کی توہین تھی۔ سو اگر اس نے یہ کام کر بھی لیا تو کون گناہ کیا؟ جب پورا معاشرہ ہی گناہ پر سہمت ہوجائے تو پھر وہ چیز گناہ رہتی ہی کب ہے؟ پھر وہ فیشن کہلاتی ہے اور فیشن کرنا کون سا گناہ ہے؟ خیر یہ تو اضافی گفتگو ہے۔ بات تو یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ اس نے یہ جملہ توجہ حاصل کرنے کے لئے نہیں لکھا تھا۔ یہ جملہ تو اس نے توجہ دلانے کے لئے لکھا تھا۔ اور بات ہی کچھ ایسی تھی کہ یہ توجہ دلانا ضروری ہوگیا تھا۔ ملک کے ایک حصے سے  کسی گاؤں کی خبر آئی تھی  کہ وہاں کسی آدمی نے علاقے  کے لوگوں کے پیسے چرا لئے تھے اور پکڑا گیا تھا۔ گاؤں کے لوگ شدید طیش میں تھے۔ انہوں نے پنچایت بلائی اور پنچایت نے فیصلہ سنا دیا کہ چونکہ یہ آدمی چور ہے لہٰذا اس آدمی کی بیٹی کی عزت سب پر حلال ہے۔
اس نے جب سے یہ خبر پڑھی تھی اس کے اندر ایک عجیب سی بے بسی کی آگ جل اٹھی تھی۔   رہ رہ کر سلگتا تھا کہ ہم کس جاہل معاشرے میں جیتے ہیں؟ باپ کے کرموں کی سزا کوئی بیٹی کو کیسے دے سکتا ہے؟ گناہ کوئی بھی کرے سزا عورت ہی کیوں بھگتتی ہے؟  تعلیم کس حد تک ضرور ی  ہے اس کا اندازہ ان جاہلوں کو دیکھ کر ہی ہوتا ہے۔ کیا ہوتا اگر یہ بھی پڑھ لکھ جاتے؟  ایسی خبریں تو نہ سننے کو ملتیں! عورت کی عزت تو محفوظ ہوتی!اور شاید ان جاہلوں کی اکثریت کی وجہ سے ہی ہم پر ایسے گھٹیا لوگ مسلط ہیں! سوچ جب یہاں پر پہنچی تو اس نے ایک بار پھر موبائل اٹھا لیا اور یہ خیال لوگوں تک پہنچانے کے لئے ٹوئیٹر کی اپلیکیشن کھول لی۔ مگر ٹوئیٹر کھولتے ہی سامنے ایک خبر موجود تھی کہ فلاں سیاستدان  کی چوری پکڑی جا چکی ہے مگر وہ اب بھی اپنے گناہوں سے انکاری ہے۔ غصہ تو پہلے ہی شدید تھا مگر یہ تازہ خبر پڑھ کر آگ مزید بھڑک اٹھی۔ اس نے لکھا، ان حرامیوں کی ان ہی حرکات کی وجہ سے ان کی بیٹیاں گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرتی ہیں۔ اور یہ لکھ  کر موبائل ایک طرف پھینک دیا۔
یار یہ کیا بکواس ہے؟ تو اسے کہانی کہتا ہے؟  اس نے کاغذ پر سے گردن اٹھا کر میری طرف دیکھا اورتاسف سے گردن ہلانے لگا۔   میں نےجھلا کر کہا، میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ بغیر درد کے تخلیق ۔۔۔ ہاں ہاں! دوبارہ فلسفے کی کلاس نہ شروع کر۔ پہلے باقی کہانی دیکھ لوں پھر بات کرتا ہوں۔ اس نے میری بات کاٹ کر دوسری کہانی پڑھنا شروع کردی۔

حامد
مریض کا نام کیا تھا؟
جی حامد!
حامد؟   ارے یہ تو میرے بیٹے کا نام بھی ہے۔
مگر آپ تو شکل سے اتنے احمق نہیں لگتے کہ بیٹے کا نام حامد رکھیں؟
آپ ہوش میں تو ہیں؟
آپ کو کیا لگتا ہے؟
معاف کیجئے گا میں غصہ کر گیا۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔
آپ نہیں سمجھ سکتے ۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آپ سمجھ سکتے ہوتے تو اپنے بیٹے کا نام حامد کیوں رکھتے؟
آخر حامد نام میں کیا برائی ہے؟
آپ حامد کا  مطلب جانتے ہیں؟
جی ہاں! حمد اور تعریف کرنے والا
اور تعریف کرنے والے کا ہمارے معاشرے میں کیا مقام ہے؟
جی بہت اونچا مقام ہے
ہاں سو تو ہے ۔۔۔ مگر وہ تو تب ہے نا جب مسلسل تعریف کرنے کا موقع دیا جائے۔
میں سمجھا نہیں ۔۔
میرا بیٹا بھی نہیں سمجھا تھا۔ حالانکہ کتنے سامنے کی بات ہے کہ جب کوئی نیا تعریف کرنے والا سر اٹھاتا ہے تو پرانے تعریف کرنے والے اسے روند ڈالتے ہیں۔
مجھے آپ کی باتوں کی کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ مگر میں آپ کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔ براہِ کرم فارم بھروادیجئے۔
جی بھریے
وجہء موت کیا تھی
جی وہ گاڑی  کے نیچے آگیا تھا۔
اوہ!  گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہوگیا؟
جی نہیں۔ گاڑی کی ٹکر سے تو بچ گیا تھا مگر اس کے بعد گاڑی کے نہ رکنے کا صدمہ نہ جھیل سکا اور چل بسا!

اس نے کاغذ ہوا میں لہرائے اور بولا ، انہیں  تو کہانیاں کہتا ہے؟  نہ ان میں زبان کی چاشنی ہے اورنہ  بیان کا سلیقہ۔ نہ الفاظ کو برتنے کی تمیز ہے اور  نہ ہی  معاشرے کی اصلاح کا پہلو۔ کس زاویے سے تو خود کو ادیب اور اسے ادب کہتا ہے بے؟

میں نے ایک آخری بار اسے رحم آمیز نظروں سے دیکھا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا کہ ادیب کے قلم سے نکلنے والا خون حیض کا ہوتا ہے جو اپنے ساتھ معاشرے  کی کلفتیں بہا کر لے جانے کے لئے نکلتا ہے۔ اب اگر تم  یہی حیض زدہ خون کسی مریض معاشرے  کی جان بچانے کے لئے  استعمال کرنا چاہتے ہو تو بھائی مجھے  ادب سکھانے سے پہلے خود کو کسی اچھے نفسیات دان کو دکھا لو۔ چلتا ہوں۔  اللہ حافظ! 

پیر، 24 جولائی، 2017

خانہ بدوش

خانہ بدوشوں کا کٹا ہے، ٹک کر نہیں بیٹھے گا!  رسی دیکھ لیو! کھلی رہ گئی تو نکل جائے گا اور پھر تو ڈھونڈتی پھریو! اماں کمرے سے بیٹھی چلا رہی تھی اور میں مزے سے     اس کے گلے میں ہاتھ ڈالے بیٹھ کر  اسے دن بھر کا احوال سنا رہی تھی۔ اور کیوں نہ سناتی؟ اس پوری دنیا میں ایک وہی تو تھا جسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ میں کیسی دکھتی ہوں؟ میرے کپڑے کتنے عمدہ یا کتنے بوسیدہ ہیں؟   وہ ایک ہی تو تھا جو میرے دل کی باتیں سن کر انہیں چسکے لے کر آگے نہیں بڑھاتا تھا۔ ان باتوں کو سن کر مجھے احمق نہیں سمجھتا تھا۔ میری کمزوریوں کو جان کر بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا تھا۔ چار ٹانگوں پر چلنے والا وہ جانور، دو ٹانگ پر چلنے والے درندوں سے کروڑھا گنا بہتر تھا۔
ایسا نہیں کہ میرا دنیا میں کوئی دوست نہیں تھا۔ جیسے بہت سے لوگوں کو اپنے بارے میں یہ غلط فہمی تھی کہ میں ان کی اصل نہیں جانتی اور انہیں دوست سمجھتی ہوں ویسے ہی بہت  سے ایسے بھی تھے کہ جو میری مروت کو اخلاص سمجھ کر یہ گمان کر بیٹھتے تھے کہ میں ان کی دوست ہوں۔ شاید ان میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں انسانوں  میں مساوات کی قائل تھی۔ رنگ، نسل، مذہب وغیرہ سے قطع نظر، انسان بحیثیت انسان میرے نزدیک قابلِ نفرت تھے۔ اور ان سب قابلِ نفرت انسانوں کے بیچ میں ایک ہمدرد بچھڑے کا وجود کیا حیثیت اختیار کرلیتا ہے اس کا اندازہ یا تو میں کر سکتی ہوں یا کوئی بچھڑا۔ اور چونکہ آپ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں لہٰذا آپ اس بارے میں سوچنے کے بجائے کہانی پر توجہ دیں۔
تو جیسا میں نے عرض کیا کہ وہ بچھڑا میرے لئے بہت خاص تھا۔ اور خاص لوگوں کے حوالے سے عام سی بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے بارے میں کہی گئی عام سی بات بھی ہمیں برداشت نہیں ہوتی۔  ہم خود انہیں جتنا مرضی لتاڑ لیں، دشنام سنا دیں، اناپ شناپ جو جی میں آئے بک دیں، مگر کسی بھی اور کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے سامنے ان کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نکال سکے۔ کسی اور تو دور، ہم خود انہیں بھی یہ اجازت دینے کے حق میں نہیں ہوتے کہ وہ خود کو برا کہہ سکیں۔ سو جب جب اماں اسے خانہ بدوشوں کا کٹّا کہتیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔  یہ بات اپنی جگہ درست بھی تھی کہ تین ماہ پہلے گزرنے والے خانہ بدوشوں کے قافلے سے ہی اس کٹے کو خریدا گیا تھا مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ اماں خانہ بدوشوں کو پسند نہیں کرتیں اورخانہ بدوشوں کا کٹّا وہ اس معصوم کو محبت میں نہیں کہہ سکتی تھیں۔ اس وقت بھی جب انہوں نے اسے خانہ بدوشوں کا کٹّا کہا تو میں نے پہلے تو نظر انداز کر دیا اور اپنی دکھ بھری داستان اسے سناتی رہی مگر جب اماں کی آوازیں متواتر ہو گئیں تو میں بھنّا کر پاؤں پٹختی ہوئی کھڑی ہوئی اور اٹھ کر اماں کے کمرے میں چلی گئی جہاں وہ چارپائی پر بیٹھی ابّا  کی قمیض کو رفو کرنے میں مصروف تھیں۔ ویسے یہ رفو کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ انسان کو لگتا ہے کہ وہ لباس کو بچا رہا ہے جبکہ درحقیقت وہ اپنی عزت نفس کو بچا رہا ہوتا ہے۔ رفو کپڑے کا نہیں ہوتا۔ عزت نفس کا ہوتا ہے۔  رسی ٹھیک سے باندھ آئی ہے نا؟  اماں نے قمیض سے نظریں اٹھائے  بغیر اسے مخاطب کیا۔خانہ بدوشوں کا کٹّا ۔۔۔ اماں خبردار جو اب اسےخانہ بدوشوں کا کٹّا کہا تو! میں نے اماں کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ دیا۔ اماں نے قمیض پر سے نظر اٹھا کر مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا گویا جانچ رہی ہوں کہ آیا قد میں بھی اضافہ ہوا ہے یا صرف حرکت اپنی عمر سے بڑی کر گئی ہے۔ اور جب تسلی ہوگئی کہ معاملہ موخر الذکر کا ہےتو  واپس قمیض میں یوں مشغول ہوگئیں جیسے  میری  بات اس قابل ہی نہ ہو کہ اس پر ردعمل بھی دیا جائے۔ میں مانتی ہوں کہ کہانی گاؤں کے پس منظر میں ہے اور گاؤں والوں سے فلسفے کی باتیں   منسوب ہوتے دیکھنا آپ شہر والوں سے ہضم نہیں ہوتا مگر اب جب اوپر یہ بدعت ایک بار ہو ہی چکی ہے تو ایک بار اور سہی۔ کہنے دیجئے کہ ردعمل کا معاملہ بھی نرالا ہے۔ اس دنیا میں کہ جہاں ہر چیز پر ردعمل دیتے لوگ ہمیں زہر لگ رہے ہوتے ہیں وہیں چند ایک ایسے اشخاص بھی چاہے نہ چاہے ہماری زندگیوں میں ضرور شامل ہوتے ہیں کہ جن کا ردعمل نہ دینا، دنیا کے ردعمل دینے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بالعموم یہ چند لوگ وہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم یہ اہتمام کرتے ہیں کہ انہیں غلطی سے بھی گمان نہ ہوجائے کہ ہماری زندگیاں ان کے بغیر کس قدر ادھوری ہوتی ہیں۔اماں بھی ان گنے چنے لوگوں میں سے ایک تھیں!

میں کافی دیر کھڑی اماں کے ردعمل کا انتظار کرتی رہی مگر جب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میری ہی یا شاید میری بھی ماں ہیں تو میں خود جا کر ان کے برابر میں بیٹھ گئی اور قمیض ان کے ہاتھ سے لے کر ایک جانب رکھ دی۔اماں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولیں اب کٹے کو کٹا نہ کہوں تو کیا شیر بلاؤں؟ اماں آپ جانتی ہیں مجھے مسئلہ کٹّا کہنے پر نہیں ہے۔میں نے کہا۔ آخر آپ کو خانہ بدوشوں سے مسئلہ کیا ہے؟ان کا نام لیتے ہوئے آپ کے لہجے میں اتنی حقارت کیوں در آتی ہے؟  اماں نے میری طرف دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولیں، آج تو ضرور لوگوں سے گالیاں کھائے گی کہ سادہ سی گاؤں کی کہانی کو فلسفے کی دکان بنا دیا ہے۔میں نے اماں کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، اماں! گھبرا مت! یہ کون سا پیسے دے کر یہ کہانی پڑھ رہے ہیں کہ میں اور تو ان کی فکر کریں؟ جو جی میں آئے بول!  میری بات سن کر اماں مسکرا اٹھیں۔ بولیں، بیٹا! یہ خانہ بدوش میری اور تیری ان تمام حسرتوں کی عملی شکل ہوتے ہیں جو ہم تا عمر پالتے ہیں اور کبھی انہیں حاصل کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔ سفر ہم میں سے کسے پسند نہیں؟ دیس دیس کی کہانیوں کو خود مشاہدہ کرنا کسے برا لگے گا؟ روز ایک نئے سرے سے زندگی گزارنے کا خواب دیکھنے والے دیوانے ہم میں کم ہیں؟ یہ میری زمین ، یہ تیری زمین کے بجائے خانہ بدوشوں کی طرح یہ ہم سب کی زمین کا خیال ہم میں سے محض زمینداروں کو ہی ناگوار گزرے گا جو اتنی بڑی بڑی زمینیں گھیرے بیٹھے ہیں کہ ان پر خود کاشت بھی نہیں کرسکتے لہٰذا اس کام کے لئے مزارع پالتے ہیں۔ خود انہیں کتوں کی طرح رکھتے ہیں اوریوں مزارعین کی نظر میں خود بھی کتے کہلاتے ہیں۔ میں نے اماں کی بات کاٹ کر اسے یاد دلایا کہ گفتگو مارکسزم کی طرف جارہی ہے ۔ اماں نے سر ہلاتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دوبارہ گویا ہوئی، اگر جملے میں وزن ڈالنا ہو تو اس کو کسی مشہور آدمی یا بزرگ سے منسوب کردو۔ ہم بچپن سے یہ سنتے ہوئے بڑے ہوئے کہ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اگر سفر مفت ہوتا تو تم مجھے دوبارہ کبھی نہیں دیکھتے۔ اب خود بتاؤ کہ یہی بات انہوں نے خانہ بدوشوں کو کیوں نہیں سمجھائی کہ بھائی سفر مفت نہیں ہے لہٰذا تم مجھے دوبارہ دکھنے چاہئے ہو؟ اپنے عزیز ترین خوابوں کو کسی اور کے لئے پورا ہوتے دیکھنے کی اذیت کیا ہوتی ہے جانتی ہو؟ تم کیا جانو!  یہ خانہ بدوش ہوتے ہی منحوس ہیں۔ اب دوڑ جا اور مجھے رفو کرنے دے۔ اور ہاں، باہر جاتے ہوئے کٹے کی رسی دیکھ لیو۔ خانہ بدوشوں کا کٹا ہے، ٹک کر نہیں بیٹھے گا!! کھلی رہ گئی تو نکل جائے گا اور پھر تو ڈھونڈتی پھریو!     

اتوار، 2 جولائی، 2017

دیت

بابا عادل اور منصف میں کیا فرق ہوتا ہے؟  مجھے یاد ہے جب میں نے یہ سوال بابا سے کیا تھا تو انہوں نے مجھے پیار سے چومتے ہوئے اپنے پاس بٹھا لیا تھا اور جوابی سوال داغ دیا تھا کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ عادل ہیں یا منصف؟ میں نے بہت یاد کرنے کی کوشش کی تھی مگر مجھے ہزار کوشش کے باوجودیاد نہیں آپایا تھا کہ میں نے کہیں بھی اللہ تعالیٰ کو خود کو منصف کہتے پایا ہو۔ وہ تو ہر جگہ عدل  کی بات کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ تو عادل ہیں! میں نے بہت سوچ سمجھ کر جواب دیا تھا اور بابا میرے اس جواب سے بہت خوش ہوئے تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے سمجھایا تھا کہ منصف اور انصاف کے الفاظ کی اصل نصف سے نکلی ہے۔ انصاف ہے برابر تقسیم اور منصف ہے برابر دینے والا۔ جبکہ عدل ہے ضرورت کے حساب سے عطا کرنا اور عادل ہے ضرورت کے حساب سے عطا کرنے والا۔ اس کے بعد بابا نے مجھے ایک مثال بھی دی تھی   کہ اگر میرے پاس چار روٹیاں ہوں جنہیں دو آدمیوں میں اس طرح تقسیم کرنا ہو کہ ایک آدمی تین روٹیوں کی بھوک رکھتا ہے اور دوسرا محض ایک کی، تو دونوں کو دو روٹیاں دینا انصاف اور ایک کو تین اور دوسرے کو ایک روٹی دینا عدل ہے۔ بابا کی سب سے اچھی عادت یہی تھی۔ وہ چیزوں کو مثال دے کر سمجھاتے تھے۔ خیر بابا کی تو ساری ہی عادات اچھی تھیں۔ یا شاید ماضی کی ساری ہی باتیں وقت کے ساتھ اچھی ہوجاتی ہیں۔ خیر یہ تو فلسفے کی باتیں ہیں اور میرا فلسفے سے کیا کام؟  میں تو ایک سیدھی سادھی  عورت ہوں ۔ جو کسی بھی سیدھی سادھی شادی شدہ عورت کی طرح  روزانہ شام گئے اپنے خاوند  کی راہ دیکھتی ہے ۔ بس تھوڑا سا فرق یہ ہےکہ ان سب کے  خاوند دیر سویر سے ہی  سہی مگر گھر پہنچ جاتے ہیں اور میرے خاوند آخری بار دو ماہ پہلے گھر آکر کبھی نہ واپس آنے کے لئے چلے گئے ہیں۔ سو  میں شام سے تیار ہوکر بیٹھ جاتی ہوں اور  فجر گئے تک ورانڈے میں بیٹھی اس دروازے کو تکتی رہتی ہوں جہاں سے آخری مرتبہ  وہ اپنے باپ کے کاندھے پر سوار منوں مٹی تلے سونے کے لئے روانہ ہوگئے تھے۔
کسی نے بتایا تھا کہ انہیں ایک غیرملکی سفارت خانے کی گاڑی نے کچل دیا تھا۔ نہ بھی بتاتا تو کیا فرق پڑتا تھا؟ کچلا کسی نے بھی ہو، ان کے ساتھ میرا مستقبل بھی اس گاڑی کے نیچے آکر کچلا جا چکا تھا سو اب کیا فرق پڑتا تھا۔ بتانے والوں نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ عوام نے اس غیر ملکی کوگھیر کر گرفتار بھی کر لیا تھا۔ میرے سسر بتاتے ہیں کہ ملک بھر کے میڈیا پر بھی اس خبر کا چرچا ہے۔ عوام کا زبردست دباؤ ہے۔ جگہ جگہ اس قاتل کو پھانسی دلانے کے لئے مظاہرے ہو رہے ہیں۔  مگر جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اس کا مطلب ہے  ہمیں انصاف مل جائے گا تو کہنے لگے میں نے وکیل سے پوچھا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ غیر ملکی اگر پڑوسی ہوتا تو میں چوک پر پھانسی دلوا دیتا۔ بلکہ شاید کچہری کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا۔ جیل میں وہ سب کچھ ہوجاتا کہ سالا خود ہی خودکشی کرلیتا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ غیر ملکی  گورا ہے۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں یہ سب سن کر بھی مطمئن رہی۔  مجھے پتہ تھا کہ میرا اللہ عادل ہے۔ وہ عدل کرے گا۔
پھر ایک دن میرے سسر کے پاس کچھ لوگ آئے ۔ ان کے جانے کے بعد مہمان خانے سے باہر آنے والا انسان  کوئی بھی ہو میرا سسر نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ تو کوئی نہایت واماندہ اور شکست خوردہ انسان تھا۔ اتنا بدحال تو وہ جوان بیٹے کو مٹی میں دبا کر آنے کے بعد نہیں لگے تھے جتنا وہ یہ کہتے ہوئے لگ رہے تھے کہ میرے سامنے کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں خون معاف کرنا پڑے گا۔ اگر آج ایک خون معاف نہیں کیا تو کچھ بعید نہیں کہ کل دو یا تین خون معاف کرنے پڑ جائیں۔ میں مزید نقصان اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ تجھ سے اپنے بیٹے کی شادی کر کے پہلے ہی تیری زندگی برباد کرچکا ہوں۔ تجھے مزید نقصان پہنچا کر اپنی دنیا و آخرت برباد نہیں کرنا چاہتا۔ جانے والی چیز تھی چلی گئی مگر جو بچا ہے اسے بچانا ضروری ہے۔
میں نے  انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر انہوں نے میری ایک نہیں سنی۔  میں نے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ معاف کر بھی دیں تو بھی میں دیت پر راضی نہیں ہوں گی۔ اور دیت کے بنیادی اصولوں میں یہ بات شامل ہے کہ تمام ورثا کا خون معاف کرنا ضروری ہے اور محض ایک یا دو لوگوں کے معاف کرنے سے معافی نہیں مل سکتی۔  میں نے انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ قرآن کے علاوہ تعزیراتِ پاکستان کے مطابق بھی اس قسم کے معاملات میں محض لواحقین کا معاف کرنا کافی نہیں ہوگا کیونکہ سب کو اندازہ ہے کہ ہم پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ آپ معاف کردیں تو بھی عوام معاف نہیں کرے گی۔ آپ نے خود کہا ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور قاتل کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔  مگر وہ سننے کے ارادے سے بیٹھے ہی کب تھے؟ بولے،  سب انتظام ہوگیا ہے۔ لوگ سڑکوں سے واپس گھر چلے جائیں گے۔  شاید معذوری کا لفظ تعزیر سے ہی نکلا ہے ۔قانون کمزوروں کو قابو میں رکھنے کے لئے بنائے جاتے ہیں ۔ طاقت تو  بذاتِ خود ایک قانون ہے!  اندر جا کر سامان سمیٹ لو۔ ہمیں یہ گھر بھی خالی کرنا ہے!
کمرے میں آکر ضروری سامان نکالنا شروع کیا تو بھگت سنگھ  کی  زندگی پر بنی فلم کی سی ڈی بھی نکل آئی ۔ مجھے بھگت سنگھ کا کردار بہت پسند ہے۔ خاص طور پر اس کا وہ جملہ کہ کبھی کبھار اقوام کو جگانے کے لئے دھماکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ کوئی انسان بھری جوانی میں ایسی خودکشی کی موت کو کیسے گلے لگا سکتا ہے؟ اور ایسے خودکشی کرنے والے کو ہم ہیرو کیسے مان سکتے ہیں؟ آج مجھے یہ بات سمجھ آگئی ہے۔ بھگت سنگھ واقعی ٹھیک کہتا تھا۔ بعض اقوام کو جگانے کے لئے واقعی دھماکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنکھے سے دوپٹہ لٹک رہا  ہے اور اس خط کو مکمل کرنے کے بعد اس کے ساتھ میں بھی لٹک رہی ہوں گی۔ مجھے بھگت سنگھ کی طرح ہیرو نہیں بننا۔ میں تو بس اتنا چاہتی ہوں کہ سوال اٹھے۔ اور کچھ نہیں تو میری موت پر ہی سہی مگر سوال اٹھے کہ وہ کیا حالات تھے کہ جن کی وجہ سے میں اس انتہائی قدم کو اٹھانے پر مجبور ہوئی۔ اور اگر سوال کرنے والے اور سوچنے والے سب گورے بن کر میری لاش کو بھی روند ڈالیں اور تاریخ کے قبرستان میں بغیر سوچے دفن کر آئیں تو بھی جیسا کہ بابا کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ عادل ہیں تو محشر جب سجے اور جب سب گناہوں کے کچے چٹھے کھولے جائیں تو وہاں حرام موت کے باب میں میرا بھی حساب ہو تب میں کہہ سکوں کہ مالک ! تیری گنہگار حاضر ہے!  جانتی ہوں کہ موت تیرے ہاتھ میں تھی اور اگر میں خود کشی نہ کرتی تو بھی وقت مقررہ پر اٹھا لی جاتی۔ یا شاید وقت نہ ہوتا تو خودکشی کی کوشش  کا گناہ اپنے سر لے کر بھی دنیا کی جہنم میں سڑتی رہتی ۔ سو مالک! اب اپنے دنیا کے جہنم سے بھاگ کے آنے کے جرم میں شوق سے جس جہنم میں چاہے ڈال دے  مگر ان سب کو ایک مرتبہ بتا دے کہ میں نے خون معاف نہیں کیا تھا۔ مجھ سے خون معاف کروایا گیا تھا۔ اور اگر زبردستی کی دیت سے خون معاف ہوسکتے ہیں تو مالک تیرے خزانے میں کون کمی ہے؟اآج میری دیت تو میری جانب سے دے دے؟  اور مالک دیت دے یا نہ دے ایک موقع ضرور دے دے کہ میں آدم سے لے کر آخر  تک کے تمام انسانوں کو گواہ بنا کر تجھے بتا سکوں کہ مالک! تیرے بندوں سے عدل تو کیا ، انصاف تک نہ ہوسکا ۔

دروازے پر دستکیں بڑھ رہی ہیں۔ چلتی ہوں۔ 

ہفتہ، 27 مئی، 2017

کہانی

کہانی سنے گا؟ میں نے لالچ آمیز انداز سے اس سے پوچھا مگر خلاف توقع اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ میں نے اسے اکسانے کے لئے یاد دلایا، میں نے خود لکھی ہے! مگر آج وہ کسی اور ہی دھن میں تھا۔ کہنے لگا ،اس ہی لئے نہیں سننی! میں نے کہا یہ کیا بکواس ہے؟ کہنے لگا ، فائدہ کیا ہے؟ تمہاری ساری کہانیاں ایک جیسی ہی تو ہوتی ہیں۔ ہر کہانی کے اختتام پر کہانی کا مرکزی کردار مر جاتا ہے۔ تو مان کیوں نہیں لیتا کہ کہانیاں لکھنا اب تیرے بس کا کام نہیں رہا؟ تس پر مجھے بھی غصہ آگیا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ کہانی ہمیشہ سے ایک ہی ہے اور کہانی تبدیل ہو بھی نہیں سکتی۔ دنیا میں ایسا کون سا نیا کام ہورہا ہے جو پہلے نہ ہو چکا ہو جس پر کہانی لکھی جائے؟   تم لوگوں کا اصل  مسئلہ احساسِ کمتری ہے۔ شکیب جلالی کی کہی ہوتی باتیں انگریزی میں سلویا پلیتھ کے نام سے پڑھ لو گے تو داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہوئے اوندھے ہوجاؤ گے مگر شکیب جلالی کا  کلام دکھ بھی جائے تو یہ سوچ کر آگے بڑھ جاؤ گے کہ ہے تو اردو کا شاعر ہی نا! کبوتر باز!

بک جھک کر اور دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد میں وہاں سے اٹھ کر آگیا اور کہانی کا ناقدانہ جائزہ لینے لگا۔ اچھی خاصی تو کہانی تھی۔ اور اس کہانی کا مرکزی کردار تو ویسے بھی ایک دیوتا تھا اور دیوتا کبھی مر بھی نہیں سکتے۔ خیر! میرا کیا گیا؟ اس ہی کا نقصان ہے کہ وہ  اس کہانی سے محروم رہ گیا۔ میرا کام تو کہانی لکھنا ہے۔ پڑھنا تو اس کا کام تھا۔ اب اگر وہ کام چوری پر اتر آیا ہے تو میں اس پر ترس کھانے کے بجائے خودسے کیوں الجھوں؟ میں نے اس پر چار حرف بھیج کر دوبارہ کہانی پڑھنا شروع کردی۔

اب آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کن گنجلک باتوں میں الجھ گیا ہوں اور خدا جانے وہ ایسی کیا کہانی تھی جس کی تمہید میں دو پیرا گراف لکھ مارے گئے ہیں مگر کہانی ہے کہ سامنے آنے کا نام نہیں لیتی تو بھائی کہانی بہت معمول کی سی ہے کہ دو انسانوں کے ہاں ایک انسان کا بچہ پیدا ہوا۔ جی ہاں جی ہاں اس میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ اس بات پر کہانی لکھی جائے مگر آپ تحمل سے کہانی سنتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ انسان کا بچہ نہایت غیرمعمولی تھا۔ اتنا غیر معمولی کہ اس نے بڑے ہونے کے بعد معاشرے میں موجود انسان نما دیوی دیوتاؤں کو دیوتا ماننے سے انکار کر دیا۔  کسی بھی بچے کے لئے اس کے ماں باپ اور اساتذہ کا بت سب سے بڑا ہوتا ہے مگر اس نے انہیں بھی دیوتا ماننے سے انکار کردیا۔ جانتا ہوں آپ اسے ایک تخیلاتی کہانی سمجھ رہے ہوں گے مگر خود سوچیں کہ   اگر یہ بچہ تخیل میں آ سکتا ہے تو حقیقت میں کیوں نہیں آ سکتا؟ اور معاملہ یہیں پر نہیں رکتا  کہ اس نے دوسروں کو دیوتا ماننے سے انکار کر دیا ہو۔ یہ مافوق الفطرت بچہ خود اپنے آپ کو بھی دیوتا سمجھنے سے انکاری ہوگیا تھا۔ دنیا والے بکمال محبت اسے دیوتاؤں کے استھان پر چڑھاتے کہ بیٹا تم یہاں بیٹھو مگر وہ اتر اتر کر دوڑ جاتا کہ میں دیوتا نہیں ہوں جو غلطی نہ کر سکتا ہو۔ میں تو انسان ہوں۔ غلطیاں کروں گا۔ ہر طرح کی غلطیاں کروں گا۔ کچھ غلطیاں شاید ایک سے زائد بار بھی کروں گا۔ ٹھیک ہے کہ ان اغلاط کو اپنی ذات کا حصہ نہیں بناؤں گا مگر تم مجھے دیوتا بنا کر مجھ سے میرا غلطی کرنے کا حق نہیں چھین  سکتے۔  آگے کی کہانی آپ خود بھی جانتے ہیں کہ  ایسی احمقانہ خواہشات رکھنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے  اور چونکہ ابھی تک اس کے انسان یا دیوتا  ہونے کا فیصلہ نہیں ہوپایا ہے   اس لیے میں نے  اسے ان دیوتاؤں کی طرح زندہ چھوڑ دیا جو اس حسرت میں مرے جاتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں جان سکیں کہ وہ اس سے کہیں کم ہیں جتنا لوگ انہیں کہتے ہیں اور شاید اس سے بہت بہتر ہیں  جیسا وہ انہیں سمجھتے ہیں۔  
کیا کہا؟ میرا دوست ٹھیک کہتا تھا؟ کہانیاں لکھنا واقعی میرے بس کا کام نہیں رہا؟  لعنت ہو تم سب پر۔ میں 
جانتا تھا کہ تم لوگ ایسا ہی کرو گے اس لئے میں نے اصل کہانی لکھی ہی نہیں۔ اللہ حافظ!


اتوار، 23 اپریل، 2017

بِلؔا

آج مدت کے بعد اس کمینے کا نمبر اپنے موبائل اسکرین پر دیکھ کر میرے لبوں پر بےاختیار ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔ نام تو اس کا عاطف تھا مگر ہم سب دوست اسے بِلا کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ تھا بھی بھوکے  بلے ہی کی خصلت کا۔ حرام ہے کہ صرف ایک بلی پر اس کا گزارہ ہوجائے!  اس کی وجہ سے، محلے کی تمام لڑکیاں، کبھی نہ کبھی ہماری بھابھی رہ چکی تھیں۔ بِلا، بَلا کا ٹھرکی تھا۔ اس کے بارے میں ہم تمام دوستوں کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ ہماری بیویاں بھلے بغیر دوپٹے کے ساری دنیا کے سامنے گھوم لیں مگر بلے کے سامنے ہم انہیں شٹل کاک برقعے میں بھی نہیں لائیں گے۔

جب تک ہم دوست اس محلے میں رہے، بلے کے کارناموں کی دھوم رہی۔ ہم دوستوں نے بلے کو ماہرِ زنانیات کا خطاب دے رکھا تھا۔ ہمارے دوستوں میں اشرف کا ماننا تھا کہ بلا محض دیوار سونگھ کر بتا سکتا ہے کہ کمرے میں کتنی خواتین موجود ہیں جبکہ خرم کا کہنا تھا کہ بلا اگر چاہے تو اس ہی دیوار کے پیچھے رہ کر ان خواتین کی عمر اور ان کے کپڑوں کے رنگ تک بتا سکتا ہے۔

انٹر میڈیٹ کے  فورا بعد ہم لوگوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا اور گلشن اقبال آگئے۔ دوستوں سے البتہ وقتاؔ فوقتاؔ ملاقات اور بات ہوتی رہتی تھی۔ میں وقت کے ساتھ ڈاکٹر بن گیا تھا جبکہ بلے نے ہیومن ریسورس میں ماسٹرز کر لیا تھا کہ اس شعبے میں خواتین ہمیشہ زیادہ پائی جاتی تھیں اور بلے کو خواتین کے جھرمٹ میں رہنا بچپن سے پسند تھا۔ بلے کے کارنامے اب بھی سننے کو ملتے رہتے تھے۔ انسانی عادات اگر بروقت نہ سدھاری جائیں تو وہ فطرت بن جاتی ہیں۔ اور فطرت میں آجانے والی چیز کا جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بلے کی شادی پر ہم سب دوستوں نے اسے سمجھایا تھا کہ کم سے کم شادی کے بعد تو اسے اپنی زندگی میں سدھار لانا چاہیئے اور ماضی کے تمام طریقے چھوڑ کر انسانوں والی زندگی گزارنی چاہیئے۔ مگر جو باز آجائے وہ بلا ہی کیوں کہلائے؟ آج اس بات کو بھی بیس سال ہونے کو آرہے تھے اور بلے کے کارنامے اس ہی زور و شور سے جاری تھے۔ بلے سے مایوس ہوکر ہم لوگ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے تھے۔ میں نے اپنا ہسپتال بنا لیا تھا۔ اشرف ایک بینک میں جنرل مینجر ہوگیا تھا۔ سلمان ایک ٹیلی کام کمپنی میں کام کر رہا تھا۔ عامر کینیڈا منتقل ہوگیا تھا۔ ہم سب اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے تھے اور اب مہینوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرپاتے تھے۔ آج بلے کا فون بھی کوئی سال بھر کے بعد آیا تھا اور میں موبائل پر اس کا نام دیکھ کر مسکرا اٹھا تھا۔

مصروفیات اور نہ ملنے کے گلے شکووں کے بعد کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں اور اس کے بعد بلے نے مجھ سے ملنے کی فرمائش کردی۔ ادھر میں خود بھی اس سے ملنا چاہ رہا تھا سو میں نے بھی فوراّ حامی بھر لی۔ اگلے دن ہم دونوں میرے دفتر میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ میں آج دو سال کے بعد بلے کو دیکھ رہا تھا۔ ان دو برسوں میں وہ بہت تبدیل ہوگیا تھا۔ اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ آنکھوں کی سوزش بتا رہی تھی کہ وہ کافی دن سے ڈھنگ سے سویا نہیں ہے اور شاید روتا بھی رہا ہے۔ میں نے اس کا دل بہلانے کیلئے اس کا پسندیدہ خواتین کا موضوع چھیڑ ا مگر میں نے دیکھا کہ اس سے اس کا اضطراب کچھ اور بڑھ گیا ہے۔ میرے لیئے یہ سب کچھ بہت حیران کن تھا۔ بلا ہمیشہ سے زندگی کو کھل کر جینے کا عادی اور بے بات مسکرانے والا انسان تھا۔ اس کی یہ بے چینی اور اضطراب میرے دل میں وسوسے پیدا کر رہا تھا۔ میں نے اس سے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پہلے تو اس نے کسی قسم کی پریشانی سے یکسر انکار کردیا مگر میرے بےحد کریدنے پر وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بول ہی پڑا کہ اس کی زندگی کی اغلاط بالآخر اپنے مکروہ ترین روپ میں اس کے سامنے آگئی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ میں اس لڑکی سے ملوں اور اگر وہ واقعی امید سے ہے تو اس کو اِس گناہ کے بوجھ سے نجات دلوائوں۔

میں ہکا بکا بیٹھا اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ بچہ ناجائز ہی سہی، مگر دنیا میں آنے کا حق ضرور رکھتا ہے۔ میں نے بلے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اسے یہ سب نہیں کرنا چاہیئے اور ویسے بھی ،ایک گناہ کو چھپانے کیلئے اس سے بڑا دوسرا گناہ کرنا کون سی عقلمندی ہے؟ اگر وہ چاہے تو میں اس لڑکی سے اس کی شادی کروانے میں ہر ممکن مدد کرسکتا ہوں۔ ہم اس لڑکی کو الگ گھر لیکر دے دیں گے اور یہ بات ہم بلے کے گھر میں کسی کو پتہ بھی نہیں چلنے دیں گے۔ وہ اتنا صاحب حیثیت ہے کہ دو گھرانوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اگر اسے کسی قسم کی تنگی ہے تو میں اس سلسلے میں ماہانہ بنیاد پر اس کی مدد کرسکتا ہوں۔ بلا خاموشی سے میری بات سنتا رہا اور جب میں خاموش ہوا تو سسکیاں بھرتے ہوئے میرے پیروں میں گرگیا۔ وہ رو رو کر مجھ سے مدد مانگ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا تھا اور اگر یہ بچہ دنیا میں آجاتا تو جو طوفان اٹھتا اس کا بقول بلے مجھے اندازہ نہیں تھا۔ بلے کے آنسو اور بےبسی دیکھ کر میں لرز کر رہ گیا۔ مجھ سے اپنے دوست کی بےکسی دیکھی نہیں گئی اور میں نے بلے کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ہسپتال میرا اپنا تھا سو میں کسی کو جوابدہ نہیں تھا۔ اگلے دن بلا خود اس لڑکی کو میرے ہسپتال چھوڑ کر چلاگیا جہاں چند بنیادی ٹیسٹ سے یہ بات یقینی ہوگئی کہ وہ لڑکی امید سے تھی۔ بچہ ابھی تیسرے ماہ میں ہی تھا سو ہمیں اسے تلف کرنے میں کوئی خاص دشواری نہیں ہوئی۔ وہ لڑکی ایک دن ہمارے پاس ہی رہی اور اگلے دن بلا خود آکر اسے اپنے ساتھ واپس لے گیا۔ خدا جانے اس لڑکی نے اس ایک دن کی غیر حاضری کی اپنے گھر میں کیا توجیح پیش کی ہوگی۔ مگر جو لڑکی اپنے گھر والوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر شادی سے پہلے اپنے سے کم از کم پچیس برس بڑے مرد سے امید سے ہوسکتی ہے اس کیلئے ایک دن کی غیر حاظری کی کہانی بنانا کون سا مشکل کام ہوگا؟ میں نے اس لڑکی اور بلے دونوں ہی پر اس دن لعنت بھیج دی اور طے کرلیا کہ میں آئندہ بلے سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔ دوستی کی وجہ سے کیئے جانے والے اس کام کا میرے ضمیر پر بے تحاشہ بوجھ تھا اور میں بلے کی شکل دوبارہ دیکھ کر اپنے ماتھے کے اس داغ کو تازہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

انسان صرف ارادہ کرنے کی حد تک خودمختار ہے۔ ارادوں کی تکمیل صرف کائنات کے مالک کے ہاتھ میں ہے جو اپنے ہی طور سے اس کائنات کو چلا رہا ہے۔ بلے سے نہ ملنے کا فیصلہ کیئے ہوئے مجھے چار دن ہی ہوئے تھے کہ سلمان کا فون آگیا اور مجھے بلے کے گھر جانا پڑ ا۔ بلا مر گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ بہت شدید دل کا دورہ تھا اور ہسپتال یا ڈاکٹر کی نوبت آنے سے پہلے ہی بلے نے اپنے ہی گھر میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی تھی۔

جنازے اور تدفین سے واپسی پر ہم تمام دوست بلے کے گھر پہنچ گئے۔ بلے نے اپنے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی تھی۔ بیٹے ابھی اسکول اور بیٹی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ ہم دوست ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے کہ ایک نوجوان نے ہمارے پاس آکر میرا نام پوچھا اور مجھے ایک کونے میں لے جاکر میرے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔ میں حیرت سے اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ بول پڑا، سر! آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ نے ہم دونوں پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ میں ساری عمر آپ کا قرض نہیں اتار سکتا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ انکل سے کیئے گئے اپنے وعدے کو نبھائوں گا اور اس ہی سال، اپنی نوکری لگتے ہی ان کی بیٹی کو شادی کرکے اپنے ساتھ لے جائوں گا۔

میں خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا اور دل میں حیران تھا کہ یہ لڑکا کون ہے اور خود کو میرا احسان مند کیوں کہہ رہا ہے جبکہ میں آج سے پہلے اس لڑکے سے ملا تک نہیں ہوں؟ میں نے اس سے سوال کرنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ میری نظر سامنے والے کمرے کے دروازے پر کھڑی بلے کی بیٹی پر پڑی جو دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں مسلسل رونے سے سرخ ہوچکی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور حلیہ شدید خراب تھا۔ مگر ان سب چیزوں کے باوجود بھی میں اس لڑکی کو بخوبی پہچان سکتا تھا۔ چار دن پہلے ہی تو میں نے اس کا آپریشن کیا تھا۔

میں نے اس لڑکے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے سر ہلا کر واپس اپنے دوستوں میں آگیا۔ کون کہتا تھا کہ بلا ہارٹ اٹیک سے مرا ہے؟ بلا تو دراصل شرم اور تقدیر کے اس وار سے مر گیا تھا جسے اس نے خود اپنے ہاتھ سے اپنے لیئے لکھا تھا۔

3 - مریض

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔

میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی آپ لوگوں کی طرح ہنستا، گاتا، مسکراتا، اور زندگی سے بھرپور لطف کشید کرتا تھا۔ میری لکھی گئی نظمیں اور کہانیاں زبان زد عام ہوا کرتی تھیں۔ میری تحاریر زندگی سے بھرپور ہوتی تھیں۔ میرا کام مسکراہٹیں بکھیرنا تھا۔ میں اپنی تحریر سے لوگوں کو گدگداتا تھا۔ زندگی کے آلام میں انہیں تصویرِ زیست کے وہ درخشندہ پہلو دکھاتا تھا جو ان کی زندگی میں زندگی بھر دیتے تھے۔ میری یہ تحاریر لوگوں کو جینا سکھاتی تھیں۔ مسکرانا سکھاتی تھیں۔ احساس جگاتی تھیں۔ میں اپنے وقت کا ایک کامیاب مصنف و شاعر تھا۔ پھر ایک دن میری خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی اور مجھے احساس نامی جان لیوا بیماری لاحق ہوگئی۔

ہوا کچھ یوں کہ میری تحریر اور اس تحریر میں موجود ظرافت کو دیکھتے ہوئے ایک ٹیلیویژن ڈرامہ بنانے والے ادارے نے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے لیئے مزاح لکھوں۔ شاید ایک فن کار کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اس کے وجود کا ادراک، اس کے کام کی افادیت تسلیم کیا جانا ہوتا ہے۔ ڈرامہ لکھنے کی یہ درخواست میرے لیئے ایک بڑے اعزاز کی بات تھی سو میں نے فوراٗ اس کام کیلئے ہامی بھر لی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ ڈرامہ لکھنا میری زندگی میں وہ تبدیلی لائے گا جس کے بعد، میں لوگوں کو ہنسانا تو درکنار، خود بھی ہنسنا بھول جائوں گا۔

میں جب مزاح لکھنے بیٹھا تو مجھے احساس ہوا کہ قلم مجھ سے روٹھ چکا ہے۔ میں ہزار کوشش کے باجود بھی لکھ نہیں پارہا۔ میں، سید عاطف علی، وہ انسان جو یہ دعویٰ رکھتا تھا کہ الفاظ اس کی باندی ہیں، تہی دامن کھڑا تھا۔ لفظ مجھ سے روٹھ چکے تھے۔ میں نے لاکھ چاہا کہ زبردستی قلم کو گھسیٹوں اور کچھ لکھ ڈالوں، مگر قلم نے میری ایک نہ سنی۔ میں نے اس کی بارہا خوشامد کی کہ مجھے اس طرح اکیلا نہ چھوڑے مگر قلم کا ایک ہی جواب تھا، مٰیں تمہارے لیئے کام نہیں کر سکتا، تم بےحس ہو۔

میرے لیئے یہ بےحسی کی گالی بہت تکلیف دہ تھی۔ میں نے اپنے تئیں اس بے حسی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا شروع کردی۔ اس ہی کوشش میں، میں نے معاشرے پر نظر دوڑائی تو مجھے احساس ہوا کہ میں کس گندگی کے ڈھیر میں جی رہا ہوں!  جس معاشرے اور مثبت پہلوئے زندگی پر میں کہانیاں تراشتا تھا دراصل اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ جس اتحاد و اتفاق کی مثالیں میں دیا کرتا تھا وہ کہیں سیاست کے نام پر اور کہیں مذہب و مسلک کے نام پر چیتھڑوں میں تبدیل ہوچکا تھا۔ جس مثبت خیالی اور عظم و حوصلے کی طرف میں لوگوں کو بلاتا تھا وہ خود میرے اندر عنقا تھا۔ جو معاشرہ رات کے کھانے کے بعد اگلے دن کی بھوک کے تصور سے رات بھر جاگتا ہو اس معاشرے میں مثبت خیالی زندہ رہ بھی کیسے سکتی تھی؟ میں نے محسوس کیا کہ جس زندگی کی تعریف میں میں ہمیشہ رطب اللسان رہا ہوں وہ دراصل کتنی بھیانک ہے۔ جن رشتوں کی تعریف میں میں نے کہانیوں اور افسانوں کے انبار لگا دیئے ہیں وہ دراصل کتنے کھوکھلے ہیں۔ احساس کے دریچے مجھ پر کھلتے گئے اور زیست میرے لئے دشوار تر ہوتی چلی گئی۔ مگر اب یہ اطمینان ضرور تھا کہ قلم سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جڑگیا تھا۔

میں احساس کی دولت سمیٹ کر واپس اپنی لکھنے والی میز پر آگیا۔ قلم نے مسکرا کر میرا استقبال کیا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے شاباش دے رہا ہو۔ میں مسکرایا اور لکھنا شروع ہوگیا۔ مگر لکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ قلم میرے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ مزاح لکھوں مگر قرطاس پر صرف خون منتقل ہوتا نظر آرہا تھا۔ معصوم پاکستانیوں کی امیدوں کا گاڑھا سرخ خون۔ میں اس خون کو دیکھ کر لرز اٹھا اور چاہا کہ قلم چھوڑ دوں مگر تب مجھے احساس ہوا کہ میں اب چاہ کر بھی اس خوں ریز قلم سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ مجبوری کی حالت میں ہی سہی مگر میں لکھتا چلا گیا۔ جب دوات خالی ہوتی، میں معاشرے کے اندر کوئی چھپا ہوا گھائو ڈھونڈتا اور قلم کی نوک اس میں گاڑ کر اس میں سے مزید روشنائی حاصل کرلیتا۔ میرے اس فعل سے معاشرے کے وہ گھائو جنہیں قدرت نے کمال مہربانی سے چھپا رکھا تھا، لوگوں کے سامنے آنا شروع ہوگئے۔ ماحول مکدر تر ہوتا چلا گیا مگر میں کیا کرتا؟ میں مجبور تھا کہ اب مجھے اس خون کی لت لگ چکی تھی۔ میری تحاریر پڑھ کر لوگ بلبلاتے تھے، کڑھتے تھے، دھاڑیں مارتے تھے، مگر میں کیا کرتا؟ میں جب تک انہیں تڑپا نہیں لیتا تھا، میں خود تڑپتا رہتا تھا۔

وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ احساس ہوگیا کہ میں اتنے عرصے امید و مثبت خیالی کے نام پر جھک مارتا رہا تھا۔ اس اذیت پسند معاشرے میں میری یہ نوچنے اور کاٹنے کی بیماری ایک نعمت سے کم نہیں تھی۔

اب میں پہلے سے زیادہ کہانیاں لکھتا ہوں اور پہلے سے زیادہ مطمئن زندگی گزارتا ہوں۔ میں کہ جو کسی زمانے میں ایک ٹھیلہ بھی لگا چکا ہوں اب خود کے چھ پیٹرول پمپ رکھتا ہوں۔ ایکڑوں پر محیط میری اراضی ہے۔ سیاسی جماعتیں میری چوکھٹ چومتی ہیں کہ میں ان کے حق میں کالم لکھوں۔ تصور تو کیجئے، اگر میں بھی دوسروں کی طرح مثبت خیالی کا پرچار کرتا رہتا تو آج زیادہ سے زیادہ کسی اخبار میں جنرل مینجر بن جاتا؟ جبکہ آج بیسیوں اخبارات کے جنرل مینجر میرا سفارشی رقعہ لینے کیلئے میرے آگے پیچھے گھومتے ہیں۔

میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل صحیح پہچانا، میں ایک مشہور اخبار کیلئے کالم اور اس ہی ادارے کے ٹیلیویژن چینل کیلئے حالات حاظرہ پر تبصرے کا ایک پروگرام کرتا ہوں۔

سچی خوشی

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی بستی میں جعفر اور عمر نام کے دو دوست بستے تھے۔ دونوں کا تعلق اچھے گھرانوں سے تھا جہاں بچوں کو سونے کا نوالہ کھلا کر دیکھا شیر کی آنکھ سے جاتا تھا۔ کہانی چونکہ غیر سیاسی ہے لہٰذا آپ بھی اسے جنگل والا شیر ہی سمجھیں جو اب تک سیاست کے کارزار سے دور، اور شاید اس ہی لیئے عزت دار ہے۔
جعفر اور عمر اچھے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ کلاس فیلو بھی تھے۔ دونوں شروع سے پڑھائی میں اچھے ہونے کے ساتھ ساتھ بزرگوں کا احترام کرنے اور غریبوں کے کام آنے کیلئے بھی مشہور تھے۔ دونوں دوستوں میں اکثر یہ دوستانہ مخاصمت بھی رہتی کہ نیکی کے کاموں میں کون دوسرے سے سبقت لے جائے۔
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں اب سینئر کیمبرج میں پہنچ گئے تھے۔ دونوں دوستوں کو نئی ٹیکنالوجی خاص طور پر موبائل فون کا بہت شوق تھا۔ ان دونوں کی کوشش ہوتی تھی کہ وقت کا سب سے جدید موبائل فون ان کے استعمال میں ہو۔ چونکہ باقی چیزوں میں دونوں دوست کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتے تھے لہٰذا ان کے اس بےضرر شوق سے بھی کسی کو کوئی شکایت نہیں تھی۔ کیمبرج کے امتحانات اب نزدیک تھے سو ان کا جذبہ بڑھانے کیلئے دونوں کے گھر والوں نے یہ اعلان کردیا تھا کہ اگر وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتے ہیں تو ان دونوں کو اپنی مرضی کے موبائل فون دلا دیئے جائیں گے۔ وہ دونوں اس چیز کو لیکر کافی پرجوش تھے اور خوب دل لگا کر پڑھائی کر رہے تھے۔
امتحان آئے بھی اور چلے بھی گئے۔ نتیجہ آیا تو ان دونوں دوستوں کی محنت رنگ لے آئی اور دونوں دوست امتیازی نمبروں سے پاس ہوگئے۔دونوں کے گھر والے ان کی اس کامیابی سے بےحد خوش تھے۔ انہوں نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا اور آج یہ دونوں دوست اپنے لیئے نیا آئی فون 6 خریدنے مارکیٹ کیلئے نکلے ہوئے تھے۔
دونوں دوستوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ نہ صرف وہ، بلکہ ان کے دوست بھی اس نئے فون کو دیکھنے کے مشتاق تھے جس کے بارے میں وہ پچھلے ایک ماہ سے انٹرنیٹ پر چیزیں پڑھ رہے تھے۔ انتظار کی گھڑیاں طویل ضرور تھیں مگر اس صبر کا انہیں بہت میٹھا پھل مل رہا تھا اور یہی ان کیلئے بہت تھا۔
وہ دونوں مارکیٹ میں داخل ہونے ہی لگے تھے کہ تین چار لوگوں نے انہیں گھیر لیا۔ ان میں سے ایک ضعیف بوڑھا تھا اور باقی دو مفلوک الحال خواتین۔ بوڑھے نے جعفر کا ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے فریاد کی کہ اس کا جوان بیٹا ایک اندھی گولی کا شکار ہوچکا ہے اور اب اس کے گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر وہ دونوں اس کی مدد کردیں تو وہ اپنے یتیم پوتے پوتیوں کے لیئے کھانا لے جائے گا۔ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ اس کے گھر میں دو جوان بیٹیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے رخصت نہیں ہوپارہی ہیں اور اسے ان کی امداد کی ضرورت ہے جبکہ دوسری خاتون کا شوہر ایک حادثے کے بعد سے گھر پر پڑا ہوا تھا اور اب اس کے پاس اپنے خاوند کے علاج کیلئے پیسے نہیں تھے۔ نیز اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر عمر اور جعفر اس کی مدد کردیں تووہ ان پیسوں سے اپنے بچوں کا اسکول کا یونیفارم اور کتابیں بھی خرید لے گی کہ سرکار کے ہزارہا دعووں کے باوجود اب بھی کتب اور یونیفارم بازار سے ہی خریدنا پڑتا ہے۔
جعفر اور عمر دونوں خاموشی سے ان کی گفتگو سنتے رہے اور جب ان تینوں کی بپتا ختم ہوئی تب تک ان دونوں کی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے۔ دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر تمام پیسے نکال لیئے۔ دونوں نے ان پیسوں کو گنا تو یہ پورے دو لاکھ روپے تھے؛ اتنی ہی رقم تھی جس سے وہ نیا موبائل آنا تھا۔ اگر اس میں سے سو روپے بھی کم ہوجاتے تو وہ نیا موبائل نہیں لے سکتے تھے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرا اٹھے۔ وہ دونوں ایک فیصلے پر پہنچ چکے تھے۔ دونوں نے پیسے جیب میں واپس ڈالے اور ان تینوں کو "معاف کرو بابا، چھٹے پیسے نہیں ہیں" کہہ کر مارکیٹ میں داخل ہوگئے۔
لاکھوں روپے غریبوں پر لٹا کر صرف بچوں کے رسالوں میں ہی خوشیاں ملتی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ آئی فون 6 سے ملنے والی سچی خوشی انہیں کبھی بھی ان بھکاریوں کو پیسے دیکر حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔
ختم شد

بابو بھائی

اگر زندگی میں کبھی بھی آپ کا کراچی میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ کم سے کم کسی ایک بابو بھائی کو ضرور جانتے ہونگے۔ بابو بھائی کراچی کی ہر گلی اور ہر محلے میں پائے جاتے ہیں۔ کہیں کریانے والے کی شکل میں اور کہیں پان فروش کے روپ میں۔ کہیں محلہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر اور کہیں گوشت کی دکان پر بیٹھے ہوئے۔ بابو بھائی نیٹ ورک پورے کراچی میں ہے اور سر چڑھ کر بولتا ہے۔ تحقیق کی جائے تو شاید ان میں سے کسی ایک کا بھی اصل نام بابو نہیں ہوگا مگر وقت نے ان کے اصل نام پس پردہ ڈال کر ان سب کو بابو بھائی کی شناخت دے دی تھی۔ ہر محلے کی طرح ہمارے محلے میں بھی ایک بابو بھائی ہوا کرتے تھے۔ بابو بھائی ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور چلاتے تھے جہاں بنیادی ضرورت کی بیشتر اشیاء دستیاب ہوا کرتی تھیں۔
بابو بھائی ہم سب کے بابو بھائی تھے۔ میرے دادا بھی انہیں بابو بھائی کہا کرتے تھے اور میرے بابا بھی۔ وہ ہمارے لیئے بھی بابو بھائی تھے اور حد یہ کہ ان کے اپنے بچے بھی پیٹھ پیچھے انہیں بابو بھائی ہی پکارا کرتے تھے۔ محلے کے بڑے لڑکوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ انہوں نے خود بابو بھائی کی بیگم صاحبہ کو بھی انہیں بابو بھائی بلاتے سنا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہمیں ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ بابو بھائی کا جنرل سٹور ہمارے لیئے ایک اڈہ تھا۔ شام ڈھلے جب کرکٹ کھیل کر تھک جاتے تو ہم سب بابو بھائی کی دکان کے باہر تھڑے پر بیٹھ کر آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیمز، وسیم اکرم اور وقار یونس کی تباہ کن بائولنگ، امتحان میں آنے والے ممکنہ سوالات، اسکول کے اساتذہ کے خواتین ٹیچرز کے ساتھ معاشقے وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے۔ عید بقرعید پر بابو بھائی کی دکان کے باہر ایک شامیانہ لگ جاتا۔ محلے کے ہر بڑے کو جان بوجھ کر سلام کیا جاتا اور زبردستی عیدی وصول کی جاتی۔ "عیدی جمع کرکے رکھنا تو لڑکیوں کا کام ہے" کہہ کردل کو تسلی دی جاتی اور سیدھے بابو بھائی کی دکان پر پہنچ جاتے۔ خوب خوب آئسکریم کھائی جاتی اور دکان کے باہر لگی کرسیوں پر بڑوں کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر ایپل سڈرا کو اس طرح پیتے جیسے واقعی شراب پی رہے ہوں۔ دو چار چھچھورے تو پینے کے بعد جھومنے کی بھی اداکاری کرتے اور ہم سب کو یقین آجاتا کہ معاملہ صرف ایپل اور سڈرا کا نہیں، اس مشروب میں واقعی کچھ ملا ہوتا ہے۔
ہم سب لڑکوں کو کرکٹ سے جنون کی حد تک لگائو تھا۔ ہم لوگ جلتی دوپہروں سے لیکر شام گئے تک کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ مغرب سے کچھ پہلے بڑوں کی گھر واپسی کا خوف نہ ہوتا تو ہم شائد عشاء تک بھی اس ہی طرح اپنا کھیل جاری رکھتے۔ ٹیپ بال کرکٹ اس زمانے میں عروج پر ہوا کرتی تھی اور ٹیپ بال کھیلنے کیلئے رمضان کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ گیند اور بلے کی پھر بھی خیر ہوتی تھی کہ ایک دفعہ خریدنے کے بعد وہ کچھ دن سکون سے نکال جاتے تھے۔ ٹیپ مگر روز خریدنا پڑتا تھا کہ جس حساب سے سڑک پر کرکٹ کھیلی جاتی تھی، دن میں ٹیپ کا ایک رول ہم با آسانی ختم کردیتے تھے۔ مڈل کلاس محلے میں ہم بچوں کیلئے روز کے ڈھائی روپے نکالنا ایک مشکل کام تھا۔ کھینچ تان کر اور گالیاں کھا کر ہم بچے ڈھائی روپے پھر بھی جمع کرہی لیتے تھے کہ کرکٹ کھیلے بغیر بھی گزارہ ممکن نہیں تھا۔
رو پیٹ کر دن گزر رہے تھے کہ خدا نے ہماری سن لی۔ مارکیٹ میں ایک نئی کمپنی "اوساکا" کے نام سے آگئی جو "نیٹو" کے معیار کے ٹیپ رول مہیا کرنے لگی۔ ٹیپ کی قیمت تو وہی تھی جو نیٹو کی تھی البتہ فرق یہ تھا کہ بابو بھائی کی دکان پر نیٹو کی برنی سامنے کائونٹر پر جبکہ اوساکا کا ٹیپ دکان کے اندر کہیں جاکر رکھا ہوا تھا۔ ہم اب ڈھائی روپے لیکر بابو بھائی کی دکان پر جاتے اور نیٹو کی جگہ اوساکا کا ٹیپ مانگتے تھے۔ جتنی دیر میں بابو بھائی اندر سے اوساکا کا ٹیپ لیکر آتے اتنی دیر میں نیٹو کا ایک ٹیپ برنی سے نکل کر ہماری جیبوں میں منتقل ہوچکا ہوتا تھا۔ اگلے چھ سات سال بیچارے بابو بھائی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم نیٹو کی جگہ اوساکا کا ٹیپ کیوں مانگنے لگے ہیں۔
وقت گزرتا گیا۔ ہم سب بھی بڑے ہوگئے اور ہم میں سے کچھ بہت زیادہ بڑے ہوگئے۔ انسان جب بہت بڑا ہوجاتا ہے تو اپنے چھوٹے ماضی کی تمام یادوں کو یا تو چھپا دیتا ہے یا تبدیل کرکے انہیں خوشنما بنا دیتا ہے۔ ہم جب بڑے ہوئے تو گھر والوں نے تبدیل کرنے کے بجائے ان یادوں کو چھپانے کا فیصلہ کرلیا اور ایک پوش علاقے میں منتقل ہوگئے۔ اس بات کو بھی دس برس بیت گئے۔ کل اتفاق سے پرانے محلے کی طرف گزر ہوا تو میں نے کچھ دیر ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا۔ بابو بھائی اب بوڑھے ہوگئے ہیں مگر ان کا سٹور پہلے سے زیادہ جوان تھا۔ خدا نے کاروبار میں برکت دے دی تھی اور اب برابر والی دونوں دکانیں بھی خرید کر اس جنرل سٹور میں شامل کرلی گئی تھیں جو اب ایک سپر سٹور میں تبدیل ہوگیا تھا۔
بابو بھائی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مجھے لگتا تھا کہ ان سالوں میں، میں بہت تبدیل ہوگیا ہوں۔ بابو بھائی مگر خدا جانے کس طرح مجھے پہچان گئے۔ پوچھنے پر بولے کہ، لڑکے! تیری رگ پٹھے سے واقف ہوں۔ آج بھی تیرا سلام کرنے کا وہی انداز ہے جو دس سال پہلے تھا۔ باقی حرکتیں بھی ویسے ہی ہیں یا صرف سلام کرنے کا انداز وہی رکھا ہے؟ میں مسکرا کر چپ ہوگیا۔ میں کیا بولتا؟ کیسے بتاتا؟
بابو بھائی اب بہت ضعیف ہوگئے تھے۔ ان کے چہرے پر اب جھریاں بھی آگئی تھیں۔ مجھے لگا کہ میں شاید انہیں دوبارہ نہیں دیکھ پائوں گا کہ بستی میں کون سا میرا روز آنا ہوتا تھا؟ میں نے موقع غنیمت جان کر بچپن سے اپنے دل پر چڑھا وہ بوجھ ہلکا کر دیا کہ کس طرح ہم بابو بھائی کی دکان سے ٹیپ رول چرایا کرتے تھے اور ان کو آج تک اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ جن بچوں کو وہ بہت معصوم سمجھتے تھے اصل میں وہ چور تھے! بابو بھائی میری بات سن کر مسکرائے اور میرے قریب آکر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں بابو بھائی کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ وہ مجھے گالیاں دیں۔ ان چھ سالوں میں ہر دوسرے دن کے ایک ٹیپ رول کے پیسوں کا حساب سود کے ساتھ بنائیں اور میرے منہ پر مار کر کہیں کہ نکال پیسے!! یا شاید وہ چاہیں تو مجھے مار بھی سکتے ہیں کہ میری حرکت تھی بھی اس قابل! ڈھائی روپے بابو بھائی کیلئے بھی اتنے ہی اہم تھے جتنے ہمارے لیئے کہ وہ بھی ہماری ہی طرح اس محلے میں رہنے والے ایک مڈل کلاس انسان تھے۔ میں بابو بھائی کی طرف دیکھ رہا تھا اور بابو بھائی مسکرا رہے تھے۔ اس مسکراہٹ اور خاموشی کا دورانیہ کچھ سیکنڈز کا تھا مگر کئی صدیوں کا بوجھ میرے وجود پر ڈال رہا تھا۔ بابو بھائی جب بولے تو میری رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔ بابو بھائی کا یہ کہنا کہ انہیں یہ سب معلوم تھا مجھے اوپر سے نیچے تک ہلا گیا۔ میں اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ ایک انسان جانتے بوجھتے اتنے سالوں تک روزانہ کی بنیاد پر نقصان کیونکر برداشت کرسکتا ہے؟ میں نے بابو بھائی کا ہاتھ تھام کر ان سے پوچھا کہ وہ اتنے عرصے چپ کیوں رہے؟ کبھی ہمیں پکڑا کیوں نہیں؟ ہمارے گھر والوں سے شکایت کیوں نہیں لگائی؟ بابو بھائی ایک بار پھر مسکرا کر بولے، بیٹا تمہیں کیا لگتا ہے کہ شو کیس پر اتنی جگہ ہونے کے باوجود آج تک اوساکا کا ٹیپ دکان کے اندر کیوں رہا؟ آج یہ جنرل سٹور سپر سٹور بن گیا ہے مگر آج بھی اوساکا کا ٹیپ لینے کیلئے کائونٹر والے لڑکے کو اٹھ کر ہی جانا پڑتا ہے۔ میں نے پہلی بار جب نیٹو کا ایک ٹیپ کم دیکھا تو میں اس ہی دن سمجھ گیا تھا۔ مگر تم لوگوں کے خوشی سے ٹمٹماتے چہرے اور یہ احساس کے اب تم لوگوں کو کل کسی سے کھیلنے کیلئے چندہ نہیں مانگنا پڑے گا، میرے پیروں کی زنجیر بن گیا۔ تم خود بتائو، ڈھائی روپے کی خاطر میں تم لوگوں کی یہ انمول خوشی کیسے چھین سکتا تھا؟
میں نے زندگی میں بابو بھائی سے زیادہ گھٹیا، مطلبی اور بچوں کو بگاڑنے والا انسان نہیں دیکھا۔ گھٹیا اور مطلبی اس لیئے کہ صرف ڈھائی روپے کے ٹیپ سے کمبخت وہ کام کرگئے کہ اب میں ڈھائی کروڑ بھی ان پر خرچ کردوں تو قرض ادا نہیں ہوسکتا۔
دکان سے باہر نکل رہا تھا تو دیکھا کہ محلے کے بچے کائونٹر پر کھڑے لڑکے سے اوساکا کا ٹیپ مانگ رہے ہین۔ میں آنکھ کو رگڑتا ہوا دکان سے باہر آگیا۔

زبان دراز کی ڈائری - 10

پیاری ڈائری!
آج میرا ڈائری لکھنے کا قطعاّ کوئی ارادہ نہیں تھا مگر کیا کرتا۔ کچھ درد اگر قرطاس پر منتقل نہ کیئے جائیں تو جسم کے اندر ہی گھائو بنا کر بس جاتے ہیں اور پھر گھائو سے لاوہ بنتے انہیں کب دیر لگتی ہے؟ اور لاوے کی فطرت تو تم جانتی ہی ہو کہ یہ یا تو اندر ہی اندر چٹان کو کھاتا رہتا ہے یا پھر ایک ہی دفعہ باہر نکل کر سب کچھ برباد کر چھوڑتا ہے۔ بہتر ہے کہ درد کو درد ہی رہنے دیا جائے اور اسے رگوں سے نچوڑ کر قرطاس پر منتقل کردیا جائے۔
میں جانتا ہوں تمہیں ان سب سنجیدہ چیزوں کی عادت نہیں ہے اور مجھ سے یہ باتیں سننا تمہیں ضرور حیران بلکہ شاید کچھ حد تک پریشان  بھی کر رہا ہوگا۔ مگر میں کیا کروں کے آج کوشش کے باوجود بھی میں مسکرا نہیں پارہا۔ میں چاہتا ہوں کہ قلم سے شگوفے بکھیروں، تمہارے چہرے پر مسکراہٹ لائوں، طنز کے لطیف نشتر سے تمہیں گدگدائوں ۔۔۔ مگر آج کا زخم شاید نشتر کے بس کا نہیں ہے۔ اسے کسی معمولی نشتر کی نہیں بلکہ کاٹ دینے والی تلوار کی ضرورت ہے کہ اگر آج بھی تلوار نہ چلی تو اس زخم میں موجود زہر پورے جسم کو چاٹ جائے گا۔
پچھلے ایک ہفتے سے طبیعت بہت زیادہ ناساز تھی اور یہ موسمی بخار جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دو ڈاکٹر بدل کر دیکھ لیئے مگر اس بخار نے جان نہیں چھوڑی۔ کل خالہ جان ملنے کیلئے آئیں تو جاتے ہوئے کہہ گئیں کہ بیٹا روائتی علاج اپنی جگہ سہی مگر ہوسکے تو گوشت کا صدقہ نکال دو۔ صدقہ بہت سی آفات و بلیات کو ٹال دیتا ہے۔ بات بھی کچھ مناسب تھی اور ویسے بھی بیماری و کمزوری میں انسان مذہب سے کچھ قریب ہوجاتا ہے سو آج صبح جاکر میں بھی حسب استطاعت ایک چھوٹا سا بکرا خرید کر لے آیا کہ گھر میں ہی صدقہ دلاکر گوشت مستحقین میں تقسیم کردوں۔
خیر سے بکرا بھی آگیا اور صدقہ بھی دے ڈالا۔ اب جب گوشت مستحقین کو دینے کی باری آئی تو میں نے اپنے دفتر کے ایک چپڑاسی کو فون کرکے بلا لیا۔ خدا بیچارے مشتاق کو خوش رکھے کہ وہ چپڑاسی ہونے کے باوجود ایک بڑے دل کا مالک ہے اور مجھے یقین تھا کہ اس کے علم میں کوئی نہ کوئی ایسا مستحق ضرور ہوگا جو صدقے کا یہ گوشت استعمال کرسکے۔
میں نے گوشت مشتاق کے حوالے کیا اور اس کو تاکید کی کہ کسی واقعی مستحق انسان تک اسے پہنچا دے۔ مشتاق نے گوشت کا تھیلا میرے ہاتھ سے لیا مگر اپنی جگہ سے ہلا نہیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو مشتاق نے بھرائی ہوئی آواز مٰیں ایک ایسا سوال کرڈالا کہ جس کا جواب میں اب تک ڈھونڈ رہا ہوں۔ مشتاق نے کہا کہ صاحب! میں سید ہوں لہٰذا صدقے کا گوشت مجھ پر حرام ہے؛ میری اپنی ذات پر اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، پر صاحب میرے گھر والوں نے پچھلے تین سال سے بکرے کا گوشت نہیں کھایا ہے!! آپ تو مذہب جانتے ہیں، کیا کوئی ایسی صورت نہیں نکل سکتی کہ میں اس پورے تھیلے میں سے تین، چار بوٹیاں اپنے والدین کیلئے استعمال کرسکوں؟؟؟
پیاری ڈائری! مشتاق تو گوشت لیکر چلا گیا مگر میری طبیعت سنبھلنے کے بجائے مزید خراب ہوگئی ہے۔ دوپہر سے ٹیلیویژن کے آگے بیٹھا ہوں اور دماغ میں صرف ایک ہی بات چل رہی ہے؛
میاں صاحب کو ہرن نہیں کھانا چاہیئے تھا۔
والسلام
لٹا ہوا پاکستانی

زبان دراز کی ڈائری - 9

پیاری ڈائری!

کیا لکھوں اور کیوں لکھوں؟ تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے زیادہ بولنے کی عادت نہیں۔ یاد ہے شادی والے دن بھی جب نکاح خواں نے دوسری مرتبہ مجھ سے پوچھا کہ آیا مجھے یہ شادی قبول ہے تو میں نے ان سے بھی پوچھ لیا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں یقین نہیں آرہا ؟؟؟ خیر، کم بولنے اور زیادہ کھانے کی عادت تو مجھے بچپن سے ہی تھی اور شاید اس ہی وجہ سے والدہ مرحومہ فرماتی تھیں کہ یہ میسنا بڑا ہوکر ضرور سیاستدان بنے گا۔ ماں کی دعائوں میں کتنی برکت ہوتی ہے اس کا اندازہ عمر کے اس حصے میں جاکر ہورہا ہے۔

یوم آزادی کے بعد سے گھر کے باہر پہلے سپاہیوں اور پھر عوام کا ایک ہجوم جمع ہوگیا ہے۔ خیر سے ایک ہفتہ ہونے کو آرہا ہے کہ گھر میں بند ہیں۔ نہ کہیں آ سکتے ہیں نہ کہیں جاسکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو یہ سب بہت اچھا لگا کیوںکہ کسی نے ہمیں یہ خوش فہمی دے دی تھی کہ یہ لوگ ہماری رہائی کیلئے آئے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ یہ خام خیالی بھی دور ہوگئی۔ دوسری طرف بیگم صاحبہ بھی اس سب سے تنگ آگئی ہیں۔ عورت کو وقت پر سانس نہ ملے تو پھر بھی گزارہ ممکن ہے مگر وقت پر کام والی ماسی نہ ملے تو ۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔ اب سلسلہ یہ ہے کہ ایک ہفتے سے ماسی نہیں آرہی اور بیگم صاحبہ کو سارے کام خود کرنے پڑ رہے ہیں۔ آج صبح تنگ آکر بول ہی پڑیں کہ "فارغ ہی تو بیٹھے رہتے ہیں، زرا سبزی ہی کاٹ دیں"۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خدانخواستہ یہ آنسو ذلت کے نہیں تھے کیونکہ بیوی کا ہاتھ بٹانے میں کیسی ذلت؟ ذلت تو تب ہوتی جب میں ہاتھ بٹانے سے انکار کردیتا۔ خیر سے سبزیاں کاٹنے بیٹھا تو ماضی کی ساری حسین یادیں ایک ایک کرکے سامنے آنے لگیں اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ ہوش تب ہوا جب بیگم صاحبہ کی چنگھاڑ سنائی دی کہ یہ برنس روڈ نہیں شاہراہ دستور ہے اور اب ہم چاٹ نہیں منجن بیچتے ہیں!!! یہ ڈھیروں پیاز جو کتری ہے اب اسے کھائے گا کون؟؟  لو جی، پیاز کترنے بیٹھے تھے اور آلو آگیا۔

اس آلو، پیاز اور ماضی سے جان چھڑانے کیلئے ہم ٹیلیویژن کے آگے بیٹھ گئے۔ ایک عجیب نفسانفسی اور مارا ماری کا حال چل رہا تھا۔ کہیں کسی لیڈر کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور کہیں کوئی اینکر مرگی میں مبتلا نظر آرہا تھا۔ ہر لمحہ لائیو کوریج دینے کے شوق میں یہ قوم پتہ نہیں کہاں نکل گئی ہے۔ شکر ہے کہ پرانے زمانے میں میڈیا نہیں تھا ورنہ ایران، چین اور فرانس وغیرہ میں آج تک لوگ دھرنوں میں ہی بیٹھے ہوتے کہ ہر لیڈر یہ جانتا ہے کہ انقلاب کے بعد کیمروں کا رخ اس کے چہرے سے ہٹ کر اس کی کارکردگی پر چلا جاتا ہے۔ اور مفت میں ملنے والی اس شاندار کوریج پر کس کافر کا ایمان خراب نہ ہو؟؟ خیر یہ تو سیاسی باتیں ہیں اور مجھے بڑے میاں جی نے سختی سے تاکید کی ہے کہ بھائی ویسے تو اب کوئی اٹھاون ویں ترمیم نہیں رہی مگر پھر بھی خدا کے واسطے آپ نے کوئی سیاست نہیں کرنی ہے!! 

ٹیلیویژن بند کرکے کافی دیر بیٹھا رہا اور سوچتا رہا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ کس کو رکنا چاہیئے اور کس کو جانا چاہیئے؟ باہر جتنے لوگ کھڑے ہیں ان میں سے کتنے جانتے ہین کہ میاں جی کے رکنے یا جانے کا معاملہ وہی ہے کہ مالک کوئی بھی ہو، گدھے کی زندگی پر فرق نہیں پڑتا۔ ان مالکان کو تبدیل کرنے کے بجائے یہ گدھے اگر ایک مرتبہ خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرلیں تو ان مالکان اور ان کو ہٹانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ تبدیلی، انقلاب اور مذہب وہ تین چیزیں ہیں جن کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ دکان خوبصورت ہونی چاہیئے، گاہک بےشمار۔ مگر ان گدھوں کو اس بات کا شعور کبھی نہیں ہوسکتا۔ شعور ہوجائے تو گدھے کہلائیں ہی کیوں؟

شام کو ٹہلتا ہوا میں بھی ہجوم میں شامل ہوگیا۔دھرنے میں کراچی سے آئے ہوئے دو تین لوگوں نے پہچان لیا اور برنس روڈ والے دہی بڑوں کی بہت تعریف بھی کی۔ آنکھیں بھر آئیں، دل کیا کہ سب کچھ تیاگ کر ایک مرتبہ پھر واپس کراچی چلا جائوں جہاں میرے محلے میں اب تک میری تصویر کے ساتھ  تلاش گمشدہ کے اشتہار لگے ہوئے ہیں۔ پھر مگر یاد آگیا کہ عام طور پر سیاست کے سینے میں دل، سیاسی کارکن کے سر میں دماغ اور سیاسی قیادت کے اندر ضمیر ہونا محض کتابوں میں اچھا لگتا ہے۔ اصل زندگی میں ہم سب کو صرف قائداعظم سے محبت ہے۔ جی وہی تصویر والے۔

والسلام

منو!!

زبان دراز کی ڈائری - 8

پیاری ڈائری!

زندگی میں کبھی یاوہ گوئی کی عادت نہیں رہی اور اب افسوس ہورہا ہے کہ کاش صحیح وقت پر کچھ مناسب گالیاں سیکھ لی ہوتیں تو اس شاعرِ جنوب کو ایک جوابی خط لکھ ڈالتا۔ مگر خیر جو ہوا سو ہوا۔

کل پاکستان سے کسی عاطف صاحب کا محبت نامہ ملا جس میں انہوں نے ملک کے حالات پر معافی مانگنے سے یکسر انکار کردیا تھا اور مُصِر تھے کے صرف شرمندگی سے ہی کام چلایا جائے۔ یقین ہوگیا کہ خط واقعی پاکستان سے ہی آیا ہے کیوںکہ اتنی گھٹیا اردو دنیا کے کسی اور کونے میں نہیں بولی جاتی۔

خط پڑھ کر بہرحال حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی؛ خوشی اس بات کی کہ آج بھی چند لوگ ہیں جو پر امید ہیں اور حیرت اس بات پر کہ پاکستان میں اب بھی لوگوں کو اردو لکھنی یاد ہے؟ یہاں تو اب جتنے بھی پاکستانی آتے ہیں وہ سب تو رومن میں لکھتے ہیں۔ زبان ہی کے تذکرے پر پرسوں علامہ صاحب فرما رہے تھے کہ اردو کی بقا کی واحد صورت یہ ہے کہ امریکہ اسے قومی زبان کے طور پر قبول کرلے۔ خیر علامہ کے فلسفے تو علامہ ہی جانیں۔ مجھے بہرحال خط پڑھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیاقت علی خان نے سمجھایا تو انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ آج کل پاکستانی لیڈران کا سال میں ایک آدھ مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنا فیشن میں ہے۔ خیر جناب، اللہ میاں سے اجازت لی اور ٹہلتے ٹہلتے رات کے کسی پہر کراچی پہنچ گیا۔

مزار سے باہر نکلا تو موٹرسائیکل پر سوار چند لڑکے نما مخلوق زناٹے سے برابر سے گزری۔ اگر سن اڑتالیس میں وقت پر ایمبولینس آگئی ہوتی تو اس بغیر سائلینسر کی موٹر سائکل ریلی کی آوازوں سے سن دو ہزار چودہ میں ضرور کام ہوجاتا۔ دیر تک وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر حواس بحال کرتا رہا۔ ابھی بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ایک موٹرسائکل برابر میں آکر رکی اور اس پر سوار دو لڑکوں میں سے ایک نے بندوق نکال کر موبائل مانگ لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اول تو میرے پاس موبائل نہیں ہے کہ جنت میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرا یہ کہ موبائل مانگنے کیلئے بندوق نکالنے کی کیا ضرورت؟ اگر آپ نے کسی کو کال ہی کرنی ہے تو مانگنے کے اور بھی عزت دار طریقے ہیں۔۔۔ حد ہوتی ہے!! نوجوان حیرت سے میری شکل دیکھ رہا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، اس کے پیچھے والے لڑکے نے اس کو کہنی مار کر کہا کہ "بڈھا خبطی ہے اور مجھے اس کی شکل جانی پہچانی لگ رہی ہے۔ خوامخواہ جان پہچان نکل گئی تو مسئلہ ہوگا، ٹائم کھوٹا نہ کر اور نکل"۔ پہلے والے نے جلدی سے موٹرسائکل کا گیئر ڈالا اور موٹرسائکل اڑا دی۔ عجیب نامعقول سے لڑکے تھے۔ اگر رک کر میری بات سن لیتے تو کیا پتہ ان ہی سے لفٹ مانگ کر آگے چلا جاتا۔

ان لڑکوں سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک خاتون آکر گلے پڑ گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ میں کسی شاہ رخ خان سے ملتا ہوں اور اگر میں چاہوں تو یہیں "بابے کے مزار " کے ساتھ والے کمرے میں ان کے ساتھ جاسکتا ہوں۔ میں نے پہلے تو انہیں سمجھایا کہ یہ صرف پسینے کی وجہ سے میرا چہرا چمک رہا ہے اور ان کے خیال کے برعکس میں ویسا چکنا نہیں ہوں جیسا انہوں نے مجھے پکارا۔ دوسری بات یہ کہ میں اس ہی بابے کے مزار سے نکل کر آرہا ہوں اور یہیں ہوتا ہوں۔ وہ بیچاری پتہ نہیں کیا سمجھی اور کھسیانی ہو کر مجھے چند روپیے دینے کی کوشش کرنے لگی۔ میری تو خود یہ معاجرہ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر میں نے پھر بھی اسے سمجھایا کہ میں اس سے پیسے نہیں لے سکتا۔ وہ یہ کہتی ہوئی تیزی سے ایک طرف چلی گئی کہ بابو پتہ نہیں تھا آپ مینجمنٹ والے ہو آئندہ احتیاط کروں گی۔

ان ہی جھمیلوں میں اب رات کے بارہ بجنے والے تھے اور مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس شہر کو ہوکیا گیا ہے۔ ایک کے بعد ایک مسلسل عجیب کردار ٹکرا رہے تھے۔ سر جھٹک کر میں نے توجہ مزار پر ڈالی تو میرا مزار برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ تیرہ اگست کی رات تھی اور اب چودہ اگست شروع ہونے ہی والی تھی۔ میں خوشی سے اپنے مزار کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک فائرنگ کی بھیانک آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ مجھے لگا کہ شاید ہندوستان نے حملہ کردیا ہے، میں گاندھی کو کوستا ہوا واپس مزار کے اندر بھاگا تو اس مرتبہ گیٹ پر موجود گارڈ نے روک لیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ باہر اس طرح حملہ ہوگیا ہے اور اب اسے بھی مورچہ بند ہوجانا چاہیے تو اس مریض نے ایک طرف منہ میں بھرے خون کی کلی کری اور قمیض کے دامن سے منہ پونچھتے ہوئے بولا کہ چاچا پہلی بار چودہ اگست دیکھ رہے ہوکیا؟ میں نے اس سے کہا کہ میں جشن آزادی اور چودہ اگست کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں مگر یہ حیوانوں کی طرح برتائو اور اس طرح اندھادھند فائرنگ سے کونسا جشن اور کون سی ملک کی خدمت کی جارہی ہے؟ جواب میں اس نے وہی خون آلود ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور بولا، چاچا، چودہ اگست کو صرف یہ ملک آزاد نہیں ہوا تھا۔ یہ سب درندے بھی آزاد ہوگئے تھے۔ اب جس درندے کے منہ میں اس ملک کے جسم کی جتنی بڑی بوٹی آتی ہے وہ اتنا ہی بڑا لقمہ نوچ لیتا ہے۔ میں نے پوچھا، کہ کوئی ان درندوں کو روکتا کیوں نہیں؟ اس نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور ایک عجیب سا کتھئی رنگ کا مواد منہ میں رکھتے ہوئے بولا، چاچا، یہ ایک فلمی دنیا ہے۔ یہاں ہیرو ہیروئن بچانے کیلئے غنڈوں کو صرف اس لیئے روکتا ہے تاکہ پکچر کے اختتام پر وہی عزت وہ خود لوٹ سکے۔

اس ساری گفتگو کے دوران میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھ میں آنسو آگئے تھے۔ میں نے موضوع تبدیل کرنے کیلئے اس سے پوچھ لیا کہ یہاں تو قائد اعظم دفن ہیں تو یہاں اتنی بندوقوں کے ساتھ پہرے داری کرنے کی کیا ضرورت؟ وہ میرے قریب آیا اور میرے کان میں تقریباٗ پچکاری مارتے ہوئے بولا، چاچا، اگر یہ قائد غلطی سے بھی دوبارہ زندہ ہوگیا تو ملک کے حالات دیکھ کر انگریزوں کو ملک واپس کردے گا اور ساتھ میں معافی بھی مانگے گا۔ ہم بندوق لیکر اس ہی لیئے کھڑے ہیں کہ قائد نکل کر بھاگ نہ جائیں۔ ملک کی عزت کا سوال ہے، بڑی بدنامی ہوجائے گی۔

مجھے اب اس نامعقول انسان پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میں نے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے اس کو جذباتی مار مارنے کی کوشش کی۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اس لوٹ مار اور درندگی کے کھیل کے خلاف تمہارے اندر کس قسم کے جذبات ہیں۔ سچ سچ بتانا، تم اس ملک کو لوٹنے والوں کے ذکر پر آبدیدہ کیوں ہوگئے تھے۔ اس کمینے سپاہی نے روہانسی آواز میں جواب دیا، روئوں نہیں تو کیا کروں؟ سب کھا رہے ہیں، ایک ہمیں ہی موقع نہیں مل رہا بس!!

میں اس مردود لمحے کو کوس ہی رہا تھا جب میں نے نیچے آنے کا فیصلہ کیا تھا کہ اچانک محل میں زلزلہ آگیا۔ اب جو دیکھا تو خود کو اپنے ہی محل میں بستر پر پایا۔ خوشی سے سجدہ شکر بجا لایا کہ یہ سب صرف خواب تھا۔ حوروں نے آکر بتایا کہ زلزلے کی وجہ کوئی جون ایلیاء نامی صاحب تھے جو دروازے پر لاتیں اور گھونسے برساتے ہوئے پوچھ رہے تھے کہ وہ علی گڑھ کا لونڈا یہیں رہتا ہے؟؟؟

جون صاحب کی ملاقات کا احوال پھر کبھی، فی الحال اجازت دو۔ کراچی سے جاتے جاتے ایک لفظ سیکھ کر آگیا ہوں، آئندہ کبھی کسی شاعر کا خط آیا تو میں بھی جواب میں لکھ بھیجوں گا ۔۔۔۔۔ کدو!!!

محمد علی

شناخت - مکمل ناول

شناخت
مصنف: سید عاطف علی

اس کہانی کے تمام کردار فرضی ہیں۔ کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف پیشگی معذرت چاہتا ہے۔ نیز اس تحریر کا مقصد کسی بھی فرد، ادارے یا تنظیم کی دل شکنی یا تضحیک نہیں۔ اگر کسی بھی فریق کی اس تحریر سے دل شکنی ہوتی ہے تو ازراہِ کرم مطلع کرے تاکہ ناول کا وہ حصہ ہذف کیا جا سکے۔)


ڈھاکہ

جب وہ ڈھاکہ کے اس رفیوجی کیمپ میں پہنچا تو اس کی عمر فقط تین سال تھی۔ وہ کون تھا، اس کا نام کیا تھا، وہ کہاں سے آیا تھا، ان سب سوالوں کے جواب وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کیمپ کی اگلی اٹھارہ سالہ زندگی میں بھی اس کی کوئی باقاعدہ شناخت نہیں بن پائی اور یہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ تھا۔ کیمپ کے ان اٹھارہ برسوں میں اس کی پہچان صرف "اوئے سالے" کے نام سے تھی کہ ہر کوئی اس کو اس ہی نام سے پکارتا تھا اور وہ غریب یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ یہی اس کا اصل نام ہے۔
یہ کیمپ ان حرماں نصیب لوگوں کا تھا جنہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت پاکستانی شناخت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بیچارے سمجھتے تھے کہ کسی دن پاکستانی طیارے آئیں گے اور انہیں عروس البلاد کراچی لے جائیں گے جس کی سڑکوں پر ان دنوں سونا پڑا ہوتا تھا۔ مگر ہر چھوٹے آدمی کے بڑے خواب کی طرح یہ خواب بھی صرف خواب ہی رہ گیا تھا۔ اب وہ بیچارے "نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم" کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ پاکستان انہیں اپنانے کو تیار نہ تھا اور بنگالی انہیں غدار سمجھ کر ویسے ہی نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
اوئے سالے یہ سب نہیں جانتا تھا، اسے تو بس اتنا پتہ تھا کہ بہت دور ایک پوکستان نامی ملک ہے جہاں اس کی ایک باعزت شناخت ہے اور جہاں اسے اوئے سالے نہیں بلکہ اوئے سالے ساب کہہ کر پکارا جائے گا۔ پاکستان جانا اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ وہ دن بھر محنت مزدوری کرتا اور رات گئے ان ہزار بار گنے ہوئے سکوں اور نوٹوں کو دوبارہ گنتے ہوئے سو جاتا تھا جو وہ پوکستان جانے کیلئے جوڑ رہا تھا۔ پچھلے سات سال سے وہ ہر سال اس ٹریول ایجنٹ کے پاس جاتا رہا تھا جو لوگو کو دنیا بھر میں غیر قانونی طریقے سے بھجوانے کا کام کرتا تھا۔ ہر سال اس کی منزل تک پہنچنے کا خرچہ اس کی جمع پونجی سے کچھ اوپر ہی نکل جاتا تھا اور وہ ہر سال، اگلے سال زیادہ محنت کرکے زیادہ پیسے جمع کرنے کا عزم لے کر لوٹ آتا۔
دن بھر مشقت کر کے اس دن جب وہ گھر پہنچا تو اس کی جیب میں ستر ٹکے تھے۔ یہ ستر ٹکہ اور گذشتہ سات سال کی جمع پونجی ملا کر وہ نوے ہزار تین سو تیس ٹکہ جمع کر چکا تھا۔ اسے ٹریول ایجنٹ کا وہ جملہ یاد تھا "اوئے سالے زوب تک نو وے ہجار ٹوکہ زمع نہ کرلے امار آفس می نی آنا" ۔ اور اب اس کے پاس نوے ہزار ٹکے جمع ہو چکے تھے مگر وہ جانتا تھا کہ اس مرتبہ پھر اسے ایک نیا ہدف دے کر واپس بھیج دیا جائے گا۔
رات بھر وہ ٹھیک سے سو نہیں پایا، کبھی وہ خواب دیکھتا کہ پاکستان ایک گھر ہے جس کے دروازے پر وہ کھڑا ہے مگر کوئی دروازہ نہیں کھول رہا، کبھی وہ دیکھتا کہ وہ کراچی پہنجا ہے اور یہاں سب اس کی آئو بھگت کر رہے ہیں، اس کا ایک شاندار بنگلہ ہے جس کے باہر اوئے سالے صاحب کی تختی لگی ہے۔ بار بار اس کی آنکھ کھل جاتی اور وہ پھر صبح کا تصوّر کرتے ہوئے سو جاتا۔ خیال و خواب کی یہ آنکھ مچولی صبح تک جاری رہی۔ صبح ہوتے ہی وہ ٹریول ایجنٹ کے دفتر جا پہنجا جہاں خلافِ توقع آج اتنا رش نہیں تھا۔ جیب میں پیسوں کو ٹٹولتا ہوا وہ سیدھا عبدالحق کے کائونٹر پر جا پہنچا۔ آج عبدالحق کے تیور کچھ بدلے ہوئے تھے، اس نے اوئے سالے کو کرسی بھی پیش کی اور چائے کا بھی پوچھا۔ اوئے سالے خود سے مدعے پر آتے ہوئے ڈر رہا تھا سو اس نے ادھر ادھر کی باتوں سے گفتگو کا آغٖاز کر دیا۔ عبدالحق کام کی صورتحال سے بہت پریشان تھا۔ پچھلے ایک سال سے لوگوں نے غیرقانونی طور پر پاکستان اور انڈیا جانا کم کردیا تھا کہ اب خود بنگلہ دیش میں کام کی صورتحال بہتر ہوگئی تھی اور اس سب سے عبدالحق کا دھندہ شدید متاثر ہوا تھا۔ طلب اور رسد کا فرق دیکھتے ہوئے اب اس نے دام بھی گھٹا دیئے تھے مگر یہ چیز بھی لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہی تھی۔ کام کی خراب صورتحال کا سن کر اوئے سالے کچھ پر امید ہوگیا تھا۔ اس نے ہمت جمع کرکے عبدالحق سے پوچھ ہی لیا کہ " بھائی زون! اس وقت پوکستان جونے کے کتنے پیسے لوگیں گے؟" عبدالحق نے بتایا کہ ویسے تو خرچہ اسی ہزار کا ہے مگر ڈسکائونٹ آفر میں وہ اسے ستر ہزار میں بھی پاکستان پہنچا دے گا۔ اوئے سالے کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے بے ساختہ عبدالحق کا ماتھا چوم لیا۔ اب اسے اوئے سالے ساب بننے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس نے ستر ہزار نقد گن کر عبدالحق کے ہاتھ پر رکھے اور ایک ہفتے بعد روانگی کی تاریخ پکی کر کے واپس کیمپ آگیا۔
آج اس کی چال ڈھال سب تبدیل ہوگئی تھی۔ اردگرد کے وہ تمام لوگ جن کو وہ اپنے سائکل رکشہ میں بٹھا کر کھینچتا آیا تھا، لالہ رام پرساد جن کا محل کیمپ کے بالکل سامنے تھا، کیمپ کے وہ تمام بوڑھے جو بڑے عزت دار بنتے تھے، آج اس کے سامنے سب ہیچ تھے۔ آج اس کے پاس وہ چیز تھی جو ان میں سے کسی کے پاس نہیں تھی، پاکستان کا ٹکٹ!!!
کیمپ میں جب لوگوں کو خبر ہوئی کے اوئے سالے پاکستان جا رہا ہے تو کیمپ میں ایک عجیب سا ماحول پیدا ہوگیا۔ کوئی اس کے پاکستان جانے سے خوش تھا تو کوئی اس بات پر اداس کہ اوئے سالے کی جگہ وہ خود کیوں نہیں جارہا۔ مولوی صاحب یہ کہہ کر دل کو تسلی دے رہے تھے کہ یہ حرام طریقے سے جا رہا ہے اور انشاءاللہ مرنے کے بعد جہنم میں جائے گا، مشہود بھائی دوستوں سے کہتے پھر رہے تھے کہ میں تو لعنت بھیجتا ہوں، جانا ہوتا تو میں نہیں جا سکتا تھا؟ یہ کل کا لڑکا جا سکتا تو میں، مشہود، یعنی میں نہیں جا سکتا تھا؟ ہنہ!!
مگر ایک بات سب جانتے تھے، دل کے کسی نہ کسی گوشے میں ان سب کی یہی خواہش تھی کہ کاش اوئے سالے کے ساتھ یا اس کی جگہ ہم پاکستان چلے جائیں۔ جہاں انہیں عزت ملے، شناخت ملے، جہاں سڑکوں پر سونا پڑا ہوتا ہے، جہاں لوگو کو رنگ گورا کرنے کیلئے کریم نہیں لگانی پڑتی، جہاں رکشہ انسان نہیں مشین کھینچتی ہے۔ وہ سب اس کو ایسی حسرت و عقیدت سے دیکھتے جیسے وہ حج کرنے جا رہا ہو۔ اور پھر وہ دن بھی آپہنچا جس دن اوئے سالے نے پاکستان کیلئے روانہ ہونا تھا۔
کیمپ میں آج صبح سے ہی بڑی رونق تھی۔ آج پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا تھا کہ ان میں سے کسی کے خواب کو تعبیر ملی ہو۔ وہ فرداّ فرداّ ہر شخص سے رخصت لے رہا تھا۔ یہ رخصت کا معاملہ بھی عجیب ہے، رخصت عارضی ہو یا مستقل، اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے اور آنے والی ساری عمر جب بھی کسی شخص کی یاد آتی ہے تو اس کے ساتھ گذرے ہوئے لمحوں سے پہلے یہ رخصت کا لمحہ آکر سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور اکثر یہ اتنا توانا اور مضبوط ہوتا ہے کہ یادوں کہ جھروکوں پر جب آن کھڑا ہو تو دوسری کیسی یاد کے اندر داخل ہونے کی جگہ ہی نہیں بچتی۔ مبارک باد کے شور اور اس کے اندر چھپی ہوئی اپنا خواب دوسرے کیلئے پورا ہوتے دیکھنے کی سسکیوں میں وہ کیمپ سے روانہ ہوگیا۔

سمندر
عبدالحق اپنے آفس پر اس کا منتظر تھا۔ اوئے سالے سوچ رہا تھا کہ لوگو کا ایک ہجوم ہوگا مگر یہاں پہنچ کر اسے پتہ چلا کہ پاکستان کے اس سفر میں وہ اکیلا تھا۔ عبدالحق نے اسے لانچ میں سوار کرکے الوداع کہا اور واپس کسی نئے اوئے سالے کی تلاش میں روانہ ہوگیا۔ لانچ نے اسکو خلیج بنگال میں کھڑے ایک جہاز پر منتقل کر دیا جہاں بہت سے مسافر اس سے پہلے بھی موجود تھے۔ جہاز کچھ دیر اور کھڑا رہا اور مزید مسافروں کا انتظار کرتا رہا مگر دور دور تک کسی کشتی کے آثار نہ دیکھتے ہوئے کپتان نے جہاز کو چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ جہاز کا بھونپو بجا اور تمام لنگر اٹھا لیئے گئے۔ سمندر کے سینے کو چیرتے ہوئے یہ جہاز اوئے سالے کو اس کی خوابوں کی نگری کی طرف لیکر چل پڑا۔
ایک آدھ گھنٹا تو جہاز پر اس کو کمرا ڈھونڈنے اور پھر اس کمرے کو ترتیب دینے میں گزر گیا۔ کمرہ ترتیب دینے کے بعد وہ عرشے پر آگیا اور لوگوں میں گھل مل گیا۔ یہ جہاز اس کی طرح کے ان لوگوں کیلئے تھا جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے اپنے گھروں کو چھوڑ نکلے تھے۔ کسی کی منزل کلکتہ تھی تو کوئی ممبئی کے خواب دیکھ رہا تھا۔ کسی نے دبئی جانا تھا تو کوئی پاکستان کے راستے زمینی سفر طےکرتے ہوئے اپنی منزل یورپ میں دیکھ رہا تھا۔ اوئے سالے کیلئے اتنے سارے نئے لوگوں سے ایک ساتھ ملنا بہت خوش کن تھا۔ اسے ہمیشہ ہی سے نئے لوگوں سے ملاقات کا شوق تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ زندگی میں سیکھنے کیلئے ملاقات بہت ضروری ہے۔ ہر نیا شخص اپنے ساتھ ایک نئی کہانی رکھتا ہے اور ہر نئی کہانی میں سننے والے کیلئے ایک نیا سبق ہوتا ہے۔
مختلف لوگوں سے ملتا ملاتا وہ جہاز کے عرشے پر گھوم رہا تھا کہ اس کی نظر کونے میں بیٹھے ایک بوڑھے پر پڑی جو جہاز کے عملے کی وردی میں ملبوس تھا۔ اوئے سالے نے محسوس کیا کہ وہ شخص کافی دیر سے سمندر میں کسی نادیدہ چیز کو گھور رہا ہے۔ کبھی زیرِ لب بڑبڑاتا ہے، کبھی مسکراتا ہے، اور کبھی اچانک اس کے چہرے پر ایک گہری سنجیدگی طاری ہوجاتی ہے۔ کسی عام آدمی کیلئے وہ بوڑھا شاید مکمل پاگل ہوتا مگر اوئے سالے عمر کے جس حصے میں تھا اس میں ہر مختلف چیز میں ایک پراسراریت اور ہر پراسراریت میں ایک گہری کشش ہوتی ہے۔ اس ہی کشش نے اوئے سالے کو مجبور کردیا کہ وہ اس بوڑھے سے جاکر بات کرے۔ وہ دھیمے قدموں سے چلتا ہوا اس بوڑھے کے پاس پہنچ گیا اور اس کے برابر میں جا بیٹھا۔ بوڑھے نے اس کی طرف نگاہ کی گویا اپنے پسندیدہ کھیل میں رکاوٹ ڈالنے پر شکایت کر رہا ہو مگر کچھ بولا نہیں۔ کچھ دیر تک تو اوئے سالے اس بوڑھے کی حرکات کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا مگر جلد ہی وہ اس کوشش سے بیزار ہوگیا۔ اس نے بوڑھے سے براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میرا نام اوئے سالے ہے!!! بوڑھے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور بولا، مجھے خوشی ہے کہ انسانوں نے اپنے اصل ناموں سے اپنی شناخت کروانا شروع کردی ہے۔ میرا نام فرعون ہے!!! فرعون؟ مگر وہ تو بہت برا آدمی تھا اوئے سالے کو بولنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ کچھ غلط بول گیا ہے بوڑھا اب اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا گویا پرکھنے کی کوشش کررہا ہو۔ ایسا میں نہیں، مسجد کے امام صاحب کہتے ہیں کہ فرعون بہت برا آدمی تھا، اوئے سالے نے جلدی سے وضاحت پیش کی۔ بوڑھے نے ایک مرتبہ پھر اپنی نگاہیں سمندر میں موجود اس نادیدہ چیز پر مرکوز کردیں اور بولا، سب سے پہلا جھوٹ جو ہم کسی سے بولتے ہیں وہ ہمارا نام ہوتا ہے۔ ہمارا نام اس لیئے رکھا جاتا ہے کہ یہ ہماری پہچان بنے۔ ہم سب سے پہلے بچپن کی دی گئی اس شناخت کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ ماں باپ بہت امید سے بیٹے کا نام عبدالرزاق رکھتے ہیں کہ شاید یہ رزق دینے والے اصل مالک کا غلام بنے گا۔ بڑا ہوکر یہ عبدالرزاق بیچارہ عبدالرزق بن کر رہ جاتا ہے اور رزاق کے بجائے رزق کی غلامی مٰیں عمر بسر کرتا ہے۔ کسی غریب کا نام بچپن سے عبدالحق رکھا جاتا ہے کہ یہ ساری عمر حق کا بندہ بن کے رہے گا۔ بیچارے کے والدین اگر زندہ رہیں تو اس کی حرکتیں دیکھ کر نام تبدیل کردیں اور عبدالحق سے عبدالنفس کہلائے۔ اس ہی طرح میرا نام بچپن میں مشکور حسین رکھا گیا تھا، مگر عمر کے اس حصے میں آکر مجھے اندازہ ہوا کہ میرا اصل نام فرعون ہونا چاہیئے۔ اپنے ارد گرد نظر ڈالو تمہیں بہت سے بھیڑیئے، عبدالنفس، فرعون، نمرود، یزید وغیرہ نام بدل کر گھومتے دکھائی دیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنا اصل نام مجھے بتایا۔ رات کو اس ہی جگہ عرشے پر آنا، میرے پاس تمہیں دینے کیلئے کچھ ہے۔ بوڑھے کے خاموش ہونے کے کافی دیر بعد تک وہ بیٹھا اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے کئی مرتبہ اس بوڑھے کو دیکھا مگر ایسا لگتا تھا کہ بوڑھے کو اب اس کی موجودگی کی خبر تک نہیں تھی۔ وہ واپس سمندر کی اس نادیدہ چیز کے ساتھ مصروف ہوچکا تھا۔
وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا اور زیادہ وقت اس بوڑھے اور اس کی باتوں کے بارے مٰیں سوچتا رہا۔ شاید وہ بوڑھا صحیح تھا۔ اس نے زندگی کے اس پہلو کو پہلی مرتبہ اس نظریے سے دیکھا تھا اور اب وہ بوڑھے کی اس سوچ سے متفق تھا۔ رات ہوتے ہی وہ عرشے پر جا پہنچا۔ بوڑھا اس ہی جگہ موجود تھا اور تمباکو سے شغل کررہا تھا۔ اوئے سالے خاموشی سے جاکر اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ بوڑھے نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور سگار کا پیکٹ اس کی جانب بڑھا دیا۔ اوئے سالے نے شکریے کے ساتھ ایک سگار نکال کر سلگا لیا اور اب دونوں اپنے سامنے پھیلے اس تاحدِ نظر اندھیرے کو دیکھنے لگے۔
تم جانتے ہو تم کہاں جارہے ہو؟ بوڑھے نے خاموشی کو توڑتے ہوئے اس سے سوال کیا۔ جی! اوئے سالے نے جان بوجھ کر مختصر جواب پر اکتفا کیا۔ بوڑھے کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی۔ جب وہ بولا تو اس کی آواز میں ایک خوشی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ میری ملاقات کسی ایسے انسان سے ہوئی جو جانتا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ ورنہ تو ہم میں سے ہر ایک محض یہ سمجھتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کہاں جارہا ہے حالانکہ درحقیقت وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ تم اچھے لڑکے ہو، خدا کرے کہ ان "گرگ باراں دیدہ" سے بچ پائو۔ ایک مرتبہ پھر اوئے سالے احمقوں کی طرح اس بوڑھے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جملے کا پہلا حصہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور دوسرے حصے میں اس بوڑھے نے جو عجیب سی زبان استعمال کی تھی وہ اوئے سالے کیلئے یکسر نئی تھی۔ وہ بچپن سے ہندوستانی فلمیں دیکھتا رہا تھا اور ہندی اور اردو کے بہت سارے الفاظ اسے پتہ تھے۔ یہ الفاظ مگر اس کیلئے یکسر نئے تھے۔ بوڑھا اس کی پریشانی بھانپ چکا تھا۔ اس نے کہا کہ "گرگ باراں دیدہ" فارسی کا ایک محاورہ ہے جس میں گرگ بھیڑیئے کو کہتے ہیں جبکہ باراں بارش کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ لفظی ترجمے کے طور پر گرگ باراں دیدہ کا مطلب ہوتا ہے وہ بھیڑیا جس نے بارش دیکھ لی ہو۔ اوئے سالے خاموشی سے اس بوڑھے کی گفتگو سن رہا تھا۔ بوڑھے کو مگر اس سے غرض نہیں تھی کہ وہ یہ باتیں سمجھ بھی پا رہا ہے یا نہیں۔ وہ اپنی ہی دھن میں بولتا جا رہا تھا۔
ایران میں یہ حکایت ہے کہ جب بارش بہت تیز اور مسلسل ہوتی ہے تو چھوٹے جانور اور پرندے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے اس طرح دبک کر بیٹھنے کی وجہ سے جنگل کے درندوں کیلئے شکار ختم ہوجاتا ہے۔ ہر گوشت خور اس عارضی قحط کا علاج اپنے طور پر کرتا ہے مگر بھیڑیوں کے پاس اس چیز کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ جب وہ شکار کی تلاش سے تھک جاتے ہیں تو سارے بھوکے بھیڑیے ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ حلقہ تعداد میں کبھی معیًن نہیں ہوتا۔ یہ دس، بیس، سو یا جتنے بھی بھیڑیے ہیں، ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گھورنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ بھوک اور کچھ مسلسل چوکس بیٹھنے کی تھکن سے کچھ ہی گھنٹوں میں کسی ایک بھیڑیے کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ اس کے آنکھیں موندتے ہی باقی تمام بھیڑیے اس پر پل پڑتے ہیں اور اس کو نوچ نوچ کر کھالیتے ہیں۔ کہنے کو بھوک مٹنے کے بعد اس حلقے کی ضرورت ختم ہوجانی چاہیئے مگر یہ قدرت کا قانون ہے کہ ظالم اکثر اپنے ہی اس ظلم کا نشانہ بنتا ہے جو اس نے کسی وقت کسی اور کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ پہلے بھیڑیے کو کھانے کے بعد باقی تمام بھیڑیے دوبارہ اس ہی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور کھیل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک گرگ باراں دیدہ کا پورا حلقہ نہ ختم ہوجائے اور آخر میں صرف ایک بھیڑیا نہ بچ جائے۔ اس آخری بھیڑیے کو گرگ باراں دیدہ کہتے ہیں۔
مگر آپ نے تو کہا تھا قدرت کا قانون ہے کہ ظالم اپنے ہی ظلم کا نشانہ بنتا ہے، تو یہ آخری بھیڑیا جو کہیں نہ کہیں اس ظلم میں بالواسطہ اور آخر میں بلاواسطہ خود شریک تھا، وہ کیوں زندہ بچ جاتا ہے؟ بوڑھے کے خاموش ہوتے ہی اوئے سالے پوچھ بیٹھا۔ بوڑھے نے کھوئی ہوئی آواز میں جواب دیا، وہ اس لیئے زندہ بچ جاتا ہے تاکہ اگلی بارش میں کسی اور گرگ باراں دیدہ کا نوالہ بن سکے۔ یہ کہہ کر بوڑھے نے ایک امید بھری نگاہ کی اور بولا، ایک بات یاد رکھنا لڑکے!! یہ حکایت صرف بھیڑیوں تک محدود نہیں ہے۔ بھیڑیے بیچارے چونکہ میڈیا پر نہیں آتے اس لیئے وہ بدنام ہوگئے ورنہ گرگ باراں دیدہ بھیڑیوں سے زیادہ انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ خیر، خدا تم پر رحم کرے! جہاں تم جارہے ہو وہاں بارش بھی بہت تیز ہوتی ہے اور بھیڑیے بھی بہت ہیں، خدا تمہاری حفاظت کرے۔ بوڑھا یہ کہہ کر اٹھا اور دوسری سمت چل پڑا۔
اوئے سالے نے بھاگ کر اس کو جالیا اور کہا، آپ شاید بھول رہے ہیں مگر آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے کچھ دینا چاہتے ہیں؟ بوڑھے نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور بولا، انسان کے پاس دینے کیلئے سب سے قیمتی تین ہی چیزیں ہیں، ایک اپنا نام جو وہ صرف اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ دوسری نصیحت جو وہ اپنے مخلص رشتوں کیلئے سنبھال کر رکھتا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم چیز اس کا وقت ہے۔ کسی کو بھی دی ہوئی چیزوں میں سب سے قیمتی چیز انسان کا وقت ہے اور انسان کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اس چیز کی قیمت سب سے کم لگاتا ہے جو چیز سب سے زیادہ انمول ہوتی ہے۔ کسی کا دیا ہوا پیسہ، مشورہ، خلوص غرض ہر چیز گھوم کر اس کے پاس واپس آسکتی ہے سوائے اس وقت کے جو کسی نے تمہارے لیئے خرچ کر دیا۔ اب تم چاہے ساری عمر اس شخص کے ساتھ لگا دو مگر وہ سب ایک نیا حساب ہوگا، شاید تم اس سے بہتر یا اس جیسا وقت اسے لوٹا بھی دو، مگر "وہ" وقت تم اسے کبھی نہیں لوٹا سکتے جو اس نے تم پر صرف کردیا؛ یاد رکھنا۔ بوڑھے نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اوئے سالے نے محسوس کیا کہ اس کے منہ پر پانی کی دو بوندیں گری ہے۔ اس پوری ملاقات کے دوران پہلی مرتبہ وہ کسی بات کا جواب جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے چہرے پر گرنے والا یہ آنسو اس کا اپنا نہیں تھا۔ بوڑھا لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ دوبارہ کبھی نہ دکھنے کیلئے۔







کراچی

ہندوستان کے مختلف شہروں پر رکتا رکاتا یہ جہاز بالآخر تین دن بعد کراچی پہنچ گیا۔ ان تین دنوں میں شروع شروع تو وہ اس بوڑھے کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا مگر بالآخر تنگ آکر اس نے اپنی تلاش ترک کردی۔ اب وہ دن بھر بیٹھ کر مستقبل کے منصوبے بناتا رہتا کہ وہ کس طرح کراچی جاکر لالہ رام پرساد سے بھی بڑا محل بنائے گا اور پھر کیمپ والوں کو یہاں سے تصویریں بھیج کر دکھائے گا کہ وہ کتنا بڑا آدمی بن گیا ہے۔ لالہ رام پرساد وہ مہاجن تھا جس کا محل نما بنگلہ ان کے مہاجر کیمپ کے سامنے تھا اور کیمپ کی زبان میں امیری کی انتہا کی اصطلاح لالہ رام پرساد ہونا تھی۔ الغرض ان ہی حسین تصورات میں وقت کا پتہ بھی نہ چلا اور وہ اب کراچی پہنچ گیا تھا۔
جہاز کے کپتان نے خدا معلوم امیگریشن حکام سے کیا بات کی مگر اگلے آدھے گھنٹے میں اوئے سالے کیماڑی کی بندرگاہ سے باہر آرہا تھا۔ پہلے تو اسے اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا مگر دو تین لوگوں سے استفسار کرنے پر جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ واقعی کراچی پہنچ گیا ہے تو وہ فٹ پاتھ پر ہی سجدہ ریز ہوگیا۔ سجدے سے اٹھا تو پہلا سوال اب رہائش کا تھا۔ اس کے پاس اب بھی کچھ روپیئے موجود تھے جو وہ ڈھاکہ سے ٹکے تبدیل کر کے لایا تھا مگر فی الحال اس کا انہیں خرچ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کراچی کی سڑکوں پر پڑے ہوئے سونے میں سے کچھ اٹھا لے مگر سڑک پر سوائے پان کی پیک کے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ سونے کی تلاش میں بندرگاہ سے نکل کر نیٹی جیٹی اور پھر چندریگر روڈ تک پہنچ گیا مگر سونے کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اس نے سوچا کسی مقامی سے اس معاملے میں مدد لی جائے، شاید کوئی مخصوص جگہ ہو جہاں یہ سونا پایا جاتا ہو۔
پہلے راہگیر نے اس کے سوال پر اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بغیر کچھ بولے آگے چلا گیا۔ اور دوسرے راہگیر سے جب اس نے پوچھا کہ بھائی سونا کہاں ہے؟ تو اس کا کہنا تھا کہ جہاں مرضی سوجائو بھائی! اوئے سالے نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اس سونے کی بات کررہا ہے جس سے زیور بنتے ہیں، جس کے جواب میں اس راہگیر کے قہقہوں نے اسے سمجھا دیا کہ یہ سڑک پر پایا جانے والا سونا صرف افسانوں میں ملتا ہے۔
مایوسی تو خیر شدید ہوئی مگر اوئے سالے کیلئے اس سونے سے زیادہ ایک قیمتی چیز تھی جو یہ شہر اور ملک اسے دے سکتا تھا تھا، اس کی شناخت! اور اس شناخت کی خاطر وہ ساری دنیا کا سونا قربان کرسکتا تھا۔ وہ اب خاموشی سے جا کر ایک کثیر منزلہ عمارت کے نیچے بہت سارے دیگر لوگوں کی طرح سو گیا۔
صبح چوکیدار کی لات نے اس کا استقبال کیا۔ اس نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا تو سورج نکل آیا تھا اور عمارت کا چوکیدار ان تمام لوگوں کو ٹھڈے مارنے میں مصروف تھا جو کسی رہائش کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے رات گئے اس عمارت کے وسیع و عریض چبوترے پر آکر پڑ رہتے تھے۔ آنکھ کھلی تو کچھ حواس بحال ہوئے اور اس نے جلدی سے اپنے سامان کی صندوقچی پر نظر کی جو خوش قسمتی سے وہیں موجود تھی۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ پاکستان کے بارے میں ساری باتیں غلط ثابت نہیں ہوئی تھیں، یہاں واقعی ایمان دار لوگ بستے تھے۔ اس نے صندقچی اٹھائی اور وہاں سے چل پڑا۔ راستے میں ایک پٹھان کے ہوٹل پر رک کر اس نے ناشتے کا آرڈر دیا اور قریبی میز پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس کے سامنے اب صرف ایک منزل تھی، اس کی شناخت۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ شناخت کیسے اور کہاں ملتی ہے۔
میز پر ایک نوجوان اس سے پہلے سے بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ اوئے سالے نے اس سے مدد لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے گلا کھکار کر اس نوجوان کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اس سے پوچھ بیٹھا کہ 'بوئی سوب، ام کو شنوخت چائیے، کیدھور سے ملے گا؟" نوجوان نے اخبار سے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور رکھائی سے بولا، شناختی کارڈ چاہیئے تو نادرا کے آفس جائو۔ اوئے سالے کیلئے یہ ایک عجیب اطلاع تھی۔ نادرہ پاکستان کب آئی؟ اور وہ یہاں اتنی بڑی چیز ہوگئی کہ اب لوگوں کو شناخت وہ دیتی ہے؟ اس کا اپنا دفتر بھی ہے؟ بہت سارے سوالات میں سے وہ صرف یہ پوچھ سکا کہ نادرہ کا دفتر کہاں ہے؟ نوجوان نے اسے بتایا کہ پیچھے دو ہی گلیاں چھوڑ کر نادرا کا دفتر ہے۔ گفتگو کے دوران ناشتہ آچکا تھا سو اوئے سالے نے جلدی جلدی ناشتہ زہر مار کیا اور نوجوان کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ استقبالیہ پر شناختی کارڈ کی فیس جمع کروائی اور اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ جب اس کا ٹوکن نمبر پکارا گیا تو وہ بتائے گئے کائونٹر پر پہنچ گیا۔ کائونٹر پر موجود خاتون نے سب سے پہلے "ب" فارم کا تقاضہ کر دیا۔ اوئے سالے نہیں جانتا تھا کہ یہ ب فارم کیا ہوتا ہے۔ اس نے خاتون کو بتا دیا کہ اس کے پاس کوئی فارم موجود نہیں ہے۔ خاتون نے کہا کہ پہلے ب فارم بنوائو پھر اسکے بعد شناختی کارڈ بنوانے آنا۔ اوئے سالے نے اس سے پوچھا کہ یہ ب فارم کہاں سے بنے گا؟ خاتون نے بتایا کہ اپنا پیدائش کا سرٹیفیکیٹ لے آئو، ب فارم بھی یہیں سے بن جائے گا۔ اوئے سالے نے سر کھجاتے ہوئے شرمندگی سے خاتون کو بتایا کہ وہ اس سرٹیفیکٹ کے بارے میں پہلی بار سن رہا ہے۔ خاتون اب اوئے سالے سے بیزار آچکی تھی۔ اس نے رکھائی سے اسے کہا کہ اپنی جائے پیدائش کی یونین کونسل کے دفتر سے پہلے پیدائش کا سرٹیفیکٹ بنوائو اور پھر یہیں نادرا کے دفتر سے آکر ب فارم اور پھر شناختی کارڈ بنوانا۔ اوئے سالے کو اندازہ ہوچکا تھا کہ خاتون اب تقریبا غصہ ہوچکی ہے مگر پھر بھی اس نے پوچھ ہی لیا کہ آیا وہ خاتون اس کی پیدائش کی یونین کونسل کا پتہ بتا سکتی ہیں؟ تم پیدا کس جگہ ہوئے تھے؟ خاتون نے ضبط کر کے پوچھا۔ ڈھاکہ! اوئے سالے نے جواب دیا۔ ڈھاکہ کا نام سنتے ہی عورت کے تیور ایک دم تبدیل ہوگئے۔ وہ تقریباٗ چنگھاڑتے ہوئے بولی، تو اتنی دیر سے یہاں کیوں وقت برباد کررہے ہو؟ جائو نارا کے دفتر سے جا کر اپنا شناختی کارڈ بنوائو۔ اوئے سالے نے گھبرا کر کائونٹر چھوڑا اور مزید خفت سے بچنے کیلئے دفتر میں کسی اور سے بات کرنے کے بجائے باہر آکر چوکیدار سے نارا کے دفتر کا پتہ سمجھا اور بتائے ہوئے پتے کی سمت چل دیا۔
نارا کے دفتر پر ایک طویل قطار اس کی منتظر تھی۔ وہ بھی خاموشی سے اس قطار کا حصہ بن گیا۔ قطار بہت آہستگی سے چل رہی تھی۔ قطار میں کھڑے کھڑے جب اکتاہٹ ہونے لگی تو اوئے سالے نے اردگرد کھڑے لوگوں کا مشاہدہ شروع کردیا۔ اس کیلئے یہ بات بہت حیرت ناک تھی کہ اس پوری قطار میں صرف وہ واحد تھا جو افغان نہیں تھا۔ وہ ابھی اس کی وجہ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ پیچھے کھڑے افغان نے اس کندھا ہلایا۔ وہ پیچھے مڑا تو افغان نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پشتو زدہ لہجے میں سوال داغ دیا، مانڑا، تم اتنا کالا کیسی ہو گئی؟ اوئے سالے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس بات کا کیا جواب دے۔ واضح طور پر وہ بیچارہ افغان اسے اپنے ہی جیسا کوئی افغان سمجھا تھا اور وہ غریب یہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ یہ افغان اتنا کالا کیسا ہوگیا۔ اوئے سالے نے جھینپ مٹاتے ہوئے جواب دیا، بھوئی اومرا رونگ کولا نہیں اے، اوم تو پیدا بھی گورا ہوا تھا۔ یہ تو بوس زندوگی کی کڑواہٹ چہرے پر آگئی، ورنہ ہوم تو اوبھی بھی گورا ہے۔ افغان اس کے لہجے سے سمجھ چکا تھا کہ یہ بیچارہ افغان نہیں ہے سو اس کی تشویش ویسے بھی ختم ہوگئی تھی۔ شاید وہ بھی اوئے سالے کی طرح اس انتظار سے اکتا چکا تھا سو اس نے گفتگو کو جاری رکھنے کیلئے ایک سوال اور داغ دیا۔ خوئے تم افغان تو نئیں ہے، تم کدھر سے آیا ہے؟ بونگلہ دیش سے! اوئے سالے نے جواب دیا۔ افغان نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولا، مانڑا تم پاگل ہے؟ کیا مطلب؟ اوئے سالے نے حیران ہوکر افغان سے پوچھا جو اسے دیکھ کر افسوس سے گردن ہلا رہا تھا۔ مانڑا یہاں پاکستانی خوچہ لاکھوں روپے دے کر بنگلہ دیش جارہا ہے اور تم بنگلہ دیش سے اٹھ کر پاکستان آگیا ہے؟ تم پاگل ماگل تو نہیں ہے؟ خدا کا نام لو! یہ لو نسوار لگائو شائد تمارے کو عقل آئے۔ اوئے سالے کو اس کی بات سن کر غصہ آگیا تھا۔ اس نے اپنا منہ موڑ لیا اور قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ اس افغان کو کیا پتہ کے اپنی شناخت نہ ہونے کا کرب کیا ہوتا ہے۔ یہ زندگی میں سب کچھ گنوا بھی دے تو اس کے پاس ایک شناخت ہے، افغان! اور یہ شناخت کوئی مرنے کے بعد بھی اس سے نہیں چھین سکتا۔ اسے یاد آگیا کہ کیمپ میں بابا یونس اکثر ایک بات کہا کرتے تھے۔ کسی دکھ کو سمجھنے کیلئے اس دکھ سے گزرنا بہت ضروری ہے۔ جب تک خود اس تکلیف کا احساس نہ ہو تو آپ صرف تسلی دے سکتے ہیں، مرہم نہیں!
دو گھنٹے مزید انتظار کے بعد بالآخر اس کی باری آ ہی گئی۔ کائونٹر پر پہنچا تو جسم شل ہوچکا تھا مگر خوشی اس بات کی تھی کہ بہرحال اب اسے اس کی شناخت مل جائے گی۔ فیس کے مراحل سے فارغ ہوا تو ڈیٹا انٹری آفیسر نے نام پوچھا۔ اوئے سالے! اس کا یہ جواب سن کر اس لڑکے نے نظر کمپیوٹر پر سے ہٹائی اور ایک غلیظ گالی دے کر اوئے سالے کو اپنی اوقات میں رہنے کو کہا۔ اوئے سالے کو نادرا کا تجربہ یاد تھا سو وہ اس بابو سے ناراضگی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نے جلدی سے اسے یقین دلایا کہ خدانخواستہ یہ جملہ اس نے بابو کیلئے نہیں کہا بلکہ اس کا نام ہی اوئے سالے ہے۔ کائونٹر والے لڑکے کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی مگر جب اسے واقعی یقین ہوگیا کہ اس کا نام اوئے سالے ہی ہے تو وہ ہنس ہنس کر اپنی میز پر دوہرا ہوگیا۔ اوئے سالے خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اسے بس اپنی شناخت سے مطلب تھا، ایک بار وہ اوئے سالے سے اوئے سالے صاحب ہوجاتا تو اس ڈیٹا انٹری آفیسر جیسے نیچ لوگوں کو منہ بھی نہیں لگاتا۔ ہاں تو اوئے سالے! کہاں سے آئے ہو؟ بابو نے سوال کیا۔ جی ڈھاکہ سے۔ اوئے سالے نے جواب دیا۔ بابو نے کہا پاسپورٹ دو۔ وہ کیا ہوتا ہے صاحب؟ اوئے سالے نے کمال معصومیت سے اس سے الٹا سوال داغ دیا۔ بابو نے اس کی طرف جھکتے ہوئے رازداری سے پوچھا، کشتی سے آئے ہو یا افغانستان سے بارڈر کراس کیا؟ جی میں افغانستان کیوں جانے لگا، جی کشتی سے آیا ہوں۔ اوئے سالے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ بابو نے اس کی طرف مزید جھکتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا، غیرقانونی طور پر پاکستان آنے کی سزا جانتے ہو کیا ہے؟ اگر خیریت چاہتے ہو تو جو کچھ بھی ہے چپ چاپ میرے حوالے کردو اور یہاں سے نکل جائو، ورنہ ابھی باہر کھڑی پولیس کو بلواکر تمہیں ساری زندگی کیلئے اندر کرواتا ہوں۔ اوئے سالے کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اسے پیسے جانے کا غم نہیں تھا، اسے فکر اس بات کی تھی کہ اپنے خوابوں کی سرزمین پر پہنچنے کے بعد بھی وہ اپنی شناخت سے محروم تھا۔ اس نے خاموشی سے جیب میں موجود پیسے نکالے اور کائونٹر والے بابو کے ہاتھ پر رکھ کر بوجھل قدموں سے باہر آگیا۔



مذہب

وہ بوجھل قدموں سے شہر کی سڑکیں ناپ رہا تھا۔ اس کی حالت اس مریض کی تھی جو نقاہت اور پیاس کی شدت سے مر رہا ہو اور اسے دور ایک پانی کا گلاس نظر آجائے۔ وہ غریب جسم کی تمام طاقت لگاکر اس کے طرف گھسٹنا شروع کرے اور جب ساری عمر کا سفر طے کرکے اس گلاس تک پہینچے تو اسے معلوم ہو کہ گلاس ہمیشہ سے خالی تھا۔ چلتے چلتے اسے احساس ہوا کہ شام اب رات میں تبدیل ہوگئی ہے اور سڑک پر گاڑیوں کی ریل پیل بھی تقریباٗ ماند پڑتی جارہی ہے۔ نہ اسے یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور نہ یہ کہ وہ رات بتانے کہاں جا سکتا ہے۔ کل رات وہ جس عمارت کے چبوترے پر سویا تھا اسے وہ جگہ معقول لگی تھی۔ اس نے اندازے کی بنیاد پر واپس چلنا شروع کردیا۔ اسے عمارت کا نام تو یاد نہیں تھا مگر عمارت کے قریب ہی چائے کے ہوٹل پر ناشتہ کرتے وقت اس نے چندریگر روڈ کا نام دو تین مرتبہ سنا تھا۔ راہگیروں سے چندریگر روڈ کا پتہ پوچھتے ہوئے وہ تقریباّ آدھی رات کو دوبارہ چندریگر روڈ پہنچ چکا تھا۔ روڈ کے شروع میں ہی وہ بلند عمارت اپنے چبوترے کے ساتھ اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ اوئے سالے بھی وہاں پہلے سے موجود بہت سے لوگوں کے درمیان جگہ بنا کر لیٹ گیا۔ اس کا دماغ بالکل کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔ شاید وہ کل رات سے اب تک پیش آنے والے مسلسل حوادث کی تاب نہیں لاپایا تھا اور اب تک اس ہی بات کو ہضم کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اتنا کچھ ایک ساتھ اتنا غلط کیسے ہوسکتا ہے؟ شاید حوادث کی فطرت ہی یہی ہے کہ یہ پے در پے آتے ہیں اور ہر نیا حادثہ پچھلے حادثے سے زیادہ اندوہناک ہوتا ہے۔ وہ شاید اس ہی طرح جاگتا رہتا مگر قدرت کو اس پر رحم آگیا۔ ان ہی سوچوں کے درمیان خدا جانے کب وہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔
صبح ایک مرتبہ پھر چوکیدار کی لات نے اس کے دن کا آغاز کیا۔ اس نے آنکھیں ملتے ہوئے سامان اٹھایا اور سیدھا اس ہی چائے کے ہوٹل پر جا پہنچا جہاں کل اس نے ناشتہ کیا تھا۔ آج ناشتہ کل کے مقابلے میں زیادہ دیر سے آیا۔ شاید دن زیادہ چڑھ آیا تھا یا آج ویسے ہی گاہکوں کا رش زیادہ تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوا تو پیسے بیرے کو دینے کے بجائے وہ خود کائونٹر پر پہنچ گیا۔ کائونٹر پر موجود پٹھان سیٹھ کا موڈ شدید خراب تھا۔ اوئے سالے نے جب اسے ناشتہ دیر سے پہنچنے کی شکایت کی تو سیٹھ پھٹ پڑا، مانڑا ویٹر لوگ اتنا چھٹی مٹی مارتا اے ام کیسے کام چلائے؟ محنتی اور ایمان دار آدمی کدھر ملتا ہے یہاں؟ اوئے سالے کے دماغ میں فورا" ایک خیال آیا اور اگلے آدھے گھنٹے میں وہ اس پٹھان سیٹھ سے رہائش، کھانے، چار ہزار تنخواہ اور ہفتے میں ایک چھٹی کے اوپر معاملات طے کرکے اس ہوٹل میں ایک بیرے کے طور پر ملازم ہوچکا تھا۔
اس کو ہوٹل میں کام کرتے تقریباٗ دس دن ہوچکے تھے اور اب وہ پٹھان سیٹھ کا پسندیدہ ملازم بنتا جا رہا تھا۔ ہفتے میں ایک چھٹی کہنے کو اس نے منظور تو کروا لی تھی مگر چھٹی کرکے بھی اس نے کہاں جانا تھا؟ سو اس نے چھٹی والے دن بھی کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ باقی بیرے صبح سے شام ہوتے ہی گھڑی دیکھتے تھے جبکہ اوئے سالے کا گھر اب یہی ہوٹل تھا سو اسے گھر جانے کی بھی کوئی فکر نہیں تھی۔ پیسوں کے معاملے میں وہ بچپن سے ایماندار تھا۔ ان تمام خوبیوں کی وجہ سے صرف دس دن کے اندر ہی وہ سیٹھ کا چہیتا بن چکا تھا۔ زندگی آہستگی سے معمول کی طرف لوٹ رہی تھی۔ منزل کے اتنا قریب آ کر بھی شناخت نہ ملنے کی حسرت اکثر دل میں کسک دیتی تھی مگر وہ بہرطور دل کو سمجھانا سیکھ گیا تھا۔
جمعہ کے دن ہوٹل میں نماز کا وقفہ ہوتا تھا۔ اس جمعے کو سیٹھ نے کمال التفات سے اسے اپنے ساتھ چلنے کی پیشکش کی جو اس نے بخوشی قبول کرلی۔ سیٹھ نے اپنی موٹرسائکل نکالی اور اسے ساتھ لے کر بڑی مسجد لے گیا۔ وضو کرنے کے بعد وہ اور اوئے سالے دونوں مسجد کے ائیرکنڈیشنڈ ہال میں جاکر بیٹھ گئے۔ آج شاید مولوی صاحب کو بھی پتہ تھا کہ اوئے سالے مسجد میں آیا ہوا ہے۔ انسانی زندگی مٰیں مذہب کے کردار کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے، "انسان ازل سے ہی اپنی اصل اور بنیاد کو پانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ کبھی وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اپنی شناخت کا ذریعہ بناتا ہے اور کبھی اپنے پسندیدہ کھیل کو، کبھی اپنی اولاد کو تو کبھی اپنے کاروبار کو، کبھی اپنی زبان کو اور کبھی اپنے وطن کو۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے یہ چیز سمجھ لی ہے کہ کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ اپنی شناخت کو کسی بڑی شناخت میں ضم کردو۔ آپ کی پسندیدہ ٹیم کسی کھیل میں جیت جاتی ہے تو ہزاروں میل کے فاصلے پر آپ قلابازیاں کھا رہے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ کو اس ٹیم کے مکمل کھلاڑیوں کے نام بھی نہ پتہ ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے آپ نے ان میں سے کسی کو حقیقی زندگی میں کبھی کھیلتے بھی نہ دیکھا ہو۔ مگر ان کی جیت پر آپ ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے آپ خود یا آپ کی اولاد نے یہ کارنامہ انجام دیا ہو۔ ہم بڑے شہروں میں جہاں ایک سے زائد شناخت کے شہری بستے ہیں وہاں ایک شناخت پر اکٹھے ہونے کیلئے پنجرے نما مکان بناتے ہیں اور سوسائٹیاں قائم کرتے ہیں اور پھر محض اس لیئے وہاں منتقل ہوجاتے ہیں کہ ہمارا شمار اس مخصوص طبقہ میں ہو جو اس سوسائٹی میں بستا ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنی شناخت کو کسی طاقتور شناخت سے جوڑ لینا۔ اور یہ عین فطرتِ انسانی ہے۔ اس ہی لیئے ہم میں سے ہر ایک اپنے ملک کے معاملے میں زیادہ جذباتی ہوتا ہے کہ یہ وہ شناخت ہے جو انسان آسانی سے تبدیل نہیں کرسکتا۔ اس ہی لیئے کمزور ممالک کے شہری اپنی لگی بندھی عزت دار نوکری چھوڑ کر بھی اکثر کمتر نوکری کے عوض کسی طاقتور ملک کی شہریت اختیار کرنے میں بہتری سمجھتے ہیں۔ اے مسلمانوں۔۔۔ زرا سوچو! ان تمام شناخت سے برتر ایک شناخت مذہب کی ہے جو تمہارے مرنے کے بعد بھی کام آئے گی اور جیتے جی دنیا میں بھی۔ تم یہاں سے دبئی جاتے ہو تو نہ تمہاری زبان مشترک اور نہ تمہاری تہذیب، مگر پھر بھی یہ مذہب کی شناخت تم دونوں کو ایک جیسا بنا دیتی ہے۔ اس کی قدر کرو۔"
مولوی صاحب اس کے آگے بھی جانے کیا کیا بولتے رہے مگر اوئے سالے کا دماغ اب صرف ایک بات ہی سوچ رہا تھا۔ کیا ہوا اگر اس سے ملک اور قومیت کی شناخت چھن گئی تھی۔ اس کے پاس اب بھی ایک طاقتور شناخت باقی تھی۔ اس نے غائب دماغ کے ساتھ نماز ادا کی اور سیٹھ کے ساتھ واپس ہوٹل آگیا۔ پورا دن کام کرتے ہوئے بھی یہی چیز اس کے دماغ پر سوار رہی اور رات ہونے تک وہ ایک فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔ اگلے دن اس نے سیٹھ سے آدھے دن کی چھٹی لی اور ہوٹل سے پیدل نکل پڑا۔ اس کے نزدیک دنیا میں سب سے زیادہ عزت دار آدمی لالہ رام پرساد تھا اور مذہب کی شناخت مشترک ہونے کے بعد وہ لالہ رام پرساد کے برابر ہو سکتا تھا۔ اس نے دو تین لوگوں سے راستہ پوچھا اور قریب ہی واقع ایک مندر میں جا پہنچا۔ ہفتے کا دن تھا اور مندر تقریبا" خالی پڑا تھا۔ وہ جاکر سیدھا پجاری کے پاس پہنچ گیا جو گزشتہ روز ملنے والی چڑھاوے کی رقم کی گنتی میں مصروف تھا۔ پجاری نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو اوئے سالے نے جلدی سے اپنا تعارف کروایا، جی میں ہندو ہوں؟ تو؟ پجاری نے اب کی بار نوٹوں سے نظر اٹھائے بغیر پوچھا۔ جی میں بنگلہ دیش سے آیا ہوں۔ اب کی بار پجاری نے نوٹوں سے نظر اٹھا کر اس کی طرف دلچسپی سے دیکھا۔ اس بیچارے کو شاید یہ لگا کہ باہر سے آنے والا یہ عقیدت مند جاتے ہوئے کوئی بھاری نذرانہ چھوڑ جائے گا۔ اس نے نوٹوں کو وہیں چھوڑا اور کھڑے ہوتے ہوئے بولا، آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ ودیش سے آئیں ہیں۔ آئیں مندر کے ساتھ ہی میری کٹیا ہے جس میں خالص گنگا جل سے بھرا تالاب ہے جس میں میں اشنان کرتا ہوں۔ میرا سوبھاگے ہوگا اگر آپ بھی میرے ساتھ اس میں اشنان کریں تو؟ اوئے سالے کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی مندر کے اندر آیا تھا اور اسے مندر کے طور طریقے بالکل معلوم نہیں تھے۔ اس نے پجاری کی ہدایات پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پجاری اسے ساتھ لیکر مندر سے متصل اپنے گھر لے آیا جہاں ایک چھوٹا سا تالاب نما سوئمنگ پول موجود تھا۔ پجاری نے اسے تالاب کی طرف بھیج دیا اور خود گھر کے اندر چلا گیا۔ اوئے سالے نے کپڑے ایک طرف رکھے اور تالاب میں اتر گیا۔ اسے تالاب میں نہاتے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ پجاری بھی وہیں آگیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ اوئے سالے تالاب کے اندر تھا، اس کے کپڑے تالاب کے باہر تھے، اور اوئے سالے کے سامنے پجاری کھڑا غصے سے کانپ رہا تھا۔ اس نے اوئے سالے کو ڈھکا کھلا دیکھ لیا تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ اوئے سالے کی مسلمانی ہوچکی ہے۔ وہ ہندو نہیں تھا۔ اور ایک مسلے نے اس کا گنگا جل اشدھ کردیا تھا۔ پجاری غصے سے کانپتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا۔ اوئے سالے نے تالاب سے باہر آکر جلدی سے کپڑے پہنے مگر اتنی دیر میں پجاری اپنے ساتھ تین مشٹنڈوں کو لے آیا تھا۔ ان تینوں نے کچھ کہنے سننے کی مہلت دیئے بغیر ہی اوئے سالے کو مارنا شروع کردیا۔ وہ اس وقت تک اوئے سالے کو مارتے رہے جب تک وہ خود تھک کر بے دم نہیں ہوگئے۔ اوئے سالے اس مارپیٹ کا شروع سے عادی تھا کہ ڈھاکہ کی گلیوں میں سائکل رکشہ کھینچتے ہوئے اکثر مارکٹائی ہو ہی جاتی تھی۔ جب وہ تینوں مشٹندے اچھی طرح اپنی بھڑاس نکال چکے تو پجاری نے ان تینوں کے ہی ہاتھوں اسے اٹھوا کر باہر پھنکوا دیا۔ پھینکنے سے پہلے اسے واضح الفاظ میں بتا دیاگیا تھا کہ اب وہ کسی بھی مندر کے پاس بھی دکھا تو نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔
کافی دیر تک وہ پڑا ہوا زخم سہلاتا رہا اور حواس بحال کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ تھوڑی جان میں جان آئی تو اس نے سیدھا اس ہی بڑی مسجد کا قصد کیا جہاں کل وہ سیٹھ کے ساتھ جمعہ پڑھنے گیا تھا۔ مسجد میں پہنچا تو مسجد تقریباُ خالی ہی پڑی تھی۔ ظہر کی نماز میں ابھی دیر تھی سو نمازیوں نے ابھی مسجد کا رخ نہیں کیا تھا۔ وہ وہیں مسجد میں بیٹھ کر سستانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے وہی مولوی صاحب دکھائی دیئے جو کل جمعے کے خطبے میں مذہب کی اہمیت پر درس دے رہے تھے۔ اوئے سالے تیزی سے ان کے پاس پہنچا اور سلام کیا۔ مولوی صاحب نے سلام کا جواب دے دیا۔ اوئے سالے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اپنا تعارف کس طرح کروائے، کچھ لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا، جی میں مسلمان ہوں! مولوی صاحب نے اسے اوپر سے نیچے تک گھورا اور بیزاری سے بولے، تو؟ یہاں الحمدللہ سب مسلمان ہیں! اس میں کیا بڑی بات ہے؟؟ اوئے سالے حیرت سے ان کی شکل دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ پھر اسے یاد آیا کہ مندر کا پجاری بھی اس ہی بےرخی سے ملا تھا مگر بنگلہ دیش کا نام سن کر موم ہوگیا تھا۔ ویسے بھی مسعود بھائی کہتے تھے کہ مولوی کسی بھی مذہب کا ہو ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس نے دوبارہ وہی تیر چلانے کا فیصلہ کرلیا۔ جی میں بنگلہ دیش سے آیا ہوں! بنگلہ دیش کا نام سن کر مولوی صاحب واقعی نرم پڑ گئے تھے۔ انہوں نے بڑی شفقت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے تو یوں کہیئے نہ کہ ہمارے مہمان ہیں۔ آئیے تشریف لائیے۔ مولوی صاحب اسے لیکر مسجد سے ملحقہ اپنے دفتر میں لےگئے۔ تو آپ بنگلہ دیش میں کہاں رہتے تھے؟ مولوی صاحب نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا۔ جی ڈھاکہ میں، اوئے سالے نے سعادتمندی سے جواب دیا۔ بہت خوب، مولوی صاحب نے خوش ہو کر کہا۔ پھر وہ اسے اپنے ڈھاکہ کے سفر کی روداد اور پڑوسی ملک کی سازشوں اور ان کے نتیجے میں بٹوارے کی داستان سنانے لگے۔ جب کافی دیر تک مولوی صاحب بول چکے تو دم لینے کیلئے رکے اور پانی کا گلاس اٹھا کر اس سے پوچھ بیٹھے کہ وہ ڈھاکہ میں کہاں رہتا ہے اور اس وقت مسجد میں کس لیئے آیا ہے۔ اوئے سالے نے ایک لحظہ کیلئے سوچا کہ یہی موقع ہے مولوی صاحب کو متاثر کرنے کا اور اس کے ننھے منصوبہ ساز دماغ نے ایک معصوم سا جھوٹ بولنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے مولوی صاحب کو بتایا کہ وہ ڈھاکہ میں لالہ رام پرساد کے محل میں رہتا ہے اور ان ہی کا بیٹا ہے۔ اس کے یہ الفاظ مولوی صاحب پر گویا بم بن کر گرے۔ پانی کا گلاس ایک طرف پھینک کر اٹھ کھڑے ہوئے اور چنگھاڑتے ہوئے بولے، ابے ولدالحرام!!! ہندو کے بچے!!! مسجد ناپاک کردی ساری ناہجار!!! اوئے سالے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مولوی صاحب بجائے متاثر ہونے کے الٹا برس کیوں رہے ہیں مگر وہ مندر کی طرح یہاں بھی پٹنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے جلدی سے مولوی صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا، مولبی سوب، میں نے کول اوپ کا جومے کا خطبہ سنا اور میں تو ادھور مذہب کا شنوخت لینے کیلیئے آیا ہوں۔ مولوی صاحب کی سانسیں اور چہرے کی رونق دونوں یہ سنتے ہی بحال ہوگئیں۔ انہوں نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے گرمجوشی سے کہا، ماشاءاللہ، خدا آپ کو استقامت دے!! آپ نے بہترین فیصلہ کیا ہے۔ آج ظہر کی نماز میں تمام عمائدینِ علاقہ کو میں مدعو کروں گا اور انشاءاللہ تب ہی آپ کلمہ پڑھ کر میرے ہاتھ پر اسلام لے آئیے گا، مگر اس سے پہلے آپ جائیں اور اچھی طرح غسل کرکے پاک ہوکر آجائیں۔ مگر میں تو ابھی ابھی نہا کر آرہا ہوں، وہ بھی گنگا جل سے! اوئے سالے نے انہیں بتانے کی کوشش کی جس پر مولوی صاحب کے نورانی چہرے پر ایک مرتبہ پھر کراہیت آگئی۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔ جو ہوگیا سو ہوگیا، اب اسے بھول جائیں۔ اللہ بہت معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ آپ جائیں اور اسلامی طریقے سے غسل کرکے آئیں۔ مولوی صاحب نے یہ کہہ کر ایک لڑکے کو آواز دی اور اسے سمجھا کر اوئے سالے کے ساتھ کردیا۔ نہا دھو کر جب اوئے سالے باہر نکلا تو ظہر کی اذان ہو چکی تھی اور مسجد میں نمازیوں کا رش بڑھ رہا تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ بھی نماز میں شامل ہوجائے مگر مولوی صاحب نے کہا اب تک چونکہ مسجد کمیٹی کے کچھ خاص ممبران نہیں تشریف لائے اس لیئے وہ ابھی اسے کلمہ نہیں پڑھا سکتے لہٰذا اسے چاہیئے کہ وہ خاموشی سے دفتر میں بیٹھ کر نماز ختم ہونے کا انتظار کرے۔ اوئے سالے بیچارہ مولوی صاحب کے دفتر میں بیٹھ گیا اور نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
نماز ختم ہوئی تو اس نے سنا مولوی صاحب لوگوں کو بتا رہے تھے کہ کس طرح ان کی دو سال کی مسلسل اور انتھک محنت کے نتیجے میں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ایک ہندو نے آج الحمدللہ مسلمان ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب آپ تمام حضرات سے گذارش ہے کہ سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی تشریف رکھیں اور ایک غیر مسلم کے قبولِ ایمان کی اس ایمان افروز تقریب میں شامل ہوکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔ اوئے سالے نے حیرت سے اِدھر ادھر دیکھا اور کسی اور کو نہ پاتے ہوئے سمجھ لیا کہ یہ اعلان اس ہی کے بارے میں تھا۔ اوئے سالے کو مگر اس اعلان سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مسلمان تو شاید وہ پہلے بھی تھا مگر اس کے پاس اس چیز کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اسے ہر مرتبہ لوگوں کو خود بتانا پڑتا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ آج کے بعد اس کے بارے میں لوگ کہیں گے کہ یہ مسلمان ہے اور اسے خود اپنا تعارف نہیں کروانا پڑے گا۔ وہ صرف یہ جانتا تھا کہ آج کے بعد اس کی شناخت انسانوں کے اس گروہ سے جڑ جائے گی جس میں کڑوروں اربوں لوگ شامل تھے، اور یہ بات اس کے دل کی تسلی کیلئے کافی تھی۔
انتظار کی گھڑیاں اس مرتبہ اتنی طویل نہیں تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک لڑکا آکر اسے اپنے ساتھ مسجد کے ہال میں لے گیا جہاں کوئی سو یا سوا سو افراد کا مجمع اس کا منتظر تھا۔ لڑکے نے اسے لے جاکر مولوی صاحب کے برابر میں بٹھا دیا جہاں مولوی صاحب نے اسے اپنے ساتھ ساتھ کلمہ دہرانے کو کہا۔ اوئے سالے نے مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ کلمہ دہرادیا۔ کلمہ مکمل ہوتے ہی مبارک سلامت اور تکبیر کے نعروں کا ایک شور مچ گیا۔ چند ہی لمحوں میں اوئے سالے پھولوں کے ہار سے لدا ہوا تھا۔ لوگ ایک ایک کرکے اسے مبارک باد دے رہے تھے اور حسبِ توفیق مولوی صاحب کے ہاتھ پر نذرانے کی رقم بھی رکھتے جارہے تھے۔ مولوی صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی جبکہ اوئے سالے اپنی اس نئی شناخت کے نشے میں مسکرا رہا تھا، جسے لوگ ایمان لانے کی خوشی سے تعبیر کر رہے تھے۔ مبارک باد کا سلسلہ تھما تو مولوی صاحب کو خیال آیا کہ انہوں نے اس ہندو کا نام تو معلوم ہی نہیں کیا۔ جب پوچھنے پر انہیں اوئے سالے کا پتہ چلا تو انہوں نے ناگوار سا منہ بنایا اور بولے، گو کہ اس میں مشرکانہ پہلو نہیں ہے مگر پھر بھی یہ ایک بدتہذیب نام ہے۔ دیکھو میاں اسلام میں نام کی بڑی اہمیت ہے اور تمہارا بھی ایک اچھا سا اسلامی نام ہونا چاہیئے۔ اب اگر تمہارے اپنے ذہن میں کوئی نام ہے تو وہی بتادو ورنہ پھر ہم تمہیں کوئی مناسب نام تجویز دیں گے۔ اوئے سالے نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا، آپ میرا نام سید اوئے سالے رکھ دیں۔ محفل میں کچھ دیر کیلئے سناٹا چھا گیا۔ مولوی صاحب نے آہستہ سے اوئے سالے کا ہاتھ دبایا اور بولے سید نبی ذادے ہوتے ہیں، لڑکے! ہر کوئی اپنے نام کے ساتھ اٹھ کر سید نہیں لگا سکتا۔ سید صاحب جو اتفاق سے مسجد کے جنرل سیکرٹری اور اس وقت شدید غصے میں تھے، مولوی صاحب کا جواب سن کر کچھ سکون کی حالت میں آگئے۔ اوئے سالے پھر کچھ سوچ کر بولا، ہمارے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمٰن کی بہت عزت ہے، آپ میرا نام شیخ اوئے سالے رکھ دیں۔ لاحول ولا قوۃ، مولوی صاحب جو خود ذات کے شیخ تھے اس کی یہ واہیات خواہش سن کر سیخ پا ہوگئے۔ سید اور شیخ کے بعد یہ سلسلہ صدیقی اور فاروقی اور خان وغیرہ تک بھی پہنچا مگر ہر بار کسی نہ کسی نے کھڑے ہوکر یاد دلا دیا کہ یہ ہندو کا بچہ کیوں اس نام کا اہل نہیں ہے۔ مسجد کے اندر اب ایک عجیب ہڑبونگ مچ گئی تھی ہر کوئی اب مولوی صاحب پر لعن طعن کر رہا تھا جنہوں نے انہیں اس عجیب مخمصے میں ڈال دیا تھا۔ ادھر مولوی صاحب کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ نام والا قضیہ چھیڑ کر انہوں نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔ جب حالات مزید سنگین ہوئے اور اس ہندو کے بچے کے پیچھے مسلمان باہم دست و گریباں ہونے لگے تو مولوی صاحب نے آگے بڑھ کر اوئے سالے کے گلے سے ہار نوچ ڈالے اور ایک زوردار طمانچہ اس کے گال پر رسید کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ وہ بنگالی نہیں بلکہ کلکتے سے آیا ہوا ہندوستانی ایجنٹ ہے جو مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانے کی مہم پر آیا ہوا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجمع کی غیرت ایمانی اور جذبہ حب الوطنی جاگ اٹھا اور ایک گھنٹے بعد اوئے سالے زخم سہلاتے ہوئے اپنی باقی کی تمام جمع پونجی پولیس والے کے ہاتھ پر رکھ کر تھانے سے باہر آرہا تھا۔












معاشرہ
آنے والے دنوں میں جسم کے زخم تو بھر گئے مگر روح کے گھائو دن بدن گہرے تر ہوتے جارہے تھے۔ جس شناخت کے پیچھے اوئے سالے سب کچھ لٹا کر یہاں پہنچا تھا وہ شناخت اب بھی اس کی پہنچ سے بہت دور تھی۔ اس دن کے بعد سے اس نے ہوٹل سے باہر نکلنا بھی بند کردیا تھا۔ اسے پاکستان آئے ہوئے دو ماہ گزر چکے تھے۔ وہ اب دوبارہ پیسے جمع کرکے واپس بنگلہ دیش جانا چاہتا تھا مگر پاکستان سے بنگلہ دیش جانا ستر ہزار ٹکہ سے کہیں زیادہ مہنگا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اگلے تین چار سال سے پہلے یہاں سے نہیں نکل پائے گا، اور یہ تین چار سال گزارنے کیلئے اس نے کام میں ہی دل لگانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ بہت سے مستقل گاہک اس کے دوست بن چکے تھے۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ چائے دیتے وقت وہ پڑھے لکھے گاہکوں کے قریب زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکے۔ اسے معلوم تھا کہ ان لوگوں کی باتوں سے ہر بار کچھ نہ کچھ سیکھنے یا جاننے کو مل جاتا ہے۔
ایک چیز جو وہ اکثر گاہکوں سے سنتا تھا وہ "ڈیفنس والا ہے بھائی، کر سکتا ہے" تھی۔ کافی دن تک وہ اس بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا اور بالآخر ایک دن اس نے اپنے ایک مستقل گاہک وقاص بھائی کو پکڑ لیا اور پوچھ ہی بیٹھا کہ یہ ڈیفنس والا ہوتا کیا ہے؟ وقاص بھائی کا تعلق معاشرے کے اس محروم طبقے سے تھا جو اپنی تمام تر محرومیوں کی وجہ طبقہء اشرافیہ کو سمجھتے ہیں۔ وقاص بھائی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولے، ڈیفنس والے وہ ہوتے ہیں جو کراچی کے ایک چھوٹے سے حصے ڈیفنس میں رہتے ہیں اور کراچی کے باقی بڑے حصے پر راج کرتے ہیں۔ تو ڈیفینس والوں کی تو بہت عزت ہوتی ہوگی؟ اوئے سالے نے کھوئی ہوئی آواز میں سوال کیا۔ وقاص بھائی اس تبدیلی کو محسوس کیئے بغیر بولے، عزت ہو یا نہ ہو، ڈیفینس والے کی عزت کرنی پڑ ہی جاتی ہے۔ اوئے سالے کو تلاش کے صحرا میں ایک نخلستان نظر آگیا تھا۔ اس نے وقاص بھائی سے ڈیفینس کا پتہ پوچھا اور شام کو ہی پٹھان سیٹھ کو بتا دیا کہ اس نے رہائش کا کہیں باہر انتظام کرلیا ہے اور اب اسے ہوٹل میں رکنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ سیٹھ پہلے تو تھوڑا جزبز ہوا مگر پھر اس نے اوئے سالے کی خوشی کیلئے یہ کہہ کر اجازت دے دی کہ نئی جگہ پر اگر کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ ہو تو وہ جب دل کرے واپس ہوٹل میں آکر رہ سکتا ہے۔
وقاص بھائی کے بتائے ہوئے راستوں سے ہوتا ہوا وہ شام ڈھلے ڈیفینس کے علاقے میں پہنچ گیا۔ شاندار بنگلے اور چمچماتی گاڑیاں دیکھ کر اسے پتہ چل گیا تھا کہ ڈیفینس والے کی اتنی عزت کیوں ہوتی ہے۔ وہ یونہی ڈیفینس کی سڑکوں پر گھومتا رہا اور ماحول اور چیزوں کا جائزہ لیتا رہا۔ اس بات کا اسے بخوبی اندازہ تھا کہ وہ اپنی سال بھر کی تنخواہ سے بھی اس علاقے میں ایک ماہ کیلئے بھی گھر نہیں لے سکتا تھا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ رئوسا کی ہر بستی کے پہلو میں ایک کچی بستی ضرور بسائی جاتی ہے۔ بیچارہ غریب یہ سمجھتا ہے کہ امراء اسے اپنے پہلو میں جگہ دے رہے ہیں مگر دراصل وہ بستی ان سارے غلام ابنِ غلامان کیلئے ہوتی ہے جنہوں نے پورا دن ان امراء کی چاکری کرنی ہوتی ہے۔ قرب میں جگہ اس لیئے دی جاتی ہے کہ جب کبھی ضرورت پڑے انہیں گدی سے پکڑ کر حاضر کیا جاسکے۔ اس وقت اوئے سالے ایسی ہی کسی کچی بستی کی تلاش میں تھا جو اس ڈیفینس سے متصل ہو۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اوئے سالے کو وہ بستی مل ہی گئی۔ یہاں جاکر جب لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہاں وہ ایک کمرے کا مکان لیکر منتقل ہوسکتا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربوں سے اوئے سالے نے سیکھ لیا تھا کہ خوشی یا غم کے نتیجے پر پہنچنے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیئے۔ بسا اوقات بظاہر خوش کن دکھنے والی چیز آخر میں ایک بڑا غم دےجاتی ہے اور اس ہی طرح ابتداء میں ابتلاء نظر آنے والی چیز آخر میں زندگی کی کوئی بڑی خوشی ثابت ہوتی ہے۔ اوئے سالے خوش ہونے سے پہلے اپنی مکمل تسلی کرلینا چاہتا تھا۔ اس نے ایک تھڑے پر بیٹھے ایک بزرگ سے پوچھا کہ آیا یہاں رہنے والا بھی ڈیفینس والا ہی کہلاتا ہے؟ اور آیا وہ واقعی ڈیفینس والے کی طرح ہی عزت دار ہوتا ہے؟ بزرگ نے ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتے ہوئے کہا، اگر میں ڈیفینس والا کہلا بھی جائوں تو اس سے میری عزت پر کیا فرق پڑ جائے گا؟ میاں! کراچی میں ڈیفینس والا صرف وہ نہیں جو ڈیفینس نامی علاقے میں رہتا ہو۔ یہ تو اب ایک استعارہ ہے جو ہر پیسے والے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ورنہ کسی کچی بستی میں رہنے والے رئیس کی عزت ڈیفینس میں بسنے والے غریب سے زیادہ ہے۔ تو چاچا یہ ڈیفینس والے یا پیسے والے کو سب اتنی عزت کیوں دیتے ہیں؟ اوئے سالے نے معصومیت سے سوال کیا۔ بزرگ نے جواب دیا، بیٹا وہ جو محاورہ ہے نا کہ "یہ تو نہیں بول رہا، دیوار بول رہی ہے" بس سمجھ لو کہ یہاں پر بھی یہی معاملہ ہے۔ اوئے سالے کی کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ بزرگ کس محاورے اور کس دیوار کی بات کر رہے ہیں۔ بزرگ نے گویا اس کی پریشانی بھانپ لی اور بولے کہ ایک دفعہ ایک مرغ ایک دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ نیچے سے ایک کتے کا گزر ہوا تو مرغ کو شرارت سوجھی۔ اس نے اوپر سے ہی آواز لگائی، کیوں بھائی صاحب، آج بھونکیئے گا نہیں؟ کتے نے مرغ کو دیکھا، پھر دیوار کو دیکھا اور پھر آگے چل پڑا۔ مرغ نے اس سے شہہ پائی اور دوبارہ آواز کسی، کیوں حضرت، لگتا ہے آج پیٹ بھرا ہوا ہے؟ کتے نے پھر رک کر مرغ پر نظر ڈالی اور ایک مرتبہ پھر سر جھٹک کر آگے روانہ ہوگیا۔ اس مرتبہ تو مرغ نے حد ہی کردی، ایک بار پھر آواز لگا کر بولا، جائیے حضرت، شکار آپ جیسے زنخوں کا کام نہیں۔ آپ کو تو بس بیٹھ کر دم ہلانے اور مفت کی ہڈیاں چبانے کی لت لگ گئی ہے۔ کتا اس مرتبہ رکا اورمرغ کو دیکھ کر پہلی بار گویا ہوا، میاں مرغے، یہ تم نہیں بول رہے، یہ دیوار بول رہی ہے۔ اگر تو یہ دیوار نہ ہوتی تو دیکھتا کے یہ توتے کی طرح چلنے والی زبان کتنا ساتھ دیتی۔ تو ڈیفینس کے یہ تمام مرغے بھی پیسے کی دیوار پر چڑھ کر چلاتے ہیں اور ہر آنے والے پر آوازیں کستے ہیں۔ اگر تمہارے پاس بھی پیسے کی دیوار ہے تو چڑھ جائو اور ہر قریب سے گزرنے والے کو کاٹو، پھر تم شہر کے کسی بھی کونے میں رہو، غریب کی زبان میں کہلائو گے ڈیفینس والے ہی۔
اوئے سالے نے طے کرلیا تھا کہ اسے یہ ڈیفینس والی شناخت نہیں چاہیئے تھی۔ وہ جلد از جلد اس بستی سے نکل جانا چاہتا تھا۔ تیز قدموں سے چلتا ہوا وہ واپس ہوٹل پہنچ گیا جہاں سیٹھ ہوٹل بند کروانے کی تیاری میں مصروف تھا۔ اوئے سالے کو دیکھ کر پہلے تو وہ چونکا مگر پھر معاملہ سمجھ کر خود ہی مسکرا اٹھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اوئے سالے کو گلے لگایا اور اسے توجیہ پیش کرنے کی خفت سے بچاتے ہوئے اس کے کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔ اوئے سالے نے دل میں خدا کا لاکھ شکر ادا کیا اور کمرے میں جاکر سوگیا۔







شناخت

اگلے دن جب وہ سو کر اٹھا تو وہ اپنے آپ سے عہد کرچکا تھا کہ اب وہ اس شناخت کے سراب کے پیچھے مزید نہیں بھاگے گا۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ اگر انسان سراب کے پیچھے نہ بھی بھاگے تو بھی سراب انسان کے آگے آگے بھاگتا رہتا ہے۔ گھات لگاتا ہے، تاک میں رہتا ہے، کسی کمزور لمحے کی کہ جب انسان کی برداشت جواب دے چکی ہوتی ہے اور نارسائی کے تھکن ہوس میں تبدیل ہوکر سر پر چڑھ کر ناچ رہی ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی کمزور لمحات میں یہ سراب انسان کے آگے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آتا ہے، اسے ریجھاتا ہے، لبھاتا ہے، پاس بلاتا ہے اور سراب کی فطرت کے مطابق پھر ہاتھ نہیں آتا۔ انسان بھی ازل سے ہی سراب کی ان ہی ادائوں کو دیکھتا، پھر ان ہی ادائوں پر ریجھتا، پھر ان ہی ادائوں کو کوستا اور پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ ان ہی ادائوں کو دیکھتا آیا ہے۔ ایک مسلسل دائرہ وار سفر ہے جس کے یہ دونوں مسافر ایک دوسرے سے بے انتہا مخلص ہیں۔ دونوں ہی اپنی فطرت سے باز نہیں آتے۔ نہ وہ دھوکہ دینے سے اور نہ یہ دھوکہ کھانے سے۔
دن ہفتوں اور مہینوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ زندگی بھی آہستہ آہستہ اس پر مہربان ہوتی جارہی تھی۔ اس کی لگن اور محنت سے متاثر ہوکر سیٹھ نے اس کی تنخواہ بھی بڑھا دی تھی۔ گاہک بھی اب اس کو پہچاننے لگے تھے اور بخشش کی مد میں بھی وہ اچھے خاصے پیسے جمع کرنے لگا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ شاید اسے صبر آگیا ہے اور اب وہ بغیر کسی شناخت کے بھی خوش ہے، مگر ایسا صرف اسے لگتا تھا۔ خواہشات کی زمین پر وقت کی ریت وقتی طور پر تو حاوی ہوسکتی ہے مگر بارش کا ایک چھینٹا یا جذبات کی ایک ہلکی سی آندھی بھی اس ریت کو اٹھا پھینکنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔
وہ ہوٹل کا کچھ سامان لینے کیلئے باہر نکلا ہوا تھا کہ اس کی نظر حیدر بھائی پر پڑی جنکی موٹر سائکل کو ایک پولیس والا اشارہ کرکے روک رہا تھا۔ حیدر بھائی کا دفتر اس کے ہوٹل کے بالکل ساتھ ہی تھا۔ وہ ایک مشہور ٹیلیویژن چینل کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے اور اوئے سالے کے مستقل گاہک تھے۔ اوئے سالے لپک کر حیدر بھائی کے پاس پہنچ گیا۔ اوئے سالے اس پولیس والے کو بھی بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ ایک کمینہ صفت انسان تھا۔ دن میں تین تین مرتبہ ہوٹل پر آکر مفت کی چائے پیتا تھا اور جاتے وقت اکثر و بیشتر ہوٹل کے گلے میں سے سو پچاس روپے ساتھ لےجاتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ رشوت کے معاملے میں دوستی یاری اور مروت دکھانا حرام ہے۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ اوئے سالے کو لگتا تھا کہ اس پولیس والے کے معاملے میں محاورہ گھوڑے کے بجائے کم سے کم سانڈ یا زیادہ سے زیادہ سور کا ہونا چاہیئے تھا۔ جتنی دیر میں وہ حیدر بھائی تک پہنچتا، حیدر بھائی اپنی جیب سے دفتر کا کارڈ نکال کر اس پولیس والے کو دکھا چکے تھے۔ جب وہ وہاں پہنچا تو پولیس والا کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے صفائیاں پیش کررہا تھا کہ صاحب پہلے بتانا تھا نا کہ آپ میڈیا والے ہو! آپ تو ہمارے مائی باپ ہو۔ جائو جائو آپ جائو۔ اور ہاں، دیکھیئے براہِ مہربانی اس بات کا ذکر کسی سے کیجیئے گا نہیں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اوئے سالے کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ اس پولیسیئے کو کسی کے آگے گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔ حیدر بھائی اتنی دیر میں اپنی موٹر سائکل دوبارہ سٹارٹ کرچکے تھے مگر اوئے سالے کو دیکھ کر رک گئے اور بولے، ارے لڑکے! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ کہو تو تمہیں ہوٹل چھوڑ دوں؟ نہیں میں تو ہوٹل کا کچھ سامان لینے نکلا تھا، بس آپ کو دیکھ کر رک گیا۔ آپ جائیں، میں واپس آکر آپکے لیئے چائے لیکر آتا ہوں۔ مجھے آپ سے ایک کام بھی ہے۔ اوئے سالے نے حیدر کو جواب دیا۔ چلو بس پھر میرے دفتر آجائو چائے لیکر، بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ حیدر نے یہ کہتے ہوئے موٹرسائکل میں گیئر ڈالا اور آگے نکل گیا جبکے اوئے سالے بھی پلٹ کر بازار کی سمت چل دیا۔ جلدی جلدی خریداری سے فارغ ہوکر اوئے سالے نے استاد سے کہہ کر سپیشل دودھ پتی بنوائی اور حیدر بھائی کے آفس پہنچ گیا۔
حیدر بھائی کے دفتر میں بیٹھ کر وہ خاموشی سے ان کے چائے ختم کرنے کا انتظار کرتا رہا۔ جب وہ چائے سے فارغ ہوئے تو اس نے اپنا سوال حیدر بھائی کے سامنے رکھ دیا۔ میڈیا والے کی اتنی عزت دیکھ کر اس کے دل میں بھی میڈیا والا بننے کی خواہش جاگ اٹھی تھی۔ یہ خواہش دراصل میڈیا والا بننے کی بھی نہیں تھی بلکہ اس ہی شناخت کی خواہش کا ایک شاخسانہ تھا جو اسے ڈھاکہ سے اٹھا کر کراچی تک کھینچ لائی تھی۔ حیدر بھائی نےجب اس سے اس کی تفصیلات معلوم کیں تو انہوں نے اس ہی وقت اوئے سالے کو بتا دیا کہ بغیر شناختی کارڈ کے ان کے یا کسی بھی اور میڈیا کے ادارے میں نوکری ملنا ناممکن ہے۔ اوئے سالے کی تمام امیدیں ایک مرتبہ پھر خاک میں مل گئیں تھیں۔ شدید مایوسی کے عالم میں وہ برتن سمیٹ کر جانے لگا تو حیدر بھائی نے اسے روک لیا۔ انہوں نے اس کے سامنے ایک پیشکش رکھی کہ اگر وہ وعدہ کرے کہ وہ نہ تو اس بات کا کسی سے ذکر کرے گا اور نہ کبھی اس میڈیا کی شناخت کا ناجائز استعمال کرے گا، تو وہ اس کی کچھ مدد کرسکتے ہیں۔ اوئے سالے نے فوراٗ سے دونوں باتوں کی ہامی بھر لی۔ حیدر بھائی نے اسے دو تصویریں لانے کا کہا اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کا کام کردیں گے۔ اوئے سالے خوشی سے چھلانگیں لگاتا ہوا واپس ہوٹل پہنچا اور برتن کائونٹر پر پھینک کر جلدی سے اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔ اس نے اپنا سب سے بہترین جوڑا نکالا، خوب رگڑ رگڑ کر منہ دھویا اور سیٹھ کو تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کر سیدھا فوٹوگرافر کی دکان پر جا پہنچا۔ تصویر ہاتھ کے ہاتھ مل گئی تھی سو وہ سیدھا حیدر بھائی کے پاس جا پہنچا۔ حیدر بھائی اسے اتنی جلدی واپس آتا دیکھ کر چونکے ضرور مگر وہ اس کی کھلی ہوئی بانچھوں اور چمکتی ہوئی آنکھوں سے اس کی واضح خوشی اور ہیجان کو محسوس کرسکتے تھے۔ انہوں نے اوئے سالے کو بیٹھنے کو کہا اور پندرہ منٹ بعد اوئے سالے کے ہاتھ میں ادارے کا کارڈ بمع مہر موجود تھا جس کی رو سے مسٹر اوئے سالے اس ادارے کے باضابطہ ملازم تھے۔ اوئے سالے کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے کارڈ جیب میں رکھا اور حیدر بھائی کا شکریہ ادا کرتے کرتے تقریباٗ رو پڑا۔ حیدر بھائی کو باقاعددہ وضاحت کرنی پڑی کے اس کارڈ کا مطلب یہ نہیں کہ اب ادارہ اسے تنخواہ دینے کا پابند ہے مگر ان کو پتہ نہیں تھا کہ اگر اس کارڈ کیلئے اوئے سالے کو ماہانہ بنیاد پر ادارے کو کچھ پیسے جیب سے بھی دینے پڑ جاتے تو یہ سودا بھی اسے بخوشی منظور تھا۔ واپس ہوٹل آکر اس نے سیٹھ کو بتا دیا کہ ایک مرتبہ پھر وہ یہ کمرہ خالی کر رہا ہے اوراب کہیں اور جاکر رہے گا۔ نوکری البتہ وہ اس ہی طرح جاری رکھے گا جیسے وہ پہلے کرتا آیا تھا۔ سیٹھ اب تک اوئے سالے کو کافی حد تک سمجھ چکا تھا سو اس نے اصرار نہیں کیا۔ اگلے دو دن میں اوئے سالے نے ایک چھوٹا سا دڑبہ نما مکان ڈھونڈ لیا تھا اور اس میں منتقل ہوگیا۔




انجام

نئے مکان اور اس نئی شناخت نے اوئے سالے کی زندگی یکسر تبدیل کردی تھی۔ وہ ایک غریبوں کی بستی میں رہ رہا تھا جہاں ہر طاقتور آدمی ایک زمینی خدا ہوتا ہے۔ اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کی بستی کے تمام زمینی خدا، حقیقی خدا سے بھی زیادہ اس میڈیا نامی بلا سے ڈرتے تھے۔ اوئے سالے نے اپنے مکان کے باہر ایک نام کی تختی لگوالی تھی جس پر وہ بصد شوق، "اوئے سالے میڈیا والے" لکھوا لایا تھا۔ جب وہ تختی بنوانے پہنچا تھا تو رنگ ساز نے یہ نام لکھنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ بیچارہ خود ایک غریب آدمی تھا اور کسی مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ اوئے سالے کو یقین دلانے کیلیئے اپنا میڈیا کا کارڈ دکھانا پڑا کہ یہ واقعی اس کا نام ہے۔ بہرحال، جب سے مکان پر یہ تختی لگی تھی اور محلے والوں کو پتہ چلا تھا کہ اوئے سالے ایک ٹی وی چینل پر کام کرتا ہے تو وہی لوگ جو پہلے دن سے اس کے نام کا مذاق اڑتاے تھے، انہی سب لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ دوستانہ بلکہ خوشامدانہ ہوگیا تھا۔ اوئے سالے اس صورتحال سے بےحد خوش تھا۔ محلے میں اسے منتقل ہوئے قریباٗ ایک ماہ ہو چکا تھا۔ اوئے سالے سوچ رہا تھا کہ اب مکان کے باہر لگی اوئے سالے میڈیا والے کی تختی کو تبدیل کرکے "اوئے سالے میڈیا والے، صاحب" کروالے، مگر تقدیر کو اس مرتبہ بھی کچھ اور ہی منظور تھا۔
آج ہوٹل کی چھٹی کا دن تھا اور اوئے سالے گھر پر ہی تھا جب محلے میں شور اٹھا کہ مشہور ٹیلیویژن شو کے میزبان اپنی ٹیم کے ساتھ پروگرام کرنے اس بستی میں آئے ہوئے ہیں۔ بستی کے تمام لوگوں نے اس میزبان اور اس کی ٹیم کو گھیرا ہوا تھا کہ پروگرام ان کے محلے میں ہو تاکہ وہ لوگ بھی موٹر سائکل یا موبائل فون وغیرہ کچھ جیت سکیں۔ ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا تھا اور دھکم پیل اور گالم گلوچ شروع ہوگئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گویا یہ بستی کا پروگرام نہیں بلکہ کسی ٹی وی چینل کی رمضان ٹرانسمیشن چل رہی ہوں۔
اوئے سالے کے محلے دار بھی چاہتے تھے کہ پروگرام ان کے محلے میں ہو۔ انہوں نے اوئے سالے کو ساتھ لیا اور بھیڑ میں جگہ بناتے ہوئے سیدھے اس میزبان تک پہنچ گئے۔ وہ بیچارہ میزبان بھی اب تھوڑا گھبرا گیا تھا۔ یہ نہیں کہ اس کو اس سب ہجوم کی عادت نہیں تھی، مگر وہ ڈر رہا تھا کہ اس دھکم پیل میں خود اس کی گت نہ بن جائے۔ باقی رہی عوام، تو عوام کے بارے میں اس کی رائے یہ تھی کہ یہ کیڑے مکوڑے پیدا ہی ذلیل ہونے اور ایک دوسرے پر ہنسنے کیلئے تھے۔ یہ وہ قوم تھی جو ایک دوسرے کے ساتھ ہنسنے کے بجائے ایک دوسرے پر ہنسنے کو زیادہ تفریح کن سمجھتی تھی۔ اس ہی چیز کو سمجھتے ہوئے اس نے اپنا ٹیلیویژن پروگرام ترتیب دیا تھا اور اس کے پروگرام کی وجہ شہرت یہی ذلت تھی جو وہ آنے والے لوگوں میں تقسیم کرتا تھا جبکہ باقی سارا ملک اس ذلت کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ اس کی ان ہی حرکات کی بنیاد پر پچھلے پانچ سال سے وہ ریٹنگ کی دنیا کا بادشاہ مانا جاتا تھا۔ کئی بار اس کی ناشائستہ ویڈیوز اور کلپ انٹرنیٹ پر بھی آئے مگر یہ سب چیزیں الٹا اس کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنی تھیں۔ س سال پہلی مرتبہ اس کی ریٹنگ میں کچھ کمی آئی تھی اور وہ سنجیدگی سے ایک بار پھر مغلضات سے بھرپور کوئی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ مگر فی الوقت اس کیلئے ریٹنگ یا پروگرام مسئلہ نہیں تھا، مسئلہ یہ احمق اور غلیظ عوام تھے۔ اسے یاد تھا کہ ایک بار وہ اس ہی طرح چند مدرسے کے بچوں میں گھر گیا تھا اور وہاں جان بچانا عذاب ہوگیا تھا۔ اس دن سے اس کے دل میں عوامی مقامات پر عام عوام کے رش سے ڈر بیٹھ گیا تھا۔ آج بھی اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح ان کیڑے مکوڑوں سے جان چھڑائے کہ ایک صاحب نے اس سے کہا، سر! آپ کو پروگرام ہمارے محلے میں کرنا چاہیے کیونکہ میں نے صرف آپ کی وجہ سے آپ کے چینل پر کام کرنے والے صاحب کو اپنا مکان کرائے پر دیا ہوا ہے۔ اس امید پر کہ ایک دن وہ مجھے آپکے پروگرام کا پاس لا کر دے گا۔ میزبان نے دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ وہ کن صاحب کی بات کر رہا ہے؟ اوئے سالے کے مالک مکان نے اوئے سالے کو بازو سے پکڑ کر آگے کردیا۔ اوئے سالے کو محلے والوں نے جب گھر سے بلایا تو وہ سمجھا کہ کوئی ضروری کام ہوگا جس کیلئے اسے بلایا جا رہا ہے۔ جب وہ اس ہجوم کے پاس پہنچا تو اسے لگا کہ کوئی گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے جہاں اسے صلح صفائی کیلئے لے جایا جارہا ہے۔ اور جب اسے کھینچ کر اس میزبان کے سامنے کیا گیا تو اس نے دیکھا کہ یہ وہی میزبان ہے جسے کبھی بھی اس کے ہوٹل کی چائے پسند نہیں آتی تھی۔ اس نے گھبرا کر مڑنا چاہا مگر ایک زوردار قہقہے نے اس کے پائوں جکڑ لیئے۔ میزبان ہنستے ہوئے اس کے مالک مکان کو بتا رہا تھا کہ یہ صاحب نہیں اوئے سالے چائے والا ہے اور یہ ہمارے کیا کسی بھی میڈیا چینل کیلئے کام نہیں کرتا۔ اوئے سالے کا دل کیا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ عزت جانے کا دکھ عزت نہ ہونے کی تکلیف سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ اتنے دیر میں پروڈیوسر نے آکر میزبان کے کان میں بتایا کہ شرقی محلے والوں سے پانچ لاکھ میں بات ہوگئی ہے۔ میزبان نے اعلان کردیا کہ پروگرام اب شرقی محلے میں ہوگا آپ تمام حضرات وہیں پہنچ جائیں۔ لوگوں نے جلدی جلدی شرقی محلے کی طرف بھاگنا شروع کردیا تاکہ کوئی اگلی جگہ مل سکے اور وہ بھی ٹیلیویژن پر آسکیں۔ اور اگر قسمت نے مزید یاوری کی تو ایک آدھ انعام بھی جیت سکیں۔ اوئے سالے اب تک نظریں جھکائے اپنے قدموں کی طرف ہی دیکھ رہا تھا گویا وپاں اس کے پیروں کی جگہ کوئی نئی چیز اگ آئی ہو اور وہ پہلی بار اس چیز کو دیکھ رہا ہو۔ مالک مکان نے اوئے سالے کو دھکا دےکر ایک طرف کیا، اس کی طرف دیکھا اور حقارت سے تھوک کر مجمع کے ساتھ تیزی سے شرقی محلے کی طرف بھاگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اوئے سالے اس جگہ پر اکیلا کھڑا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو وہ واپس اپنے گھر گیا، سامان سمیٹا، اگلے ماہ کا پیشگی کرایہ ایک لفافے میں کرکے دروازے کے ساتھ رکھا اور باہر لگی اپنے نام کی تختی اتار کر وہاں سے نکل آیا۔
اس مرتبہ اس کے پاس جانے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ مکان وہ خالی کر آیا تھا۔ ہوٹل پر کل نہیں تو پرسوں تک یہ قصہ پہنچ ہی جانا تھا کہ اوئے سالے ایک جعلی شناخت رکھ کر لوگوں کو الو بنا رہا تھا۔ اور وہ فی الحال اس ذلت و شرمندگی کیلئے تیار نہیں تھا۔ جب کچھ اور سمجھ نہیں آیا تو وہ بس میں بیٹھ کر عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر آگیا۔ کافی دیر مزار پر بے مقصد بیٹھا رہا۔مگر باہر جا کر بھی کیا کرتا؟ صبح سے دوپہر ہوگئی اور مزار کا لنگر کھل گیا مگر اس کی بھوک بالکل مرچکی تھی۔ وہ لنگر پر بھی نہیں گیا۔ دوپہر سے شام ہوئی اور جب سورج ڈھلنے لگا تو وہ گھبرا کر مزار سے باہر آگیا۔ مزار سے اس نے دیکھا کہ دور سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس نے سمندر کی سمت چلنا شروع کردیا۔ ساحل پر عوام کا بےتحاشہ رش تھا۔ اس نے ساحل پر اترنے کے بجائے فٹ پاتھ پر ہی رکنے کا فیصلہ کرلیا۔ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر وہ لہریں گن رہا تھا کہ اسے احساس ہوا کہ اس نے صبح سے کچھ نہیں پیا ہے اور پیاس سے حلق خشک ہورہا ہے۔ قریب ہی واقع کینٹین سے اس نے پانی کی بوتل اور ایک چائے لی اور ایک قریبی میز پر بیٹھ گیا جہاں پہلے سے دو آدمی بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ ان دونوں نے اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور دوبارہ اپنی گفتگو میں میں مصروف ہوگئے۔ پانی حلق سے اترا تو کچھ حواس بحال ہوئے اور صبح کی ذلت ایک مرتبہ پھر اس کے دماغ میں گھومنے لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ دونوں آدمی محسوس کرتے، اس نے جلدی سے اپنی آنکھوں کے بھیگتے ہوئے کنارے پونچھ ڈالے۔ اس نے اپنا دماغ بٹانے کیلئے ان دونوں حضرات کی گفتگو سننا شروع کردی۔ وہ دونوں ملک کی موجودہ معاشی و سیاسی و سماجی صورتحال پر گفتگو کر رہے تھے۔ ہر ایک بات کی تان اس ہی بات پر ٹوٹ رہی تھی کہ اب اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا، اس سے بہتر ہے کہ انسان بنگلہ دیش چلا جائے۔ شدید کرب کی حالت میں بھی اوئے سالے کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسے ہوٹل پر آنے والے عاطف بھائی یاد آگئے جو اکثر کسی انگریز شاعر جون کا یہ شعر سناتے تھے ۔۔
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے، وہ خوبصورت ہے
آج اسے اس شعر کا اصل مطلب سمجھ آگیا تھا۔ کرسی کی پشت پر نیم دراز ہوکر اس نے کاہلی سے چائے کی چسکیاں لینا شروع کردیں۔ وہ دونوں افراد اب معاشرے میں پھیلی ہوئی اس بےوجہ اداسی کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے قومی مورال شدید نیچے آرہا تھا اور مقابلے کا جذبہ بالکل ناپید ہوتا جارہا تھا۔ ایک صاحب دوسرے کو بتا رہے تھے کہ کل پھر ایک لاوارث آدمی کی لاش ملی ہے جس نے خودکشی کرلی تھی۔ دوسرے صاحب نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ابھی تین دن پہلے تو ایک لاوارث کی لاش ملی تھی، پھر سے؟؟ اوئے سالے اب سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، وہ ان کی گفتگو میں مخل تو نہیں ہونا چاہتا تھا مگر پھر بھی پوچھ ہی بیٹھا کہ بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟ یہ ایک ہی آدمی دو دفعہ کیسے مرسکتا ہے؟ وہ دونوں آدمی اس کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ ان میں سے ایک بولا کہ ایک آدمی دو دفعہ کیسے مرسکتا ہے بھائی؟ ہم دو الگ لوگوں کی بات کررہے ہیں!!! اوئے سالے کو لگا کہ وہ اپنا سوال ٹھیک سے بیان نہیں کرپایا ہے۔ اس نے تشریح کرتے ہوئے کہا، مگر ابھی تو آپ نے کہا کہ لاوارث کل مرا ہے اور ان بھائی صاحب نے کہا اس لاوارث کی لاش تین دن پہلے ملی تھی؟ تو یہ لاوارث آدمی دو دفعہ کیسے مر سکتا ہے؟ ان دونوں آدمیوں نے بیک وقت ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ ان میں سے جو زیادہ ہوشیار دکھتا تھا اس نے کہا، مرے بھولے! لاوارث سے مراد وہ انسان ہے جس کا کوئی والی وارث ہو نہ شناخت! وہ تمام لوگ جو مرنے کے بعد قابلِ شناخت نہیں ہوتے ان کی یہی شناخت ہوتی ہے، لاوارث۔ اور مرنے کے کتنے عرصے بعد تک ان کی یہ شناخت رہتی ہے؟ اوئے سالے نے دلچسپی سے پوچھا۔ اس آدمی نے کہا، جب تک اس کی کوئی اور شناخت نہ مل جائے، یہی اس کی شناخت ہوتی ہے۔ اوئے سالے نے اب کھوئی ہوئی آواز میں اس سے پوچھا کہ آیا اس شناخت کیلئے تعلیم، قومیت، زبان، مذہب وغیرہ کی کوئی قید ہوتی ہے؟ اور آیا کوئی پولیس وااخ یا ٹی وی کا میزبان یہ شناخت چھین سکتا ہے؟ وہ دونوں آدمی اس گفتگو سے بیزار ہوچکے تھے۔ ان میں سے ایک جان چھڑانے کے سے انداز میں بولا کہ نہیں اس میں کسی چیز کی کوئی قید نہیں اور نہ ہی اس شناخت کو کوئی چھین سکتا ہے۔ مگر کون پاگل ہوگا جو اپنی شناخت لاوارث رکھنا چاہے گا؟ اوئے سالے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بابا یونس کہتا تھا کہ ہو سکتا ہے آپ کی دی ہوئی بھیک کسی کیلئے قارون کے خزانے کے برابر ہو۔ آپ کا شکریہ۔ اوئے سالے ان دونوں آدمیوں سے ہاتھ ملا کر اٹھ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک مکمل اور کبھی نہ چھننے والی شناخت پانے کیلئے اسے کیا کرنا تھا۔
دو دن بعد شام کے اخبار میں ایک دو کالمی خبر چھپی تھی کہ پرسوں سمندر میں ڈوبنے والے لاوارث آدمی کی لاش آج صبح سمندر نے اگل دی تھی۔

ختم شد

بلاگ فالوورز

آمدورفت